کلام طاہر

کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ1۔3 1۔ ظہورخیرالانبیاء صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم اِک رات مفاسد کی وہ تیرہ و تار آئی جو نور کی ہر مشعل ظلمات پہ وار آئی تاریکی پہ تاریکی ، گمراہی پہ گمراہی ابلیس نے کی اپنے لشکر کی صف آرائی طوفان ِمفاسد میں غرق ہو گئے بحر وبر اِیرانی و فارانی ۔ رُومی و بُخارائی بن بیٹھے خدا بندے ۔ دیکھا نہ مقام اُس کا طاغوت کے چیلوں نے ہتھیا لیا نام اُس کا تب عرشِ معلی سے اِک نور کا تخت اُترا اِک فوج فرشتوں کی ہمراہ سوار آئی اک ساعتِ نورانی ، خورشید سے روشن تر پہلو میں لئے جلوے بے حد و شمار آئی کافور ہوا باطل ، سب ظلم ہوئے زائل اُس شمس نے دِکھلائی جب شانِ خودآرائی ابلیس ہوا غارت ، چوپٹ ہوا کام اُس کا توحید کی یورش نے دَر چھوڑا نہ بام اُس کا وہ پاک محمدؐ ہے ہم سب کا حبیب آقا اَنوار ِرسالت ہیں جس کی چمن آرائی محبوبی و رعنائی کرتی ہیں طواف اُس کا قدموں پہ نثار اُس کے جمشیدی و دارائی نبیوں نے سجائی تھی جو بزم مہ و اَنجم واللہ اُسی کی تھی سب انجمن آرائی دن رات درُود اُس پر ہر اَدنیٰ غلام اُس کا پڑھتا ہے بصد منت جپتے ہوئے نام اُس کا آیا وہ غنی جس کو جو اپنی دُعا پہنچی ہم در کے فقیروں کے بھی بخت سنوار آئی ظاہر ہوا وہ جلوہ جب اُس سے نگہ پلٹی خود حسن نظر اپنا سو چند نکھار آئی اے چشم خزاں دیدہ کھل کھل کہ سماں بدلا اے فطرتِ خوابیدہ ! اُٹھ اُٹھ کہ بہار آئی نبیوں کا اِمام آیا ، اللہ اِمام اُس کا سب تختوں سے اُونچا ہے تخت عالی مقام اُس کا اللہ کے آئینہ خانے سے شریعت کی نکلی وہ دُلہن کر کے جو سولہ سنگار آئی اُترا وہ خدا کوہ ِفارانِ محمدؐ پر موسیٰ کو نہ تھی جس کے دیدار کی یارائی سب یادوں میں بہتر ہے وہ یاد کہ کچھ لمحے جو اُس کے تصور کے قدموں میں گزار آئی وہ ماہ تمام اُس کا ، مہدی تھا غلام اُس کا روتے ہوئے کرتا تھا وہ ذکر مدام اُس کا مرزائے غلام احمد ، تھی جو بھی متاع جاں کر بیٹھا نثار اُس پر۔ہو بیٹھا تمام اُس کا دل اُس کی محبت میں ہر لحظہ تھا رام اُس کا اِخلاص میں کامل تھا وہ عاشقِ تام اُس کا اِس دور کا یہ ساقی ، گھر سے تو نہ کچھ لایا مے خانہ اُسی کا تھا ، مَے اُس کی تھی، جام اُس کا سازندہ تھا یہ، اس کے۔ سب ساجھی تھے میت اُس کے دُھن اِس کی تھی، گیت اُس کے۔ لب اِس کے ، پیام اُس کا اِک میں بھی تو ہوں یاربّ، صیدِتہ دام اُس کا دل گاتا ہے گن اُس کے لب جپتے ہیں نام اُس کا آنکھوں کو بھی دکھلا دے ، آنا لب بام اُس کا کانوں میں بھی رس گھولے ، ہر گام خرام اُس کا خیرات ہو مجھ کو بھی اک جلوۂ عام اُس کا پھر یوں ہو کہ ہو دل پر اِلہام کلام اُس کا اُس بام سے نور اُترے، نغمات میں ڈھل ڈھل کر نغموں سے اُٹھے خوشبو، ہو جائے سرود عنبر

نوٹ:۔    یہ نعت ١٩٧٦ء میں لکھی گئی تھی۔ بعد میں اس میں بعض اضافوں اور تبدیلیوں کے ساتھ پہلے ١٩٩٣ء کے جلسہ سالانہ انگلستان میں اور پھر جلسہ سالانہ جرمنی میں پڑھی گئی۔

کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ4۔6 2۔ اے شاہ مکی و مدنی سید الورٰیؐ بزبان حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام

اس کی شان ِنزول یہ ہے کہ رؤیا میں ایک شخص کو دیکھا کہ انتہائی درد میں ڈوبی ہوئی لَے کے ساتھ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی ایک نعت اس انداز سے پڑھ رہا ہے گویا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سامنے ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے آپ کے حضور حالِ دل پیش کیا جا رہا ہو۔ آپ کا وہ کلام تو اٹھنے پر لفظاً لفظاً میرے ذہن میں نہیں رہا تھا مگر اس کے ٹیپ کا مصرعہ ع            اے میرے والے مصطفی ؐ خوب ذہن پر نقش ہو گیا۔ کیونکہ وہ اسے بار بار ایک خاص کیفیت میں ڈوب کر دہراتا تھا۔ پس اسی روز گویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نمائندگی میں اس اثر کو  اپنے لفظوں میں ڈھالنے کی کوشش  کی جو اس نعت کو سنتے ہوئے دل پر نقش ہو گیا ۔ اگرچہ معین الفاظ کی صورت میں نہیں ڈھلا۔ اور کوشش یہی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نعتوں میں سے ہی کچھ مضمون اخذ کر کے پیش کیا جائے اور جہاں ممکن ہو آپ ہی کے اشعار زینت کے طور پر جڑ دیئے جائیں۔

اَے شاہ مکی و مدنی ، سید الورٰی تجھ سا مجھے عزیز نہیں کوئی دوسرا تیرا غلامِ در ہوں ، ترا ہی اسیر عشق تو میرا بھی حبیب ہے ، محبوب کبریا تیرے جلو میں ہی مرا اٹھتا ہے ہر قدم چلتا ہوں خاکِ پا کو تری چومتا ہوا تو میرے دل کا نور ہے ، اے جانِ آرزو روشن تجھی سے آنکھ ہے ، اے نیر ِہدی ہیں جان و جسم ، سو تری گلیوں پہ ہیں نثار اولاد ہے ، سو وہ ترے قدموں پہ ہے فدا تو وہ کہ میرے دل سے جگر تک اتر گیا میں وہ کہ میرا کوئی نہیں ہے ترے سوا اے میرے والے مصطفی ، اے سید الوریٰ اے کاش ہمیں سمجھتے نہ ظالم جدا جدا رب ِجلیل کی ترا دل جلوہ گاہ ہے سینہ ترا جمالِ الٰہی کا مستقر قبلہ بھی تو ہے ، قبلہ نما بھی ترا وجود شانِ خدا ہے تیری اداؤں میں جلوہ گر نور و بشر کا فرق مٹاتی ہے تیری ذات ''بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر'' تیرے حضور تہ ہے مرا زانوئے ادب میں جانتا نہیں ہوں کوئی پیشوا دگر تیرے وجود کی ہوں میں وہ شاخِ باثمر جس پر ہر آن رکھتا ہے ربّ الورٰی نظر ہر لحظہ میرے درپئے آزار ہیں وہ لوگ جو تجھ سے میرے قرب کی رکھتے نہیں خبر مجھ سے عناد و بغض و عداوت ہے اُن کا دیں اُن سے مجھے کلام نہیں لیکن اِس قدر اے وہ کہ مجھ سے رکھتا ہے پرخاش کا خیال ''اے آں کہ سوئے من بدویدی بصد تبر از باغباں بترس کہ من شاخ مثمرم بعد از خدا بعشق محمد مخمرم گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم'' آزاد تیرا فیض زمانے کی قید سے برسے ہے شرق و غرب پہ یکساں ترا کرم تو مشرقی نہ مغربی اے نور ِشش جہات تیرا وطن عرب ہے ، نہ تیرا وطن عجم تو نے مجھے خرید لیا اِک نگہ کے ساتھ اب تو ہی تو ہے تیرے سوا میں ہوں کالعدم ہر لحظہ بڑھ رہا ہے مرا تجھ سے پیار دیکھ سانسوں میں بس رہا ہے ترا عشق دم بدم میری ہر ایک راہ تری سمت ہے رواں تیرے سوا کسی طرف اٹھتا نہیں قدم اے کاش مجھ میں قوتِ پرواز ہو تو میں اڑتا ہوا بڑھوں ، تری جانب سوئے حرم تیرا ہی فیض ہے کوئی میری عطا نہیں ''ایں چشمہ رواں کہ بخلق خدا دہم یک قطرہ ز بحر کمال محمد است جان و دلم فدائے جمال محمد است خاکم نثار کوچہ آل محمد است" لیبلز: کلام طاہر 3۔ صَلّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلِّم کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ7۔10 3۔ صَلّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلِّم حضرت سید ولد آدم ، صلَّی اللّٰہ علیہ وسلَّم سب نبیوں میں افضل و اکرم ، صلَّی اللّٰہ علیہ وسلَّم نام محمدؐ ، کام مکرم ، صلَّی اللّٰہ علیہ وسلَّم ہادئ کامل ، رہبرِ اعظم ، صلَّی اللّٰہ علیہ وسلَّم آپؐ کے جلوہ حسن کے آگے ، شرم سے نوروں والے بھاگے مہر و ماہ نے توڑ دیا دم ، صلَّی اللّٰہ علیہ وسلَّم اِک جلوے میں آناً فاناً بھر دیا عالم ، کر دئیے روشن اُتر دکھن پورب پچھم ، صلَّی اللّٰہ علیہ وسلَّم اول و آخر ، شارع و خاتم صلَّی اللّٰہ علیہ وسلَّم ختم ہوئے جب کل نبیوں کے دور نبوت کے افسانے بند ہوئے عرفان کے چشمے ، فیض کے ٹوٹ گئے پیمانے تب آئے وہ ساقی کوثر ، مست مئے عرفان ، پیمبر پیرِ مغانِ بادۂ اطہر ، مے نوشوں کی عید بنانے گھر آئیں گھنگور گھٹائیں ، جھوم اُٹھیں مخمور ہوائیں جھک گیا ابرِ رحمتِ باری ، آبِ حیات نو برسانے کی سیراب بلندی پستی ، زندہ ہو گئی بستی بستی بادہ کشوں پر چھا گئی مستی ، اک اک ظرف بھرا برکھا نے اک برسات کرم کی پیہم صلَّی اللّٰہ علیہ وسلَّم چارہ گروں کے غم کا چارہ ، دُکھیوں کا اِمدادی آیا راہنما٭بے راہرووں کا ، راہبروں٭ کا ہادی آیا عارف کو عرفان سکھانے ، متقیوں کو راہ دکھانے جس کے گیت زبور نے گائے ، وہ سردار منادی آیا وہ جس کی رحمت کے سائے یکساں ہر عالم پر چھائے وہ جس کو اللہ نے خود اپنی رحمت کی ردا دی ، آیا صدیوں کے مردوں کا مُحی ، صَلِّ عَلَیْہِ کَیْفَ یُحْیٖ موت کے چنگل سے انسان کو دلوانے آزادی آیا جس کی دعا ہر زخم کا مرہم صلَّی اللّٰہ علیہ وسلَّم شیریں بول ، انفاس مطہر ، نیک خصائل ، پاک شمائل حاملِ فرقاں ، عالم و عامل ، علم و عمل دونوں میں کامل جو اُس کی سرکار میں پہنچا ، اُس کی یوں پلٹا دی کایا جیسے کبھی بھی خام نہیں تھا ، ماں نے جنا تھا گویا کامل اُس کے فیضِ نگاہ سے وحشی ، بن گئے حلم سکھانے والے معطی بن گئے شہر ۂ عالم ، اُس عالی دربار کے سائل نبیوں کا سرتاج ، اَبنائے آدم کا معراج ، محمدؐ ایک ہی جست میں طے کر ڈالے ، وصلِ خدا کے ہفت مراحل ربّ ِعظیم کا بندئہ اعظم صلَّی اللّٰہ علیہ وسلَّم وہ اِحسان کا اَفسوں پھونکا ، موہ لیا دل اپنے عدو کا کب دیکھا تھا پہلے کسی نے ، حسن کا پیکر اس خوبو کا نخوت کو ایثار میں بدلا ، ہر نفرت کو پیار میں بدلا                            عاشق جان نثار میں بدلا ، پیاسا تھا جو خار لہو کا اُس کا ظہور ، ظہور خدا کا ، دکھلایا یوں نور خدا کا بتکدہ ہائے لات و منات پہ طاری کر دیا عالم ہو کا توڑ دیا ظلمات کا گھیرا ، دُور کیا ایک ایک اندھیرا جَاءَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِل٭ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقا گاڑ دیا توحید کا پرچم صلَّی اللّٰہ علیہ وسلَّم

٭ انہیں الف کی مد کے ساتھ ''رآہ نما'' اور ''رآہ بروں'' پڑھنا ہے۔ ٭ شعر میں یہاں وقف کرنا ہے اس لئے بَاطِلٌ کی بجائے بَاطِلْ پڑھا جائے۔

کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ11۔12 4۔ ربوہ کی ایک مبارک رات

ربوہ میں ٢٧ رمضان المبارک کی رات کے روح آفریں مناظر سے متاثر ہو کر

ذکر سے بھر گئی ربوہ کی زمیں آج کی رات اتر آیا ہے خداوند یہیں آج کی رات شہر ۔ جنت کے ملا کرتے تھے طعنے جس کو بن گیا واقعۃً خلدِ بریں آج کی رات وا درِ گریہ ، کشا دیدہ و دل ، لب آزاد کس مزے میں ہیں ترے خاک نشیں آج کی رات کوچے کوچے میں بپا شور '' مَتٰی نَصْرُ اللّٰہ'' لاجرم نصرتِ باری ہے قریں ، آج کی رات جانے کس فکر میں غلطاں ہے مرا کافر گر اِدھر اِک بار جو آنکلے کہیں آج کی رات '' غیر مسلم '' کسے کہتے ہیں ۔اُسے دکھلائے ایک اک ساکن ربوہ کی جبیں ، آج کی رات ''کافر و ملحد و دجال '' بلا سے ہوں مگر تیرے عشاق کوئی ہیں تو ہمیں۔ آج کی رات آنکھ اپنی ہی ترے عشق میں ٹپکاتی ہے وہ لہو جس کا کوئی مول نہیں۔ آج کی رات دیکھ اس درجہ غمِ ہجر میں روتے روتے مر نہ جائیں ترے دیوانے کہیں۔آج کی رات جن پہ گزری ہے وہی جانتے ہیں ۔غیروں کو کیسے بتلائیں کہ تھی کتنی حسیں آج کی رات کاش اُتر آئیں یہ اُڑتے ہوئے سیمیں لمحات کاش یوں ہو کہ ٹھہر جائے یہیں آج کی رات کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ13۔14 5۔ خدامِ احمدیت ہیں بادہ مست بادہ آشامِ احمدیت چلتا ہے دور ِمینا ؤ جامِ احمدیت تشنہ لبوں کی خاطر ہر سمت گھومتے ہیں تھامے ہوئے سبوئے گلفامِ احمدیت خدامِ احمدیت ، خدامِ احمدیت جب دہریت کے دم سے مسموم تھیں فضائیں پھوٹی تھیں جابجا جب اِلحاد کی وبائیں تب آیا اک منادی ۔اور ہر طرف صدا دی آؤ کہ ِان کی زد سے اِسلام کو بچائیں زور دُعا دکھائیں خدامِ احمدیت پھر باغ مصطفی ؐ کا دھیان آیا ذُوالمِنَن کو سینچا پھر آنسوؤں سے احمد نے اِس چمن کو آہوں کا تھا بلاوا پھولوں کی اَنجمن کو اور کھینچ لائے نالے مرغانِ خوش لحن کو لوٹ آئے پھر وطن کو ، خدامِ احمدیت چمکا پھر آسمان مشرق پہ نامِ احمدؐ مغرب میں جگمگایا ماہ تمامِ احمدؐ وہم و گمان سے بالا عالی مقامِ احمدؐ ہم ہیں غلامِ خاک پائے غلامِ احمدؐ مرغان دامِ احمدؐ ، خدامِ احمدیت ربوہ میں آجکل ہے جاری نظام اپنا پر قادیاں رہے گا مرکز مدام اپنا تبلیغِ احمدیت دنیا میں کام اپنا دارالعمل ہے گویا عالم تمام اپنا پوچھو جو نام اپنا ، خدامِ احمدیت اٹھو کہ ساعت آئی اور وقت جا رہا ہے پسر مسیح ؑدیکھو کب سے جگا رہا ہے گو دیر بعد آیا از راہ ِدور لیکن وہ تیز گام آگے بڑھتا ہی جا رہا ہے تم کو بلا رہا ہے ، خدامِ احمدیت!

یہ نظم ربوہ کی تعمیر کے دوران ١٩٤٨ء میں کہی گئی تھی۔ بعض اضافوں اور تبدیلیوں کے ساتھ ١٩٨٩ء میں صد سالہ جشن تشکر کے موقع پر پڑھی گئی۔

کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ15۔16 6۔ مرد ِحق کی دُعا

دو گھڑی صبر سے کام لو ساتھیو! آفت ظلمت و جور ٹل جائے گی آہ ِمومن سے ٹکرا کے طوفان کا ، رُخ پلٹ جائے گا ، رُت بدل جائے گی تم دعائیں کرو یہ دعا ہی تو تھی ، جس نے توڑا تھا سرکبر ِنمرود کا ہے اَزل سے یہ تقدیرِ نمرودیت ، آپ ہی آگ میں اپنی جل جائے گی یہ دُعا ہی کا تھا معجزہ کہ عصا ، ساحروں کے مقابل بنا اَژدھا آج بھی دیکھنا مرد ِحق کی دعا ، سحر کی ناگنوں کو نگل جائے گی خوں شہیدانِ اُمت کا اے کم نظر ! رائیگاں کب گیا تھا کہ اَب جائے گا ہر شہادت ترے دیکھتے دیکھتے ، پھول پھل لائے گی ، پھول پھل جائے گی ہے ترے پاس کیا گالیوں کے سوا ، ساتھ میرے ہے تائید ِربّ الورٰی کل چلی تھی جو لیکھو پہ تیغ ِدعا ، آج بھی ، اِذن ہو گا تو چل جائے گی دیر اگر ہو تو اندھیر ہرگز نہیں ، قول اُمْلِیْ لَھُمْ اِنَّ کَیْدِیْ مَتِیْن سنت اللہ ہے، لاجرم بالیقیں ، بات ایسی نہیں جو بدل جائے گی یہ صدائے فقیرانہ حق آشنا ، پھیلتی جائے گی شش جہت میں سدا تیری آواز اے دشمن بد نوا ! دو قدم دور دو تین پل جائے گی عصرِ بیمار کا ہے مرض لا دوا ، کوئی چارہ نہیں اب دُعا کے سوا اے غلام ِمسیح ُالزماں ہاتھ اٹھا ، موت بھی آگئی ہو تو ٹل جائے گی

جلسہ سالانہ ربوہ ١٩٨٣ء کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ17۔18 7۔ موسیٰ پلٹ کہ وادئ ِایمن اُداس ہے پیغام آرہے ہیں کہ مسکن اُداس ہے طائر کے بعد اُس کانشیمن اُداس ہے اک باغباں کی یاد میں سرو و سمن اُداس اہلِ چمن فسردہ ہیں گلشن اُداس ہے نرگس کی آنکھ نم ہے تو لالے کا داغ اُداس غنچے کا دل حزیں ہے تو سوسن اُداس ہے ہر موج خونِ گل کا گریباں ہے چاک چاک ہر گل بدن کا پیرہن تن اُداس ہے آزردہ گل بہت ہیں کہ کانٹے ہیں شاد کام برق ِتپاں نہال ، کہ خرمن اُداس ہے سینے پہ غم کا طور لئے پھر رہا ہے کیا موسیٰ پلٹ کہ وادئِ ایمن اُداس ہے بس نامہ بر ، اَب اِتنا تو جی نہ دُکھاکہ آج پہلے ہی دل کی ایک اِک دھڑکن اُداس ہے بن باسیوں کی یاد میں کیا ہوں گے گھر اُداس جتنا کہ بن کے باسیوں کا مَن اُداس ہے مجنوں کا دشت اُداس ہے صحن چمن اُداس صحرا کی گود ، لیلیٰ کا آنگن اُداس ہے چشم ِحزیں میں آ تو بسے ہو مرے حبیب کیوں پھر بھی میری دید کا مسکن اُداس ہے گھبرا کے دردِ ہجر سے اے میہمانِ عشق جس من میں آکے اترے ہو وہ من اُداس ہے آنکھوں سے جو لگی ہے جھڑی تھم نہیں رہی آ کر ٹھہر گیا ہے جو ساون اُداس ہے بس یاد ِدوست اور نہ کر فرشِ دل پہ رقص سن ! کتنی تیرے پاؤں کی جھانجن اُداس ہے لو نغمہ ہائے درد نہاں تم بھی کچھ سنو دیکھو نا، میرے دل کی بھی راگن اُداس ہے جلسہ سالانہ یو کے ١٩٨٤ء کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ19۔22 8۔ آ رہے ہیں مری بگڑی کے بنانے والے اے مجھے اپنا پرستار بنانے والے جوت اک پریت کی ہردے میں جگانے والے سرمدی پریم کی آشاؤں کو دھیرے دھیرے مدھ بھرے سر میں مدھر گیت سنانے والے اے محبت کے امر دیپ جلانے والے پیار کرنے کی مجھے ریت سکھانے والے غمِ فرقت میں کبھی اتنا رلانے والے کبھی دلداری کے جھولوں میں جھلانے والے دیکھ کر دل کو نکلتا ہوا ہاتھوں سے کبھی رس بھری لوریاں دے دے کے سلانے والے کیا ادا ہے مرے خالق ، مرے مالک، مرے گھر چھپ کے چوروں کی طرح رات کو آنے والے راہ گیروں کے بسیروں میں ٹھکانا کر کے بے ٹھکانوں کو بنا ڈالا ٹھکانے والے مجھ سے بڑھ کر مری بخشش کے بہانوں کی تلاش کس نے دیکھے تھے کبھی ایسے بہانے والے تو تو ایسا نہیں محبوب کوئی اور ہوں گے وہ جو کہلاتے ہیں دل توڑ کے جانے والے تو تو ہر بار سر رہ سے پلٹ آتا ہے دل میں ہر سمت سے پل پل مرے آنے والے مجھ سے بھی تو کبھی کہہ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّہ روح بیتاب ہے روحوں کو بلانے والے اِس طرف بھی ہو کبھی ، کاشفِ اَسرار م، نگاہ ہم بھی ہیں ایک تمنا کے چھپانے والے اے مرے درد کو سینے میں بسانے والے اپنی پلکوں پہ مرے اشک سجانے والے خاک آلودہ ، پراگندہ ، زبوں حالوں کو کھینچ کر قدموں سے زانو پہ بٹھانے والے میں کہاں اور کہاں حرف شکایت آقا! ہاں یونہی ہول سے اٹھتے ہیں ستانے والے ہو اجازت تو ترے پاؤں پہ سر رکھ کے کہوں کیا ہوئے دن تیری غیرت کے دکھانے والے یہ نہ ہو روتے ہی رہ جائیں ترے در کے فقیر اور ہنس ہنس کے روانہ ہوں رلانے والے ہم نہ ہوں گے تو ہمیں کیا؟ کوئی کل کیا دیکھے آج دکھلا جو دکھانا ہے دکھانے والے وقت ہے وقت مسیحا نہ کسی اور کا وقت کون ہیں یہ تری تحریر مٹانے والے چھین لے ان سے زمانے کی عناں ، مالک وقت بنے پھرتے ہیں کم اوقات ، زمانے والے چشم گردوں نے کبھی پھر نہیں دیکھے وہ لوگ آئے پہلے بھی تو تھے آ کے نہ جانے والے سن رہا ہوں قدمِ مالکِ تقدیر کی چاپ آ رہے ہیں مری بگڑی کے بنانے والے کرو تیاری ! بس اب آئی تمہاری باری یوں ہی ایام پھرا کرتے ہیں باری باری ہم نے تو صبر و توکل سے گزاری باری ہاں مگر تم پہ بہت ہو گی یہ بھاری باری جلسہ سالانہ یو کے ١٩٨٤ء کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ23۔25 9۔ دل سے زباں تک کیا موج تھی جب دل نے جپے نام خدا کے اِک ذکر کی دھونی مرے سینے میں رَما کے آہیں تھیں کہ تھیں ذکر کی گھنگھور گھٹائیں نالے تھے کہ تھے سیل ِرواں حمد و ثنا کے سکھلا دیئے اُسلوب بہت صبر و رضا کے اب اور نہ لمبے کریں دن کرب و بلا کے اُکسانے کی خاطر تیری غیرت تیرے بندے کیا تجھ سے دُعا مانگیں ستم گر کو سُنا کے رکھ لاج کچھ اِن کی مرے ستار کہ یہ زخم جو دل میں چھپا رکھے ہیں پتلے ہیں حیا کے لاکھوں مرے پیارے تیری راہوں کے مسافر پھرتے ہیں ترے پیار کو سینوں میں بسا کے ہیں کتنے ہی پابندِ سلاسل وہ گنہگار نکلے تھے جو سینوں پہ ترا نام سجا کے میں اُن سے جدا ہوں مجھے کیوں آئے کہیں چین دل منتظر اُس دن کا کہ ناچے اُنہیں پا کے عشاق ترے جن کا قدم تھا قدمِ صدق جاں دے دی نبھاتے ہوئے پیمان وفا کے چھت اُڑ گئی سایہ نہ رہا کتنے سروں پر اَرمانوں کے دن جاتے رہے پیٹھ دکھا کے اِتنا تو کریں اُن کو بھی جا کر کبھی دیکھیں ایک ایک کو اپنا کہیں سینے سے لگا کے آداب محبت کے غلاموں کو سکھا کے کیا چھوڑ دیا کرتے ہیں دیوانہ بنا کے؟ دیں مجھ کو اجازت کہ کبھی میں بھی تو رُوٹھوں لطف آپ بھی لیں رُوٹھے غلاموں کو منا کے لیکن مجھے زیبا نہیں شکوے میرے مالک یہ مجھ سے خطا ہو گئی اوقات بھلا کے دیوانہ ہوں دیوانہ ۔ برا مان نہ جانا صدقے مری جاں ، آپ کی ہر ایک اَدا کے سُنیئے تو سہی پگلا ہے دل پگلے کی باتیں ناراض بھی ہوتا ہے کوئی دل کو لگا کے ٹھہریں تو ذرا ۔دیکھیں ، خفا ہی تو نہ ہو جائیں جانا ہے تو کچھ درس تو دیں صبر و رضا کے جو چاہیں کریں ۔ صرف نگہ ہم سے نہ پھیریں جو کرنا ہے کر گزریں مگر اپنا بتا کے فطرت میں نہیں تیری غلامی کے سوا کچھ نوکر ہیں اَزل سے تیرے چاکر ہیں سدا کے اِس بار جب آپ آئیں تو پھر جا کے تو دیکھیں کر گزروں کا کچھ ۔اب کے ذرا دیکھیں تو جا کے جلسہ سالانہ یوکے ١٩٨٦ء کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ26۔27 10۔ اے میرے سانسوں میں بسنے والو! دیارِ مغرب سے جانے والو! دیار ِمشرق کے باسیوں کو کسی غریب الوطن مسافر کی چاہتوں کا سلام کہنا ہمارے شام و سحر کا کیا حال پوچھتے ہو کہ لمحہ لمحہ نصیب اِن کا بنا رہے ہیں تمہارے ہی صبح و شام کہنا تمہاری خوشیاں جھلک رہی ہیں مرے مقدر کے زائچے میں تمہارے خونِ جگر کی مے سے ہی میرا بھرتا ہے جام  کہنا الگ نہیں کوئی ذات میری ، تمہی تو ہو کائنات میری تمہاری یادوں سے ہی مُعَنوَن ہے زیست کا انصرام کہنا اے میرے سانسوں میں بسنے و الو! بھلا جدا کب ہوئے تھے مجھ سے خدا نے باندھا ہے جو تعلق رہے گا قائم مدام  کہنا تمہاری خاطر ہیں میرے نغمے ، مری دعائیں تمہاری دولت تمہارے درد و اَلم سے تر ہیں مرے سجود و قیام  کہنا تمہیں مٹانے کا زعم لے کر اُٹھے ہیں جو خاک کے بگولے خدا اُڑا دے گا خاک اُن کی ، کرے گا رُسوائے عام کہنا خدا کے شیرو! تمہیں نہیں زیب خوف جنگل کے باسیوں کا گرجتے آگے بڑھو کہ زیر نگیں کرو ہر مقام ۔کہنا بساط دنیا اُلٹ رہی ہے ، حسین اور پائیدار نقشے جہانِ نو کے اُبھر رہے ہیں ، بدل رہا ہے نظام ۔ کہنا کلید فتح و ظفر تھمائی تمہیں خدا نے اب آسماں پر نشانِ فتح و ظفر ہے لکھا گیا تمہارے ہی نام کہنا بڑھے چلو شاہراہ ِدینِ متیں پہ دَرّانا ، سائباں ہے تمہارے سر پر خدا کی رحمت قدم قدم ، گام گام کہنا جلسہ سالانہ یو کے ١٩٨٦ء کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ28۔30 11۔ پھول تم پر فرشتے نچھاور کریں

آئے وہ دن کہ ہم جن کی چاہت میں گنتے تھے دن اَپنی تسکینِ جاں کے لئے پھر وہ چہرے ہویدا ہوئے جن کی یادیں قیامت تھیں قلبِ تپاں کے لئے جن کے اخلاص اور پیار کی ہر اَدا ، بے غرض ، بے ریا ، دل نشیں ، دل رُبا بے صدا جن کی آنکھوں کا کرب و بلا ، کربلا ہے دل ِعاشقاں کے لئے پیار کے پھول دل میں سجائے ہوئے ، نورِ ایماں کی شمعیں اٹھائے ہوئے قافلے دُور دیسوں سے آئے ہوئے ، غمزدہ اک بدیس آشیاں کے لئے دیر کے بعد اے دُور کی راہ سے آنے والو ! تمہارے قدم کیوں نہ لیں میری ترسی نگاہیں کہ تھیں منتظر ، اِک زمانے سے اِس کارواں کے لئے پھول تم پر فرشتے نچھاور کریں ، اور کشادہ ترقی کی راہیں کریں آرزوئیں مری جو دُعائیں کریں ، رنگ لائیں مرے میہماں کے لئے میرے آنسو تمہیں دیں رَمِ زندگی ، دور تم سے کریں ہر غمِ زندگی میہماں کو ملے جو دمِ زندگی ، وہی اَمرت بنے میزباں کے لئے نور کی شاہراہوں پہ آگے بڑھو ، سال کے فاصلے لمحوں میں طے کرو خوں بڑھے میرا تم جو ترقی کرو ، قرۃ العین ہو سارباں کے لئے تم چلے آئے میں نے جو آواز دی ، تم کو مولیٰ نے توفیق پرواز دی پر کریں ، پر شکستہ وہ کیا جو پڑے رہ گئے چشمک دشمناں کے لئے میری ایسی بھی ہے ایک رُودادِ غم ، دل کے پردے پہ ہے خون سے جو رقم دل میں وہ بھی ہے اِک گوشہ محترم ، وقف ہے جو غمِ دوستاں کے لئے یاد آئی جب ان کی گھٹا کی طرح ، ذکر ان کا چلا نم ہوا کی طرح بجلیاں دل پہ کڑکیں بلا کی طرح ، رُت بنی خوب آہ و فغاں کے لئے پھر اُفق تا اُفق ایک قوس ِقزح ، اُن کے پیکر کا آئینہ بن کر سجی اک حسیں یاد لے جیسے انگڑائیاں عالم ِخواب میں خُفتگاں کے لئے ہر تصور سے تصویر اُبھرنے لگی ، نام بن کر زباں پر اُترنے لگی ذکر اِتنا حسیں تھا کہ ہر لفظ نے فرطِ الفت سے بوسے زباں کے لئے اُن کی چاہت میرا مدعا بن گیا، میرا پیار اُن کی خاطر دُعا بن گیا بالیقیں اُن کا ساتھی خدا بن گیا ، وہ بنائے گئے آسماں کے لئے حبس کیسا ہے میرے وطن میں جہاں ، پا بہ زنجیر ہیں ساری آزادیاں ہے فقط ایک رستہ جو آزاد ہے ، یورشِ سیل ِاشکِ رواں کے لئے ایسے طائر بھی ہیں جو کہ خود اپنے ہی آشیانے کے تنکوں میں محصور ہیں اُن کی بگڑی بنا میرے مشکل کشا ، چارہ کر کچھ غم بیکساں کے لئے بن کے تسکیں خود اُن کے پہلو میں آ ، لاڈ کر ، دے اُنھیں لوریاں ، دل بڑھا دُور کر بَد بَلا یا بتا کتنے دن اور ہیں صبر کے امتحاں کے لئے؟

جلسہ سالانہ یو کے ١٩٨٧ء کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ31۔33 12۔ جَآءَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِل دیکھو اِک شاطر دشمن نے کیسا ظالم کام کیا پھینکا مکر کا جال اور طائرِ حق زیر الزام کیا ناحق ہم مجبوروں کو اک تہمت دی جلّادی کی قتل کے آپ ارادے باندھے ہم کو عبث بدنام کیا دیکھو پھر تقدیر خدا نے ، کیسا اُسے ناکام کیا مکر کی ہر بازی اُلٹا دی ، دجل کو طشت اَز بام کیا اُلٹی پڑ گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دغا نے کام کیا دیکھا اس بیمارئِ دل نے ، آخر کام تمام کیا زندہ باد غلام ِاحمد ، پڑ گیا جس کا دشمن جھوٹا جَآءَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِل ، اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقا جب سے خدا نے اِن عاجز کندھوں پر بارِ اَمانت ڈالا راہ میں دیکھو کتنے کٹھن اور مَہیب مراحل آئے بھیڑوں کی کھالوں میں لپٹے ، کتنے گرگ ملے رستے میں مقتولوں کے بھیس میں دیکھو ، کیسے کیسے قاتل آئے آخر شیرِ خدا نے بپھر کر ، ہر بن باسی کو للکارا کوئی مبارز ہو تو نکلے ، سامنے کوئی مباہل آئے ہمت کس کو تھی کہ اُٹھتا ، کس کا دل گردہ تھا نکلتا کس کا پِتَّا تھا کہ اٹھ کر ، مرد ِحق کے مقابل آئے آخر طاہر سچا نکلا ، آخر ملاں نکلا جھوٹا جَآءَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِل ، اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقا ملاں کیا رُوپوش ہوا اِک ، بلی بھاگوں چھینکا ٹوٹا اپنے مریدوں کی آنکھوں میں جھونکی دھول اور پیسہ لوٹا قریہ قریہ فساد ہوئے تب ، فتنہ گر آزاد ہوئے سب احمدیوں کو بستی بستی پکڑا دھکڑا ، مارا کوٹا کر ڈالیں مسمار مساجد ، لوٹ لئے کتنے ہی معابد جن کو پلید کہا کرتے تھے ، لے بھاگے سب اُن کا جوٹھا کاٹھ کی ہنڈیا کب تک چڑھتی ، وہ دن آنا تھا کہ پھٹتی وہ دن آیا اور فریب کا چوراہے میں بھانڈا پھوٹا کہتے ہیں پولیس نے آخر ، کھود پہاڑ نکالا چوہا جَآءَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِل ، اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقا جاؤں ہر دم تیرے وارے ، میرے جانی میرے پیارے تو نے اپنے کرم سے میرے ، خود ہی کام بنائے سارے پھر اک بار گڑھے میں تو نے ، سب دشمن چن چن کے اُتارے کر دیئے پھر اک بار ہمارے آقا کے اونچے مینارے اے آڑے وقتوں کے سہارے ! سبحان اللہ یہ نظارے اِک دشمن کو زندہ کر کے مار دیئے ہیں دشمن سارے دیکھا کچھ! مغرب کے افق سے کیسا سچ کا سورج نکلا بجھ گئے دیپ طلسمِ نظر کے ، مٹ گئے جھوٹ کے چاند ستارے اپنا منہ ہی کر لیا گندا ، پاگل نے جب چاند پہ تھوکا جَآءَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِل ، اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقا جلسہ سالانہ یو کے ١٩٨٨ء کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ34۔40 13۔ کس حال میں ہیں یارانِ وطن ١ پورب سے چلی پرنم پرنم باد ِرَوح و رَیحانِ وطن اُڑتے اُڑتے پہنچے پچھم سندر سندر مرغانِ وطن برکھا برکھا یادیں اُمڈیں ، طوفاں طوفاں جذبے اُٹھے سینے پہ بلائیں برسانے ، لپکے باد و باران وطن آ بیٹھ مسافر پاس ذرا ، مجھے قصۂ اہل درد سنا اُن اہل وفا کی بات بتا ، ہیں جن سے خفا سکان وطن اور اُن کی جان کے دشمن ہیں جو دیوانے ہیں جانِ وطن اے دیس سے آنے والے بتا ، کس حال میں ہیں یارانِ وطن ٢ سو بسم اللہ جو کوئے دار سے چل کر سوئے یار آئے سر آنکھوں پر ہر راہ خدا کا مسافر ، سو سو بار آئے لیکن یہ سب کے نصیب کہاں ، ہر ایک میں کب یہ طاقت ہے کہ پیار کی پیاس بجھانے کو وہ سات سمندر پار آئے میں اب سمجھا ہوں وہ کیفیت کیا ہوتی ہے جب دل کو ہر دور افتادہ اُویس پہ لخت ِجگر سے بڑھ کر پیار آئے اِن مجبوروں کا حال بھلا کیا جانیں تن آسانِ وطن اے دیس سے آنے والے بتا کس حال میں ہیں یارانِ وطن ٣ تو جور و جفا کی نگری ، صبر و وفا کے دیس سے آیا ہے ہے تجھ پہ عیاں مرے پیاروں پر غیروں نے ستم جو ڈھایا ہے آنکھوں میں رقم شکووں کی کتھا ، آہوں میں بجھے نالوں کی صدا کیا میرے نام یہی ہیں بتا جو تُو سندیسے لایا ہے؟ مرے محبوبوں پر صبح و مسا ، پڑتی ہے کیسی کیسی بلا مری رُوح پہ ، برسوں بیت گئے اِن اَندیشوں کا سایہ ہے کیا ظلم و ستم رہ جائیں گے اب دُنیا میں پہچانِ وطن اے دیس سے آنے والے بتا کس حال میں ہیں یارانِ وطن ٤ ظالم بدبخت کا نام نہ لے ، بس مظلوموں کی باتیں کر حاکم کا ذکر نہ چھیڑ ، آزُردہ محکوموں کی باتیں کر وہ جن سے لِلّٰہ بیر ہوئے ، جو اپنے وطن میں غیر ہوئے ان تختہ ءمشقِ ستم مجبوروں محروموں کی باتیں کر جیلوں میں رضائے باری کے جو گہنے پہنے بیٹھے ہیں اُن راہ ِخدا کے اَسیروں کی ، اُن معصوموں کی باتیں کر وہ جن کی جبینوں کے اَنوار سے روشن ہیں زندانِ وطن اے دیس سے آنے والے بتا کس حال میں ہیں یارانِ وطن ٥ کیا اب بھی عوام وہاں ، جب بگڑیں بھاگ ، اذانیں دیتے ہیں سیلاب تھپیڑے ماریں تو سب جاگ اذانیں دیتے ہیں کیا اب بھی سفید مناروں سے نفرت کی منادی ہوتی ہے دھرتی کے نصیب اُجڑتے ہیں جب ناگ اذانیں دیتے ہیں بلبل کو دیس نکالا ہے اور زاغ و زغن سے یارانے ہر سمت چمن کی منڈیروں پر کاگ اذانیں دیتے ہیں محرومِ اذاں گر ہیں تو فقط مرغانِ خوش الحانِ وطن اے دیس سے آنے والے بتا کس حال میں ہیں یارانِ وطن ٦ اک ہم ہی نہیں چھنتے چھنتے جن کے سب حق معدوم ہوئے رفتہ رفتہ آزادی سے سب اہل وطن محروم ہوئے چلتا ہے وہاں اب کاروبار پہ سکہ نوکر شاہی کا اور کالے دھن کی فراوانی سے سب دھندے مجذوم ہوئے آزاد کہاں وہ ملک جہاں قابض ہو سیاست پر ملا جو شاہ بنے بے تاج بنے ، جو حاکم تھے محکوم ہوئے اور گھر کے مالک ہی بن بیٹھے باوردی دربانِ وطن اے دیس سے آنے والے بتا کس حال میں ہیں یارانِ وطن ٧ سورج ہی نہیں ڈوبا اِک شب سب چاند ستارے ڈوب گئے بحرِ ظلمات کی طغیانی میں نور کے دھارے ڈوب گئے وہ نفرت کا طوفان اٹھا ، ہر شہر سے اَمن و اَمان اٹھا جلبِ زَر کا شیطان اٹھا ، مفلس کے سہارے ڈُوب گئے اے قوم ترا حافظ ہو خدا ، ٹالے سر سے ہر ایک بلا تا حد نظر سیل عصیاں ، ہر سمت کنارے ڈوب گئے بے کس بے بس کیا دیکھ رہی ہے اب چشم حیرانِ وطن اے دیس سے آنے والے بتا کس حال میں ہیں یارانِ وطن ٨ اس رحمت عالم ابر کرم کے یہ کیسے متوالے ہیں وہ آگ بجھانے آیا تھا ، یہ آگ لگانے والے ہیں وہ والی تھا مسکینوں کا ، بیواؤں اور یتیموں کا یہ ماؤں بہنوں کے سر کی چادر کو جلانے والے ہیں وہ جود و سخا کا شہزادہ تھا بھوک مٹانے آیا تھا یہ بھوکوں کے ہاتھوں کی روٹی چھین کے کھانے والے ہیں یہ زر کے پجاری بیچنے والے ہیں دین و ایمانِ وطن اے دیس سے آنے والے بتا کس حال میں ہیں یارانِ وطن ٩ ظالم مت بھولیں بالآخر مظلوم کی باری آئے گی مکاروں پر مکر کی ہر بازی اُلٹائی جائے گی پتھر کی لکیر ہے یہ تقدیر ، مٹا دیکھو گر ہمت ہے یا ظلم مٹے گا دَھرتی سے یا دَھرتی خود مٹ جائے گی ہر مکر اُنہی پر اُلٹے گا ، ہر بات مخالف جائے گی بالآخر میرے مولا کی تقدیر ہی غالب آئے گی جیتیں گے ملائک ، خائب و خاسر ہو گا ہر شیطانِ وطن اے دیس سے آنے والے بتا کس حال میں ہیں یارانِ وطن ١٠ اِک روز تمہارے سینوں پر بھی وقت چلائے گا آرا ٹوٹیں گے مان تکبر کے بکھریں گے بدن پارہ پارہ مظلوموں کی آہوں کا دُھواں ظالم کے اُفق کو کجلا دے گا نمرود جلائے جائیں گے ، دیکھے گا فلک یہ نظارہ کیا حال تمہارا ہو گا جب شداد ملائک آئیں گے سب ٹھاٹھ دَھرے رہ جائیں گے جب لاد چلے گا بنجارا ظالم ہوں گے رُسوائے جہاں ، مظلوم بنیں گے آنِ وطن اے دیس سے آنے والے بتا کس حال میں ہیں یارانِ وطن جلسہ سالانہ یو کے ١٩٨٩ء کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ41۔42 14۔ آ مرے چاند میری رات بنے تو مرے دل کی شش جہات بنے اِک نئی میری کائنات بنے سب جو تیرا ہے لاکھ ہو میرا تُو جو میرا بنے تو بات بنے نیچ ہے تجھ سے منقطع ہر ذات جس کا تُو ہو اُسی کی ذات بنے عالمِ رنگ و بو کے گل بوٹے خواب ٹھہرے ، توہمات بنے سادہ باتوں کا بھی ملا نہ جواب سب سوالات مظلمات بنے یہ شب و روز و ماہ و سال تمام کیسے پیمانہ صفات بنے؟ ہوئی میزانِ ہفتہ کب آغاز؟ کیسے دن رات سات سات بنے؟ عالم حیرتی کے مندر میں کبھی بت مظہرِ صفات بنے کبھی مخلوق ہو گئی ہمہ اُوست آتش و آب ، عین ذات بنے کتنے منصور چڑھ گئے سر دار کتنے نعرے تعلیات بنے کتنے عزیٰ بنے ، مٹے کَے بار؟ کتنے لات اُجڑے کتنے لات بنے کتنے محمود آئے ، کتنی بار سومنات اُجڑے ، سومنات بنے جو کھنڈر تھے محل بنائے گئے کتنے محلوں کے کھنڈرات بنے عالم بے ثبات میں شب و روز آج کی جیت کل کی مات بنے تیرے منہ کے سبک سہانے بول دل کے بھاری معاملات بنے دن بہت بے قرار گزرا ہے آ مرے چاند ، میری رات بنے المحراب صدسالہ جشن تشکر نمبر۔ مرتبہ لجنہ کراچی ١٩٨٩ء کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ43 15۔ قطعہ ہر طرف آپ کی یادوں پہ لگا کر پہرے جی کڑا کر کے میں بیٹھا تھا کہ مت یاد آئے ناگہاں اور کسی بات پہ دل ایسا دکھا میں بہت رویا مجھے آپ بہت یاد آئے کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ44۔45 16۔ ہم آن ملیں گے متوالو! ہم آن ملیں گے متوالو ، بس دیر ہے کل یا پرسوں کی تم دیکھو گے تو آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی ، دید کے ترسوں کی ہم آمنے سامنے بیٹھیں گے تو فرطِ طرب سے دونوں کی آنکھیں ساون برسائیں گی اور پیاس بجھے گی برسوں کی تم دور دور کے دیسوں سے ، جب قافلہ قافلہ آؤ گے تو میرے دل کے کھیتوں میں، پھولیں گی فصلیں سرسوں کی یہ عشق و وفا کے کھیت رضا کے خوشوں سے لد جائیں گے موسم بدلیں گے ، رُت آئے گی ساجن! پیار کے دَرسوں کی مرے بھولے بھالے حبیب مجھے لکھ لکھ کر کیا سمجھاتے ہیں کیا ایک اُنہی کو دُکھ دیتی ہے ، جدائی لمبے عرصوں کی؟ یہ بات نہیں وعدوں کے لمبے لیکھوں کی ، تم دیکھو گے ہم آئیں گے ، جھوٹی نکلے گی ، لاف خدا ناترسوں کی دور ہو گی کلفت عرصوں کی اور پیاس بجھے گی برسوں کی ہم گیت ملن کے گائیں گے پھولیں گی فصلیں سرسوں کی الفضل ربوہ۔ صدسالہ جشن تشکر نمبر ١٩٨٩ء کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ46۔48 17۔ غزل آپؐ کے لئے گلشن میں پھول ، باغوں میں پھل آپؐ کے لئے جھیلوں پہ کھل رہے ہیں کنول آپؐ کے لئے میری بھی آرزو ہے ، اِجازت ملے تو میں اَشکوں سے اِک پروؤں غزل آپؐ کے لئے مژگاں بنیں ،حکایتِ دل کے لئے قلم ہو رَوشنائی، آنکھوں کا جل آپؐ کے لئے اِن آنسوؤں کو چرنوں پہ گرنے کا اِذن ہو آنکھوں میں جو رہے ہیں مچل آپؐ کے لئے دِل آپؐ کا ہے ، آپؐ کی جان ، آپؐ کا بدن غم بھی لگا ہے جان گسل آپؐ کے لئے میں آپؐ ہی کا ہوں ، وہ مری زندگی نہیں جس زندگی کے آج نہ کل آپؐ کے لئے گو آ رہی ہے میرے ہی گیتوں کی بازگشت نغمہ سرا ہیں دَشت و جبل آپؐ کے لئے ہر لمحۂ فراق ہے عمر ِدراز ِغم گزرا نہ چین سے کوئی پل آپؐ کے لئے آ جائیے کہ سکھیاں یہ مل مل کے گائیں گیت موسم گئے ہیں کتنے بدل آپؐ کے لئے ہم جیسوں کے بھی دید کے سامان ہو گئے ظاہر ہوا تھا حسن ازل آپؐ کے لئے صلَّی اللّٰہ علیہ وسلَّم

یہ تین شعر اصل نعتیہ کلام کا حصہ نہیں اور غزل کی روایت کے مطابق قافیوں کی رعایت سے الگ مضمون میں الجھ گئے ہیں۔ اس لئے ان کو نعتیہ کلام کا حصہ نہ سمجھا جائے۔

اب حسرتیں بسی ہیں وہاں ، آرزوؤں نے خوابوں میں جو بنائے محل آپ کے لئے گرہیں تمام کھل گئیں جز آرزوئے وصل رکھ چھوڑا ہے اس عقدے کا حل آپ کے لئے کل آنے کا جو وعدہ تھا ، آ کر تو دیکھتے تڑپا تھا کوئی کس طرح کل آپ کے لئے جلسہ سالانہ یوکے ١٩٨٩ء کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ49۔52 18۔ وفا کا امتحان تری راہوں میں کیا کیا اِبتلا روزانہ آتا ہے وفا کا امتحاں لینا تجھے کیا کیا نہ آتا ہے احد اور مکہ اور طائف انہی راہوں پہ ملتے ہیں انہی پر شعب بو طالب بے آب و دانہ آتا ہے کنار ِآب ِجو تشنہ لبوں کی آزمائش کو کہیں کرب و بلا کا اِک کڑا ویرانہ آتا ہے پشاور سے اِنہی راہوں پہ سنگستان ِکابل کو مرا شہزادہ لے کر جان کا نذرانہ آتا ہے اسے عشق و وفا کے جرم میں سنگسار کرتے ہیں تو ہر پتھر دم ِتسبیح ، دانہ دانہ آتا ہے جہاں اہل جفا، اہل وفا پر وار کرتے ہیں سر ِدار اُن کو ہر منصور کو لٹکانا آتا ہے جہاں شیطان مومن پر رمی کرتے ہیں وہ راہیں جہاں پتھر سے مردِ حق کو سر ٹکرانا آتا ہے جہاں پسرانِ باطل عورتوں پر وار کرتے ہیں نرِ مردانؔ کو یہ ''شیوۂ مردانہ'' آتا ہے یہی راہیں کبھی سکھرؔ ، کبھی سکرنڈؔ جاتی ہیں انہی پر پنوں عاقل ، وارہ اور لڑکانہؔ آتا ہے کبھی ذکر ِقتیلِ حیدرآبادؔ اِن پہ ملتا ہے کہیں نوابؔ شاہ کا دکھ بھرا اَفسانہ آتا ہے کہیں ہے کوئٹہؔ کی داستان ظلم و سفاکی کہیں اوکاڑہؔ اور لاہورؔ اور بُچیانہؔ آتا ہے کہیں ہے ماجرائے گجرانوالہؔ کی لہو پاشی کہیں اِک سانحہ ٹوپیؔ کا سفاکانہ آتا ہے خوشابؔ اور ساہیوالؔ اور فیصلؔ آباد اور سرگودھاؔ بلائے ناگہاں اک نت نیا مولانا آتا ہے معابد سے مٹا کر کلمۂ توحید آئے دن شریروں کو عبادُاللہ کا دل برمانا آتا ہے یہ کیا انداز ہیں کیسے چلن ہیں کیسی رسمیں ہیں انہیں تو ہر طریق ِنامسلمانانہ آتا ہے بگولے بن کے اُڑ جانا روش غولِ بیاباں کی ہمیں آب بقا پی کر اَمر ہو جانا آتا ہے ہماری خاکِ پا کو بھی عدو کیا خاک پائے گا ہمیں رُکنا نہیں آتا اُسے چلنا نہ آتا ہے اسے رُک رُک کے بھی تسکین ِجسم و جاں نہیں ملتی ہمیں مثلِ صبا چلتے ہوئے سستانا آتا ہے تصوّر اِن دنوں جس رَہ سے بھی ربوہؔ پہنچتا ہے تعجب ہے کہ ہر اس راہ پر ننکانہ آتا ہے کبھی یادوں کی اک بارات یوں دل میں اترتی ہے کہ گویا رندِ تشنہ لب کے گھر مے خانہ آتا ہے عجب مستی ہے یاد یار مے بن کر برستی ہے سرائے دل میں ہر محبوب دل رندانہ آتا ہے وہی رونا ہے ہجرِ یار میں بس فرق اِتنا ہے کبھی چھپ چھپ کے آتا تھا اب آزادانہ آتا ہے جلسہ سالانہ امریکہ ١٩٨٩ء کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ53۔54 19۔ دشت طلب میں دشت طلب میں جا بجا ، بادلوں کے ہیں دَل پڑے کاش کسی کے دل سے تو چشمۂ فیض اُبل پڑے بے آسراؤں کے لئے کوئی تو اَشکبار ہو پیاس بجھے غریب کی تشنہ لبوں کو کَل پڑے بادِ سموم سے چمن ، دَردوں دُکھوں سے لد گیا آہِ فقیر سے مرے اَشک اُبل اُبل پڑے چشمِ حزیں کے پار اُدھر ۔ دردِ نہاں کی جھیل پر کھلتے ہیں کیوں کسے خبر ، حسرتوں کے کنول پڑے سود و زیاں سرور و غم ، روشنیوں کے زیر و بم آس بجھے تو یاس کے دیپ کی لو اُچھل پڑے چاند نے پی ہوئی تھی رات ، ڈول رہی تھی کائنات نور کی مے اُتر رہی تھی ، عرش سے جیسے طَلْ پڑے بن گئی بزم ِشش جہات میکدۂ تجلیات دَیر و حرم کو چھوڑ کر رند نکل نکل پڑے صبر کا درس ہو چکا ، اب ذرا حالِ دل سنا کہتے ہیں تجھ کو ناصحا ، چَین نہ ایک پل پڑے آنکھ میں پھانس کی طرح ہجر کی شب اَٹک گئی اے مرے آفتاب آ ۔ رات ٹلے تو کَل پڑے کون رہ ِفراق سے لوٹ کے پھر نہ آ سکا کس کے نقوشِ منتظر ، رہ گئے بے محل پڑے راہ خدا میں منزلِ مرگ پہ سب مچل گئے ہم بھی رُکے رُکے سے تھے ، اِذن ہوا تو چل پڑے 1990ء کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ55۔57 20۔ یہ دل نے کس کو یاد کیا یہ دل نے کس کو یاد کیا ، سپنوں میں یہ کون آیا ہے جس سے سپنے جاگ اُٹھے ہیں خوابوں نے نور کمایا ہے گل بوٹوں ، کلیوں ، پتوں سے ، کانٹوں سے خوشبو آنے لگی اک عنبربار تصور نے یادوں کا چمن مہکایا ہے گل رنگ شفق کے پیراہن میں قوسِ قزح کی پینگوں پر اِک یاد کو جھولے دے دے کر پگلے نے دل بہلایا ہے دیکھیں تو سہی دن کیسے کیسے حسن کے روپ میں ڈھلتا ہے بدلی نے شفق کے چہرے پر کالا گیسو لہرایا ہے جس رُخ دیکھیں ہر من موہن تیرا مکھڑا ہی تکتا ہے ہر اک محسن نے تیرے حسن کا ہی اِحسان اٹھایا ہے مرے دل کے اُفق پر لاکھوں چاند ستارے روشن ہیں لیکن جو ڈُوب چکے ہیں اُن کی یادوں نے منظر دُھندلایا ہے جب مالی داغ جدائی دے مرجھا جاتے ہیں گل بوٹے دیکھیں فرقت نے کیسے پھول سے چہروں کو کملایا ہے یہ کون ستارہ ٹوٹا جس سے سب تارے بے نور ہوئے کس چندرما نے ڈُوب کے اِتنے چاندوں کو گہنایا ہے کیا جلتا ہے کہ چمنیوں سے اُٹھتا ہے دُھواں آہوں کی طرح اک دَرد بہ داماں سرمئی رُت نے سارا اُفق کجلایا ہے کوئی احمدیوں کے اِمام سے بڑھ کر کیا دنیا میں غنی ہو گا ہیں سچے دل اس کی دولت ، اِخلاص اس کا سرمایا ہے اے دشمن دیں! ترا رزق فقط تکذیب کے تھوہر کا پھل ہے شیطان نے تجھے صحراؤں میں اِک باغ سبز دکھایا ہے میں ہفت اَفلاک کا پنچھی ہوں ، مرا نور نظر آکاشی ہے تو اوندھے منہ چلنے والا اِک بے مرشد چوپایہ ہے سچے ساتھی بانٹ کے دُکھ مرا تن من دھن اَپنا بیٹھے سکھ کے ساتھی تھے ہی پرائے کون گیا کون آیا ہے غفلت میں عمر کی رات کٹی ، دل میلا ، بال سفید ہوئے اُٹھ چلنے کی تیاری کر ، سورج سر پر چڑھ آیا ہے جلسہ سالانہ یو کے ١٩٩٠ء کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ58۔59 21۔ کون پیا تھا؟ کون پریمی؟ اُن کو شکوہ ہے کہ ہجر میں کیوں تڑپایا ساری رات جن کی خاطر رات لٹا دی ، چین نہ پایا ساری رات اُن کے اندیشوں میں دل نے کیسے کیسے گھبرا کر سینے کے دیوار و در سے ، سر ٹکرایا ساری رات خوب سجی یادوں کی محفل ، مہمانوں نے تاپے ہاتھ ہم نے اپنا کوئلہ کوئلہ، دل دہکایا ساری رات اُن سے شکوہ کیسا جن کی یاد نے بیٹھ کے پہلو میں ساری رات آنکھوں میں کاٹی ، درد بٹایا ساری رات اُن سے شکایت کس منہ سے ہو جن کے ہوں اِحسان بہت جن کی کومل یاد نے دُکھتا دل سہلایا ساری رات گرد آلود تھا پتہ پتہ ، کلی کلی کجلائی ہوئی ٹوٹ کے یادیں برسیں ، ہر بوٹا نہلایا ساری رات روتے روتے سینے پر سر رکھ کر سو گئی ان کی یاد کون پیا تھا؟ کون پریمی؟ بھید نہ پایا ساری رات وہ یاد آئے جن کے آنسو تھے غم کی خاموش کتھا میرے سامنے بیٹھ کے روئے ، دکھ نہ بتایا ساری رات وہ یاد آئے جن کے آنسو پونچھنے والا کوئی نہ تھا سوجے نین دکھائے اپنے اور رُلایا ساری رات بچے بھوکے گریاں ترساں ، دیپک کی لو لرزاں لرزاں کٹیا میں اِفلاس کے بھوت کا ناچا سایا ساری رات اَوروں کے دکھ درد میں تو کیوں ناحق جان گنواتا ہے تجھ کو کیا ، کوئی بے شک تڑپے ،ماں کا جایا ساری رات صبح صادق پر صدیقوں کا ایمان نہیں ڈولا اندھی رات کے گھور اندھیروں نے بہکایا ساری رات راتوں کو خدا سے پیار کی لو اور صبح بتوں سے یارانے نادان گنوا بیٹھے دن کو جو یار کمایا ساری رات جلسہ سالانہ یوکے ١٩٩٠ء کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ60۔61 22۔ ہم نے تو آپ کو اپنا اپنا کہہ کر لاکھ بلا بھیجا

یہ نظم استاذی المکرم حضرت ملک سیف الرحمن صاحب کی یاد میں ١٩٩٠ء میں کہی گئی اور ان ہی کی زبانی اپنے آپ کو مخاطب کر کے کہی تھی۔

جائیں جائیں ہم روٹھ گئے ، اب آ کر پیار جتائے ہیں جب ہم خوابوں کی باتیں ہیں ، جب ہم یادوں کے سائے ہیں اب کس کو بھیج بلائیں گے ، کیسے سینے سے لگائیں گے مر کر بھی کوئی لوٹا ہے ، سائے بھی کبھی ہاتھ آئے ہیں کیا قبروں پر رو رو کر ہی ، نینوں کی پیاس بجھا لیں گے کیا یوں بھی کسی نے رُوٹھے یار منا کر بھاگ جگائے ہیں جو آنکھیں مند گئیں رو رو کر ، اور گھل گھل کے جو چراغ بجھے اب اُن کی پگھلی یادوں میں کیا بیٹھے نِیر بہائے ہیں جو صبح کا رَستہ تکتے تکتے ، اندھیاروں میں خواب ہوئے اب اُن کے بعد آپ اُن کے لئے، کیا خاک سویرے لائے ہیں ہم نے تو آپ کو اپنا اپنا، کہہ کر لاکھ بلا بھیجا اِس پر بھی آپ نہیں آئے ، آپ اپنے ہیں کہ پرائے ہیں اب آپ کی باری ہے تڑپیں ، اب آپ ہمیں آوازیں دیں سوتے میں ہنسیں ، روتے جاگیں کہ خواب ملن کے آئے ہیں ہم جن راہوں پر مارے گئے ، وہ سچ کی روشن راہیں تھیں ظالم نے اپنے ظلم سے خود ، اپنے ہی اُفق دھندلائے ہیں ہم آ بھی بسے ہیں اپنے خوابوں کی سرمد تعبیروں میں آپ اب تک فانی دنیا میں ، سپنوں سے دل بہلائے ہیں ہر خوشبو اور ہر رنگ کے لاکھوں پھول کھلے ہیں آنگن میں پھر چند گلوں کی یادیں کیوں ، کانٹوں کی طرح تڑپائے ہیں ہم سراَفراز ہوئے رُخصت ، ہے آپ سے بھی اُمید بہت یہ یاد رہے کس باپ کے بیٹے ہیں ، کس ماں کے جائے ہیں جلسہ سالانہ جرمنی ١٩٩٠ء کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ62۔63 23۔ ہو تُمہی کل کے قافلہ سالار وقت کم ہے ۔ بہت ہیں کام ۔ چلو ملگجی ہو رہی ہے شام ۔چلو زندگی اس طرح تمام نہ ہو کام رہ جائیں ناتمام ۔ چلو کہہ رہا ہے خرام ِباد صبا جب تلک دم چلے مدام چلو منزلیں دے رہی ہیں آوازیں صبح محوِ سفر ہو ، شام چلو ساتھیو! میرے ساتھ ساتھ رہو قربتوں کا لئے پیام۔ چلو تم اُٹھے ہوتو لاکھ اُجالے اُٹھے تم چلے ہو تو برق گام چلو کبھی ٹھہرو تو مثل ابر بہار جب برس جائے فیض عام ۔ چلو رات جاگو مہ و نجوم کے ساتھ دن کو سورج سے ہم خرام چلو ہو تُمہی کل کے قافلہ سالار آج بھی ہو تُمہی اِمام ۔ چلو تم سے وابستہ ہے جہانِ نو تمہیں سونپی گئی زمام ۔ چلو آگے بڑھ کر قدم تو لو ،۔دیکھو عہدِ نو ہے تمہارے نام ،۔چلو پیشوائی کرو ، تمہاری طرف آ رہا ہے نیا نظام ، چلو اے خوشا ۔دل بیار ۔دست بکار لہر در لہر شاد کام چلو میرے پیارو! خدا کے پیاروں پر دائماً بھیجتے سلام چلو زیر و بم میں دلوں کی دھڑکن کے موجزن ہو خدا کا نام ۔چلو دل سے اٹھے جو نعرۂ تکبیر ہو ثریا سے ہمکلام ۔چلو غم ِدنیا کی ہے دوا غم ِعشق دم ِعیسیٰ نہیں ، سوا دم ِعشق بحر عالم میں اِک بپا کر دو پیار کا غلغلہ ، تلاطم ِعشق جلسہ سالانہ یو کے ١٩٩١ء کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ63۔64 24۔ کشکول میں بھر دے جو مرے دل میں بھرا ہے جو درد سسکتے ہوئے حرفوں میں ڈھلا ہے شاید کہ یہ آغوشِ جدائی میں پلا ہے غم دے کے کسے فکرمریضِ شب ِغم ہے یہ کون ہے جو درد میں رس گھول رہا ہے یہ کس نے مرے درد کو جینے کی طلب دی دل کس کے لئے عمر ِخضر مانگ رہا ہے ہر روز نئے فکر ہیں ، ہر شب ہیں نئے غم یا ربّ یہ مرا دل ہے کہ مہمان سرا ہے ہیں کس کے بدن دیس میں پابندِ سلاسل پردیس میں اک رُوح گرفتارِ بلا ہے کیا تم کو خبر ہے رہ مولا کے اسیرو! تم سے مجھے اک رشتہء جاں سب سے سوا ہے آ جاتے ہو کرتے ہو ملاقات شب وروز یہ سلسلۂ ربط ِبہم صبح و مسا ہے اے تنگئ زنداں کے ستائے ہوئے مہمان وا چشم ہے ، دل باز ، درِ سینہ کھلا ہے تم نے مری جلوت میں نئے رنگ بھرے ہیں تم نے مری تنہائیوں میں ساتھ دیا ہے تم چاندنی راتوں میں مرے پاس رہے ہو تم سے ہی مری نقرئی صبحوں میں ضیا ہے کس دن مجھے تم یاد نہیں آئے مگر آج کیا روزِ قیامت ہے! کہ اک حشر بپا ہے یادوں کے مسافر ہو تمناؤں کے پیکر بھر دیتے ہو دل، پھر بھی وہی ایک خلا ہے سینے سے لگا لینے کی حسرت نہیں مٹتی پہلو میں بٹھانے کی تڑپ حد سے سوا ہے یا ربّ! یہ گدا تیرے ہی در کا ہے سوالی جو دان ملا تیری ہی چوکھٹ سے ملا ہے گم گشتہ اسیرانِ رہِ مولا کی خاطر مدت سے فقیر ایک دعا مانگ رہا ہے جس رہ میں وہ کھوئے گئے اُس رہ پہ گدا ایک کشکول لئے چلتا ہے لب پہ یہ صدا ہے خیرات کر اَب اِن کی رہائی مرے آقا! کشکول میں بھر دے جو مرے دل میں بھرا ہے میں تجھ سے نہ مانگوں تو نہ مانگوں گا کسی سے میں تیرا ہوں ، تو میرا خدا ، میرا خدا ہے جلسہ سالانہ یو کے ١٩٩١ء کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ66۔67 25۔ گھٹا کرم کی، ہجومِ بلا سے اُٹھی ہے گھٹا کرم کی ،ہجوم ِبلا سے اُٹھی ہے کرامت اک دل ِدرد آشنا سے اُٹھی ہے جو آہ ، سجدۂِ صبر و رضا سے اُٹھی ہے زمین بوس تھی ، اُس کی عطا سے اُٹھی ہے رسائی دیکھو ! کہ باتیں خدا سے کرتی ہے دُعا ۔جو قلب کے تحت الثریٰ سے اُٹھی ہے یہ کائنات ازل سے نہ جانے کتنی بار خلا میں ڈوب چکی ہے خلا سے اُٹھی ہے سدا کی رسم ہے ، ابلیسیت کی بانگ ِزبوں انا کی گود میں پل کر اِباء سے اُٹھی ہے حیا سے عاری ، سیہ بخت، نیش زن، مردود یہ واہ واہ کسی کربلا سے اُٹھی ہے خموشیوں میں کھنکنے لگی کسک دل کی اک ایسی ہوک دل ِبے نوا سے اُٹھی ہے مسیح بن کے وہی آسماں سے اتری ہے جو التجا ، دل ِناکتخدا سے اُٹھی ہے وہ آنکھ اُٹھی تو مردے جگا گئی لاکھوں قیامت ہو گی ، کہ جو اس ادا سے اُٹھی ہے امر ہوئی ہے وہ تجھ سے محمدؐ عربی ندائے عشق ، جو قول بلی ٰسے اُٹھی ہے ہزار خاک سے آدم اٹھے ، مگر بخدا شبیہ وہ! جو تری خاک پا سے اُٹھی ہے بنا ہے مہبط انوار قادیاں ۔ دیکھو وہی صدا ہے ، سنو! جو سدا سے اُٹھی ہے کنارے گونج اٹھے ہیں زمیں کے ، جاگ اٹھو کہ اک کروڑ صدا، اک صدا سے اُٹھی ہے جو دل میں بیٹھ چکی تھی ہوائے عیش و طرب بڑے جتن سے ، ہزار التجا سے اُٹھی ہے حیاتِ نو کی تمنا ۔ ہوئی تو ہے بیدار مگر یہ نیند کی ماتی ، دعا سے اُٹھی ہے المحراب سوواں جلسہ سال انہ نمبر لجنہ کراچی۔ جلسہ سالانہ جرمنی ١٩٩١ء کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ68۔70 26۔ اپنے دیس میں اپنی بستی میں اک اپنا بھی تو گھر تھا

یہ نظم ١٩٩١ء میں قادیان کے سفر کے دوران کہی گئی اور جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر پڑھی گئی۔

اپنے دیس میں ، اپنی بستی میں اک اپنا بھی تو گھر تھا جیسی سندر تھی وہ بستی ویسا وہ گھر بھی سندر تھا دیس بدیس لئے پھرتا ہوں اپنے دل میں اس کی کتھائیں میرے من میں آن بسی ہے تن من دھن جس کے اندر تھا سادہ اور غریب تھی جنتا ۔ لیکن نیک نصیب تھی جنتا فیض رساں عجیب تھی جنتا ۔ ہر بندہ بندہ پرور تھا سچے لوگ تھے ، سُچّی بستی ، کرموں والی اُچّی بستی جو اُونچا تھا، نیچا بھی تھا ، عرش نشیں تھا، خاک بسر تھا اس کی دھرتی تھی آکاشی ، اس کی پرجا تھی پرکاشی جس کی صدیاں تھیں متلاشی ، گلی گلی کا وہ منظر تھا کرتے تھے آ آ کے بسیرے ، پنکھ پکھیرو شام سویرے پھولوں اور پھلوں سے بوجھل ، بستاں کا ایک ایک شجر تھا اس کے سروں کا چرچا جا جا ، دیس بدیس میں ڈنکا باجا اس بستی کا پیتم راجا ، کرشن کنھیا مرلی دھر تھا چاروں اور بجی شہنائی بھجنوں نے اک دھوم مچائی رُت بھگوان ملن کی آئی ، پیتم کا درشن گھر گھر تھا گوتم بدھا بدھی لایا ، سب رشیوں نے درس دکھایا عیسیٰ اُترا مہدیؑ آیا ، جو سب نبیوں کا مظہر تھا مہدی کا دلدار محمدؐ ، نبیوں کا سردار محمدؐ نور نگہ سرکار محمدؐ ، جس کا وہ منظور نظر تھا آشاؤں کی اس بستی میں ، میں نے بھی فیض اُس کا پایا مجھ پر بھی تھا اُس کا چھایا ، جس کا میں ادنیٰ چاکر تھا اتنے پیار سے کس نے دی تھی میرے دل کے کواڑ پہ دستک رات گئے مرے گھر کون آیا ، اُٹھ کر دیکھا تو ایشر تھا عرش سے فرش پہ مایا اُتری ، رُوپا ہو گئی ساری دھرتی مٹ گئی کلفت چھا گئی مستی ۔وہ تھا میں تھا من مندر تھا تجھ پر میری جان نچھاور ۔ اتنی کرپا اک پاپی پر جس کے گھر نارائن آیا ۔وہ کیڑی سے بھی کمتر تھا رب نے آخر کام سنوارے ، گھر آئے بِرہا کے مارے آ دیکھے اونچے مینارے ، نورِ خدا تا حدِ نظر تھا مولا نے وہ دن دکھلائے ، پریمی روپ نگر کو آئے ساتھ فرشتے پر پھیلائے ، سایہ رحمت ہر سر پر تھا عشق خدا مونہوں پر" وَسّے " پھوٹ رہا تھا نور نظر سے اکھین سے مے پیت کی برسے ، قابل ِدید ہر دیدہ ور تھا لیکن آہ جو رستہ تکتے ، جان سے گزرے تجھ کو ترستے کاش وہ زندہ ہوتے جن پر ، ہجر کا اک اک پل دوبھر تھا آخر دم تک تجھ کو پکارا ، آس نہ ٹوٹی ، دل نہ ہارا مصلحِ عالم باپ ہمارا ، پیکر ِصبر و رضا ، رہبر تھا سدا سہاگن رہے یہ بستی ، جس میں پیدا ہوئی وہ ہستی جس سے نور کے سوتے پھوٹے ، جو نوروں کا اک ساگر تھا ہیں سب نام خدا کے سندر ، واہے گرو ، اللہ اکبر سب فانی ، اک وہی ہے باقی ، آج بھی ہے جو کل ایشر تھا جلسہ سالانہ قادیان ١٩٩١ء کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ71۔73 27۔ مرا نالہ اس کے قدموں کے غبار تک تو پہنچے کبھی اذن ہو تو عاشق در یار تک تو پہنچے یہ ذرا سی اک نگارش ہے ، نگار تک تو پہنچے دلِ بے قرار قابو سے نکل چکا ہے، یا ربّ یہ نگاہ رکھ کہ پاگل سَرِدار تک تو پہنچے جو گلاب کے کٹوروں میں شرابِ ناب بھر دے وہ نسیمِ آہ ، پھولوں کے نکھار تک تو پہنچے کچھ عجب نہیں کہ کانٹوں کو بھی پھول پھل عطا ہوں مری چاہ کی حلاوت رگ خار تک تو پہنچے یہ محبتوں کا لشکر جو کرے گا فتحِ خیبر ذرا تیرے بغض و نفرت کے حصار تک تو پہنچے مجھے تیری ہی قسم ہے کہ دوبارہ جی اُٹھوں گا ترا نفخِ رُوح میرے دلِ زار تک تو پہنچے جو نہیں شمار ان میں تو غرابِ پر شکستہ ترے پاک صاف بگلوں کی قطار تک تو پہنچے تری بے حساب بخشِش کی گلی گلی نِدا دوں یہ نوید تیرے چاکر گنہگار تک تو پہنچے یہ شجر خزاں رسیدہ ہے مجھے عزیز یا ربّ یہ اک اور وصل تازہ کی بہار تک تو پہنچے جنہیں اپنی حبل ِجاں میں نہ ملا سراغ تیرا وہ خود اپنی ہی انا کے بت ِنار تک تو پہنچے کسے فکر ِعاقبت ہے ، انہیں بس یہی بہت ہے کہ رہینِ مرگ 'داتا' کے مزار تک تو پہنچے ہے عوام کے گناہوں کا بھی بوجھ اس پہ بھاری یہ خبر کسی طریقے سے حمار تک تو پہنچے یہ خبر ہے گرم یاربّ کہ سوار خواہد آمد کروں نقد ِجاں نچھاور ، مرے دار تک تو پہنچے وہ جواں برق پا ہے ، وہ جمیل و دلربا ہے مرا نالہ اس کے قدموں کے غبار تک تو پہنچے جلسہ سالانہ یو کے ١٩٩٢ء کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ74۔76 28۔ جو خدا کو ہوئے پیارے یہ نظم اپنی بیوی آصفہ مرحومہ کی یاد میں ١٩٩٢ء میں کہی تھی نہ وہ تم بدلے نہ ہم ، طور ہمارے ہیں وہی فاصلے بڑھ گئے ، پر قرب تو سارے ہیں وہی آ کے دیکھو تو سہی بزم ِجہاں میں ، کل تک جو تمہارے ہوا کرتے تھے ، تمہارے ہیں وہی جھٹپٹوں میں اُنہی یادوں سے وہی کھیلیں گے کھیل وہی گلیاں ہیں ، وہی صحن ، چوبارے ہیں وہی وہی جلسے ، وہی رونق ، وہی بزم آرائی ایک تم ہی نہیں ، مہمان تو سارے ہیں وہی شامِ غم ، دل پہ شفق رنگ ، دکھی زخموں کے تم نے جو پھول کھلائے مجھے پیارے ہیں وہی صحن گلشن میں وہی پھول کھلا کرتے ہیں چاند راتیں ہیں وہی ، چاند ستارے ہیں وہی وہی جھرنوں کے مدھر گیت ہیں مدہوش شجر نیلگوں رُود کے گل پوش کنارے ہیں وہی مے برستی ہے ،۔بلا بھیجو ۔ کہاں ہے ساقی بھری برسات میں موسم کے اشارے ہیں وہی بے بسی ہائے تماشا کہ تری موت سے سب رنجشیں مٹ گئیں ، پر رنج کے مارے ہیں وہی تم وہی ہو تو کرو کچھ مداوا غم کا جن کے تم چارہ تھے وہ دَرد تو سارے ہیں وہی میرے آنگن سے قضا لے گئی چن چن کے جو پھول جو خدا کو ہوئے پیارے ، مرے پیارے ہیں وہی تم نے جاتے ہوئے پلکوں پہ سجا رکھے تھے جو گہر ، اب بھی مری آنکھوں کے تارے ہیں وہی منتظر کوئی نہیں ہے لب ساحل ورنہ وہی طوفاں ہیں ، وہی ناؤ ، کنارے ہیں وہی یہ ترے کام ہیں مولا ، مجھے دے صبر و ثبات ہے وہی راہ کٹھن ، بوجھ بھی بھارے ہیں وہی جلسہ سالانہ یو کے ١٩٩٢ء کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ77۔78 29۔ خدا کے سپرد

اس نظم کا پہلا مصرعہ آصفہ بیگم کی زندگی ہی میں ایک معمولی فرق کے ساتھ رؤیا میں زبان پر جاری ہوا تھا۔ اس پر نظم شروع کی تو ان کی زندگی میں صرف دو شعر ہو سکے تھے۔ باقی نظم ان کی وفات کے بعد مکمل کی ہے۔ اس مناسبت سے پہلے مصرعہ کو کچھ تبدیل کرنا پڑا یعنی پہلے یہ مصرعہ یوں تھا۔

ع     تری بقا کا سفر ہے قدم قدم اِعجاز تری بقا کا سفر تھا قدم قدم اِعجاز بدن سے سانس کا ہر رشتہ دم بہ دم اِعجاز ترا فنا کے افق سے پلٹ پلٹ آنا دعا کے دوش پہ نبضوں کا زیر و بم اِعجاز تھا اک کرشمۂ پیہم ترا دلِ بیمار دکھایا ہو گا کسی دل نے ایسا کم اِعجاز نحیف جان ، بہت بوجھ اٹھا کے چلتی رہی ہر ایک نقشِ قدم پر تھا مرتسم اِعجاز اسی کا فیض تھا ورنہ مری دعا کیا تھی کہے سے اس کے دکھاتا تھا میرا غم اِعجاز جب اُس کا اذن نہ آیا ، خطا گئی فریاد رہی نہ آہ کرشمہ ، نہ چشم نم اِعجاز غِنا نے اس کی جو عرفان بندگی بخشا نہیں تھا وہ کسی جُود و عطا سے کم اِعجاز بچشم ِنم تمہیں سمجھایا ، بس خدا کے لئے دکھاؤ نا ، سر ِتسلیم کر کے خم اِعجاز یونہی شماتت اعدا سے مت ڈرو بی بی! ہمارے حق میں دکھائیں گے یہ ستم اِعجاز ہو موت اس کی رضا پر ، یہی کرامت ہے خوشی سے اُس کے کہے میں جو کھائیں سَم ، اِعجاز وہیں تمہاری انا کا سفر تمام ہوا حیات و موت وہیں بن گئے بہم اِعجاز نحیف ہونٹوں سے اُٹھی ندائے استغفار نوائے توبہ تھی اللہ کی قسم اِعجاز مجھے کبھی بھی تم اتنی نہیں لگیں پیاری وہ حسن تھا ملکوتی ، وہ ضبط ِغم اِعجاز اُسی کی ہو گئیں تم ، اُس کے امر ہی سے تمہیں امر بنانے کا دکھلا گئی عدم اِعجاز کبھی تو آ کے ملیں گے ، چلو ، خدا کے سپرد کبھی تو دیکھیں گے احیائے نو کا ہم اِعجاز 1992ء کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ79۔80 30۔ جو گُل کبھی زندہ تھے

آج سے تقریباً چالیس برس پہلے یادِ رفتگان کے طور پر کچھ اشعار کہے تھے لیکن غزل نامکمل رہی۔ اب آصفہ بیگم کی یاد میں ربط مضمون قائم رکھتے ہوئے اُسی غزل میں چند اشعار کا اضافہ کر کے اسے اُن کی طرف منسوب کر دیا گیا ہے۔

ہے حسن میں ضو غم کے شراروں کے سہارے اک چاند معلق ہے ستاروں کے سہارے اک شعلہ سا لرزاں ہے سر گور ِتمنا اک غم جئے جاتا ہے مزاروں کے سہارے تو روٹھ کہ امیدوں کا دل توڑ گیا ہے اے میری اُمنگوں کے سہاروں کے سہارے ناداری میں ناداروں کے رکھوالے تھے کچھ لوگ بخشش کے بھکاری ،گنہگاروں کے سہارے سکھ بانٹتے پھرتے تھے مگر کتنے دکھی تھے بے چارگئ غم میں بچاروں کے سہارے مرتے ہیں جب اللہ کے بندوں کے نگہبان رہتے نہیں کیا ان کے دلاروں کے سہارے؟ وہ ناؤ ، خدا بنتا ہے خود جس کا کھِوَیا پاگل ہے کہ ڈھونڈے وہ کناروں کے سہارے کانٹوں نے بہت یاد کیا اُن کو خزاں میں جو گل کبھی زندہ تھے بہاروں کے سہارے کیا اُن کا بھروسہ ہے جو دیتے تھے بھروسے لو ، مر گئے، جیتے تھے جو پیاروں کے سہارے تم جن کا وسیلہ تھیں وہ روتی ہیں کہ تم نے دم توڑ کے توڑے ہیں ہزاروں کے سہارے وہ آخری اَیام ، وہ بہتے ہوئے خاموش حرفوں کے بدن، اشکوں کے دھاروں کے سہارے بھیگی ہوئی، بجھتی ہوئی ، مٹتی ہوئی آواز اظہارِ تمنا وہ اشاروں کے سہارے وہ ہاتھ جھٹکتے ہوئے کہنا دم ِرخصت میں نے نہیں جینا نگہداروں کے سہارے وہ جن کو نہ راس آئے طبیبوں کے دلاسے شاید کہ بہل جائیں ، نگاروں کے سہارے آ بیٹھ مرے پاس مرا دست تہی تھام مت چھوڑ کے جا درد کے ماروں کے سہارے 1992ء کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ81۔84 31۔ اجنبی غم

یہ نظم کالج کے زمانہ میں مری میں کہی تھی لیکن اس وقت نامکمل چھوڑ دی گئی تھی۔ اس کے بعد ١٩٩٣ء میں بعض اور بند شامل کر کے اسے مکمل کیا گیا۔

یہ پراسرار دھندلکوں میں سمویا ہوا غم چھا گیا روح پہ اک جذبہ مبہم بن کر یہ فضاؤں میں سسکتا ہوا احساس الم دیدۂ شب سے ڈھلکنے لگا شبنم بن کر جانے یہ دکھ ہے تمہارا کہ زمانے کا ستم اجنبی ہے ، کوئی مہمان چلا آیا ہے اپنے چہرے کو چھپائے زِ نقاب شب غم جان ہے اس سے نہ پہچان ، چلا آیا ہے آنکھ ہے میری کہ اشکوں کی ہے اک راہگذار دل ہے یا کوئی مہمان سرائے غم و حزن ہے یہ سینہ کہ جواں مرگ امنگوں کا مزار اک زیارت گہِ صد قافلہ ہائے غم و حزن یا ترے دھیان کی جوگن ہمہ رنج و آزار خود چلی آئی ہے پہلو میں بجائے غم و حزن رات بھر چھیڑے گی احساس کے دکھتے ہوئے تار ایک اک تار سے اٹھے گی نوائے غم و حزن دل جلے جاتا ہے جیسے کسی راہب کا چراغ ٹمٹماتا ہو کہیں دور بیابانوں میں قافلے درد کے پا جاتے ہیں منزل کا سراغ اک لرزتی ہوئی لو دیکھ کے ویرانوں میں یہ بھی شاید کوئی بھٹکا ہوا راہی غم ہے دو گھڑی قلب کے غم خانے میں سستائے گا اوٹ سے تیرگئ یاس کی جب وقتِ سحر کرن امید کی پھوٹے گی ، چلا جائے گا خانہ دل میں اتر کر یہ فقیروں کے سے غم نالہ شب سے نصیب اپنا جگا لیتے ہیں دل کو اک شرف عطا کر کے چلے جاتے ہیں اجنبی غم مرے محسن مرا کیا لیتے ہیں کوئی مذہب ہے سسکتی ہوئی روحوں کا نہ رنگ ہر ستم دیدہ کو انسان ہی پایا ہم نے بن کے اپنا ہی لپٹ جاتا ہے روتے روتے غیر کا دکھ بھی جو سینے سے لگایا ہم نے کوئی قَشقہ ہے دکھوں کا نہ عمامہ نہ صلیب کوئی ہندو ہے نہ مسلم ہے نہ عیسائی ہے ہر ستم گر کو ہو اے کاش یہ عرفان نصیب ظلم جس پر بھی ہو ہر دین کی رسوائی ہے بادۂ عشق ہے درمان ، اگر ہے کوئی مت ہمیں چھوڑ کے جا ساقی کہ غم باقی ہیں ہم نہ ہوں گے تو اُجڑ جائے گا مے خانۂ غم درد کے جام لنڈھا ساقی کہ ہم باقی ہیں سب جہانوں کے لئے بن کے جو رحمت آیا ہر زمانے کے دکھوں کا ہے مداوا وہی ایک اس کے دامن سے ہے وابستہ کُل عالم کی نجات بے سہاروں کا اب ملجا و ماویٰ وہی ایک (صَلِّی اللہُ عَلَیہ وعلیٰ آلِہ وسَلَّم) جلسہ سالانہ یو کے ١٩٩٣ء کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ85۔86 32۔ جاء المسیح جاء المسیح کچھ اہل وطن سے بہار آئی ہے ، دل وقف یار کر دیکھو خرد کو نذرِ جنون بہار کر دیکھو غضب کیا ہے جو کانٹوں سے پیار کردیکھا اب آؤ پھولوں کو بھی ہمکنار کر دیکھو جو کر سکے تھے کیا ، غیر ہمیں بنا نہ سکے ہم اب بھی اپنے ہیں ، اپنا شمار کر دیکھو بس اب نہ دور رکھو اپنے دل سے اہلِ وطن ہے تم سے پیار ہمیں ، اعتبار کر دیکھو ہمیں کبھی تو تم اپنی نگاہ سے دیکھو تعصبات کی عینک اتار کر دیکھو لگا رکھی ہیں جو چہروں پہ مولوی آنکھیں نظر کی برچھی ان آنکھوں سے پار کر دیکھو نحوستوں کا قلندر ہے پیر ِتسمہ پا کسی دن اس کو گلے سے اتار کر دیکھو نقاب اوڑھ رکھا ہے جو مولویت کا اُتار پھینکو اسے تار تار کر دیکھو تمہارا چہرہ برا تو نہیں ، نہا دھو کر کبھی تو حسن شرافت نکھار کر دیکھو مسیح اُترا ہے عِندَ المَنَارَۃُ البَیضَآء اٹھو ۔ کہ جائے ادب ہے ۔سنوار کر دیکھو لگاؤ سیڑھی اُتارو دلوں کے آنگن میں نثار جاؤ ، نظر وار وار کر دیکھو جو اُس کے ساتھ ، اُسی کی دعا سے اترا ہے یہ مائدہ ہے ، ڈشوں میں اتار کر دیکھو بلا رہی ہیں تمہیں پیار کی کھلی بانہیں چلے بھی آؤ نا ، للہ پیار کر دیکھو محبتوں کے سمندر سے دوریاں کیسی لپٹ کے موجوں سے بوس و کنار کر دیکھو جلسہ سالانہ یو کے ١٩٩٤ء کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ87۔88 33۔ آمد امام کامگار منکرین سے خطاب ہیں آسمان کے تارے گواہ ، سورج چاند پڑے ہیں ماند ، ذرا کچھ بچار کر دیکھو ضرور مہدئ دوراں کا ہو چکا ہے ظہور ذرا سا نور ِفراست نکھار کر دیکھو خزانے تم پہ لٹائے گا لا جرم لیکن بس ایک نذرِ عقیدت گزار کر دیکھو اگر ہے ضد کہ نہ مانو گے ، پر نہ مانو گے تو ہو سکے جو کرو ، بار بار کر دیکھو بدل سکو تو بدل دو ، نظام شمس و قمر خلاف گردش لیل و نہار کر دیکھو پلٹ سکو تو پلٹ دو ، خرام شام و سحر حسابِ چرخ کو بے اعتبار کر دیکھو جو ہو سکے تو ستاروں کے راستے کاٹو کوئی تو چارہ کرو ، کچھ تو کار کر دیکھو سوار لاؤ ، پیادے بڑھاؤ ، چڑھ دوڑو جو بن سکے وہ پئے کارزار کر دیکھو خدا کی بات ٹلے گی نہیں ، تم ہو کیا چیز اٹل چٹان ہے ، سر مار مار کر دیکھو اُتر رہی ہیں فلک سے گواہیاں ۔روکو وہ غُل غپاڑہ کرو ، حال زار کر دیکھو گواہ دو ہیں ، دو ہاتھوں سے چھاتیاں پیٹو خسوفِ شمس و قمر ، ہار ہار کر دیکھو جلن بہت ہے تو ہوتی پھرے نہ نکلے گی بھڑاس سینے کی ، بک بک ہزار کر دیکھو قفس کے شیروں سے کرتے ہو روز دو دو ہاتھ دو آنکھیں بَن کے ببر سے بھی چار کر دیکھو مری سنو تو پہاڑوں سے سر نہ ٹکراؤ جو میری مانو تو عجز اختیار کر دیکھو جلسہ سالانہ یو کے ٣١ جولائی ١٩٩٤ء کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ89۔92 34۔ اے بوسنیا بوسنیا! اے بوسنیا بوسنیا! بوسنیآ ، زندہ باد! ١ تو خوں میں نہائے ہوئے ٹیلوں کا وطن ہے گل رنگ شفق ۔ قرمزی جھیلوں کا وطن ہے خوں بار بلکتے ہوئے جھرنوں کی زمیں ہے نوخیز جواں سال قتیلوں کا وطن ہے اک دن تیرے مقتل میں بہے گا دم جلاد اے بوسنیا بوسنیا! بوسنیآ ، زندہ باد! ٢ اے وائے وہ سر ، جن کی اُتاری گئی چادر پا بَستَہ پدر اور پِسَر ۔جن کے برابر ہوتی رہی رسوا کہیں دُختر کہیں مادر دیکھے ہیں تری آنکھ نے وہ ظلم کہ جن پر پتھر بھی زبانیں ہوں تو کرنے لگیں فریاد اے بوسنیا بوسنیا! بوسنیآ ، زندہ باد! ٣ قبروں میں پڑے عرش نشینوں کی قَسم ہے رولے ہوئے مٹی میں نگینوں کی قَسم ہے بہنوں کے اُمنگوں کے دفینوں کی قَسم ہے ماؤں کے سلگتے ہوئے سینوں کی قَسم ہے ہو جائیں گے آنگن ترے اُجڑے ہوئے آباد اے بوسنیا بوسنیا! بوسنیآ ، زندہ باد! ٤ چُھٹ جائیں گے اک روز مظالم کے اندھیرے لہرائیں گے ہر آنکھ میں گلرنگ سویرے صبحوں کے اجالوں سے لکھیں گے ترے نغمے سر پر ترے باندھیں گے فتوحات کے سہرے اللہ کی رحمت سے سب ہو جائیں گے دلشاد اے بوسنیا بوسنیا! بوسنیآ ، زندہ باد! ٥ سینوں پہ رقم ہیں تری عظمت کے فسانے گاتی ہیں زبانیں تری سطوت کے ترانے اُترے گا خدا جب تری تقدیر بنانے مٹ جائیں گے ، نکلے جو ترا نام مٹانے جس جس نے اُجاڑا تجھے ہو جائے گا برباد اے بوسنیا بوسنیا! بوسنیآ ، زندہ باد! ٦ تو اپنے حسیں خوابوں کی تعبیر بھی دیکھے اک تازہ نئی صبح کی تنویر بھی دیکھے جو سینۂ شمشیر کو بھی چیر کے رکھ دے دنیا ترے ہاتھوں میں وہ شمشیر بھی دیکھے پیدا ہوں نئے حامی دیں ، دشمن الحاد اے بوسنیا بوسنیا! بوسنیآ ، زندہ باد! جلسہ سالانہ جرمنی ۔ ٢٨اگست ١٩٩٤ء کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ93 35۔ جب اپنی راہ اس کے فرشتے کریں گے صاف جب اپنی راہ اس کے فرشتے کریں گے صاف جب ہوں گے واپسی کے اشارے تب آئیں گے کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ94۔96 36۔ شاوا سوہنے یار مبشر

یہ نظم جماعت جرمنی کے ایک نہایت مخلص اور فدائی خادم مبشر احمد صاحب باجوہ کے متعلق ہے،جو ایک حادثہ کے نتیجہ میں١٩٩٥ء کو وفات پا گئے۔

آؤ سجنو مل بئیے تے گل اوس یاد دی چَلّے ٹردے جیدے دانے مک گئے کل پرسوں دی گل اے آؤ سجنو مل بئیے تے گل اوس یار دی چلے اُتلے یار نے جد صد ماری پَن سُٹّی دنیا دی یاری عرشاں تائیں لائی تاری مار اُڈاری کَلّے آؤ سجنو مل بئیے تے گل اوس یار دی چلے نیچا رہ کے عمر ہنڈائی ، سب دا سیوک ، سب دا پائی ذات اُچّی سی ، کم وڈے پر نت بیندا سی تَھلّے آؤ سجنو مل بئیے تے گل اوس یار دی چلے جو کم آکھیا ، حاضر سائیں ، کہہ کے چھاتی ڈائی ہس دیاں سارے پاپڑ ویلے سارے جھمیلے جَھلّے آؤ سجنو مل بئیے تے گل اوس یار دی چلے ایم-ٹی-اے دی خاطر گبھرو چار چفیرے پَونیا مخلص منڈے کڑیاں لبھ کے چونویں چونویں وَلّے آؤ سجنو مل بئیے تے گل اوس یار دی چلے وڈیاں سوچاں ، نیک عمل تے عالی شان ارادے گل وچ پائی پھردا سادے ماڑے موٹے ٹلے آؤ سجنو مل بئیے تے گل اوس یار دی چلے نیچا رہ کے اندر اندر اُچّا یار کمایا باروں دڑ وٹ رکھی جیویں ککھ نہ ہووے پلے آؤ سجنو مل بئیے تے گل اوس یار دی چلے میرا ساتھ نبھاون تائیں کوئی راہ نہ چَھڈی جیڑے رستیاں توں میں لنگیا اوہی رستے مَلّے آؤ سجنو مل بئیے تے گل اوس یار دی چلے اونوں کیویں دساں کہ میں تیتھوں رج سکھ پائیا شاوا سوہنے یار مبشر واہ واہ بلے بلے آؤ سجنو مل بئیے تے گل اوس یار دی چلے کوڑے چار دناں دے میلے اکو گل ای سچ اے لا الہ الا اللہ تے اللھم صل آؤ سجنو مل  بئیے تے گل اوس یار دی چلے جلسہ سالانہ جرمنی ١٩٩٥ء کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ97۔98 37۔ محبتوں کے نصیب مرے درد کی جو دوا کرے ۔کوئی ایسا شخص ہوا کرے وہ جو بے پناہ اداس ہو ، مگر ہجر کا نہ گلہ کرے مری چاہتیں مری قربتیں جسے یاد آئیں قدم قدم تو وہ سب سے چھپ کے لباسِ شب میں لپٹ کے آہ و بکا کرے بڑھے اس کا غم تو قرار کھو دے، وہ میرے غم کے خیال سے اُٹھیں ہاتھ اپنے لئے تو پھر بھی مرے لئے ہی دعا کرے یہ قصص عجیب و غریب ہیں ، یہ محبتوں کے نصیب ہیں مجھے کیسے خود سے جدا کرے ، اسے کچھ بتاؤ کہ کیا کرے کبھی طے کرے یونہی سوچ سوچ میں وہ فراق کے فاصلے مرے پیچھے آ کے دبے دبے ، مری آنکھیں موند ہنسا کرے بڑا شور ہے مرے شہر میں کسی اجنبی کے نزول کا وہ مری ہی جان نہ ہو کہیں ، کوئی کچھ تو جا کے پتہ کرے یہ تو میرے دل ہی کا عکس ہے ، میں نہیں ہوں پر مری آرزو کو جنون ہے مجھے یہ بنا دے تو پھر جو چاہے قضا کرے بھلا کیسے اپنے ہی عکس کو میں رفیقِ جان بنا سکوں کوئی اور ہو تو بتا تو دے ، کوئی ہے کہیں تو صدا کرے اسے ڈھونڈتی ہیں گلی گلی ، مری خلوتوں کی اداسیاں وہ ملے تو بس یہ کہوں کہ آ ، مرا مولیٰ تیرا بھلا کرے 1996ء کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ99۔100 38۔ رَبِّ اِنِّی لِمَا اَنزَلتَ اِلَیَّ مِن خَیر فَقِیر

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مشہور دعا رَبِّ اِنِّی لِمَا اَنزَلتَ اِلَیَّ مِن خَیر فَقِیر جو کس شان سے اور کتنے رنگوں میں پوری ہوئی۔اس کے متعلق یہ نظم ہے۔

اک برگد کی چھاؤں کے نیچے اک مسافر پڑا تھا غم سے چور کیسے کچھ عرض مدعا کرتا اپنی حاجات کا بھی تھا نہ شعور دل سے بس ایک ہی دعا اُٹھی میں اسی کا فقیر ہوں آقا تُو جو میرے لئے بھلا سمجھے مجھے اے کاش! ہر کوئی تیرا اور فقط تیرا ہی گدا سمجھے یہی سینے سے التجا اُٹھی میری جھولی میں کچھ نہیں مولا پیٹ خالی ہے ، ہاتھ خالی ہے زندگی کا سفر نبھانے کو میں اکیلا ہوں ، ساتھ خالی ہے دل تنہا سے یہ صدا اُٹھی بے ٹھکانہ ہوں ، گھر نہیں اپنا سر پہ چھت ہے ، نہ بام و در اپنا گاؤں کی چمنیوں سے اُٹھتا ہے گو دھواں ، وہ مگر نہیں اپنا دل سے یہ شعلہ سا نوا اُٹھی مصر جانے کو جی مچلتا ہے پر اکیلا ہوں خوف کھاؤں گا دست و بازو کوئی عطا کر دے لوٹ کر تب وطن کو جاؤں گا دل سے یہ مضطرب دعا اُٹھی کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ101۔102 39۔ مرے وطن ! مجھے تیرے افق سے شکوہ ہے

احمدندیم قاسمی ایک بزرگ شاعر اور بہت بڑے ادیب ہیں۔ مگر اپنے وطن کے لئے دعا کے وقت کبھی انہیں یہ خیال نہیں آیا کہ وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں پر جو ظلم ہو رہے ہیں ان کے خلاف بھی آواز اٹھائیں۔ اس لئے میں نے ان کی ایک نظم کی تضمین کہی ہے۔ اگران کو اس سے اختلاف ہو تو میں مجبور ہوں۔

خدا کرے کہ مرے اک بھی ہم وطن کے لئے حیات جرم نہ ہو ، زندگی وبال نہ ہو سوائے اس کے کہ وہ شخص احمدی کہلائے تو سانس لینے کی بھی اس کو یاں مجال نہ ہو وہ سبزہ زاروں میں ہو سب سے سبزتر پھر بھی رگیدا جائے اگرچہ وہ پائمال نہ ہو چمن میں وہ گلِ رعنا جو خاک سے اٹھے اکھاڑنے میں اسے تم کو کچھ ملال نہ ہو وہ پھول ہو کے بھی آنکھوں میں خار سا کھٹکے تو ایسا زخم لگاؤ کہ اندمال نہ ہو وہ لاکھ علم و عمل کا ہو ایک اوجِ کمال فقط وہ غازئ گفتار و قیل و قال نہ ہو مگر سب اہل وطن یہ بھی سوچ لیں کہ کہیں لباس تقویٰ میں لپٹی ہوئی یہ کوئی چال نہ ہو میرے وطن! مجھے تیرے افق سے شکوہ ہے کہ اس پہ ثبت ہے عبدالسلام نام کا چاند اسے ڈبو کے کوئی اور اچھال کام کا چاند تو یہ کرے تو کبھی تجھ پہ پھر زوال نہ ہو ہر ایک شہری ہو آسودہ ہر کوئی ہو نہال کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ73۔77 40۔ بزبان مولویان پاکستان (گویا وہ احمدیوں سے مخاطب ہو کر کہہ رہے ہیں) اذانیں دے کے دکھاؤ نہ دل خدا کے لئے درود پڑھ کے ستاؤ نہ مصطفی ؐکے لئے سلام کر کے دعائیں نہ دو ہمیں ۔ ہم لوگ وہ لوگ ہیں کہ ترستے ہیں بددُعا کے لئے کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ104۔105 41۔ ملاں سوچا بھی کبھی تم نے کہ کیا بھید ہے مُلّاں! کیوں تم سے گِھن آتی ہے ، اچھے نہیں لگتے ہر بات تمہاری ہے فقط جھوٹ کا پُتلا بھولے سے بھی سچ بولو تو سچے نہیں لگتے ویسے تو ہو آدم ہی کی اولاد بلا ریب سر پر ہے عمامہ بڑا ، جبُےّ میں بڑی جیب پر سوچو کہ تم میں سے ہے بعضوں میں وہ کیا عیب وہ جو بھی ہوں ، انسان کے بچے نہیں لگتے عیاری و جلادی و سفاکی میں پکے تم قلب و دہن دونوں کی ناپاکی میں پکے گو قول کے کچے ہو ہمیشہ سے مگر ان اوصاف حمیدہ میں تو کچے نہیں لگتے کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ106

42 .MULLAH --- the lies personified Have you ever pondered over the secret , O Mullah! Of why you are so nauseating and do not please the eyes? Even if forgetfully you bray the truth you are never right, Everything you say is merely a package of lies. You are certainly the children of Adam , no doubt, There is a large turban on your head and in the gown a large gaping pocket, But try to discover what fault lies with some among you, Whatever you are, you never appear to be the sons of man. Hard in cunning, and butchery, and mercilessness; As for the filth of heart and mouth, in both you are pig-headed Of word, forever unrealiable, but in these, praiseworthy qualities you are never undependable.

کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ107۔108 43۔ تم پر بھی تو ایک عدالت بیٹھے گی جھوٹو! تم نے ٹھیک الزام دھرا ہو گا اللہ والوں ہی نے کفر بکا ہو گا احمدیوں نے جب بھی درود پڑھا ہو گا دل میں اور کسی کا نام لیا ہو گا تم سچے تو جگ میں کون رہا جھوٹا ہم جھوٹے تو سچا کون رہا ہو گا تنگ آئے ہیں روز کی بَک بَک جَھک جَھک سے کر گزرو جو کچھ تم نے کرنا ہو گا لیکن شاید یہ نہ کبھی سوچا ہو گا روز ِقیامت تم جیسوں سے کیا ہو گا تم پر بھی تو ایک عدالت بیٹھے گی جیسا کِیا ہے ، ویسا ہی بھرنا ہو گا ہم تو رضائے باری پر ہی جیتے ہیں اس کی رضا پر ہی اک دن مرنا ہو گا روئیں گے تو اس کے حضور مگر تم سے ہنس ہنس کے ہم نے ہر دکھ سہنا ہو گا تم میں اگر ہے اچھا ایک ۔ہزار برے ہم میں ایک برا تو ہزار اچھا ہو گا کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ109۔110 44۔ نذر الاسلام کی ایک نظم کا منظوم ترجمہ توحید کے پرچاک ۔ مرے مرشد کا نام محمدؐ ہے ہے بات یہی برحق ۔ مرے مرشد کا نام محمد ؐہے اس نام کے جپنے سے قرآن کا ہوتا ہے ادراک مجھے یہ سندر نام ہونٹوں سے دل تک کر دیتا ہے پاک مجھے اللہ کے بہت پیارے ۔مرے مرشد کا نام محمد ؐہے وہ مولیٰ سے ملواتا ہے جب نام اُس کا میں لیتا ہوں اک بحر نور کی موجوں پر۔ اک نور کی کشتی کھیتا ہوں اے جگ والو ! سن لو ۔ مرے مرشد کا نام محمد ؐہے اس نام کے دیپ جلاتا ہوں تو چاند ستارے دیکھتا ہوں سینے سے عرش تک اٹھتے ہوئے نوروں کے دھارے دیکھتا ہوں مرے نور مجسم ۔ صلی اللہ۔ مرشد کا نام محمدؐ ہے اُس نام کا پلو پکڑے پکڑے اس دنیا تک جاؤں گا اُس کے قدموں کی خاک تلے میں اپنی جنت پاؤں گا ہر دم ۔نذرالاسلام ۔ مرے مرشد کا نام محمدؐ ہے کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ111 45۔ دن آج کب ڈھلے گا ۔ کب ہو گا ظہورِ شب دن آج کب ڈھلے گا،۔کب ہو گا ظہور ِشب ہم کب کریں گے چاک گریباں۔ حضورِ شب آہ و بکا پہ پہرے ہیں۔ دل میں فغاں ہے بند اے رات! آبھی جا کہ رِہا ہوں طیورِ شب ہوش و حواس گم تھے ، کسے تاب ِدید تھی جب جگمگا رہا تھا برق تجلی سے طور ِشب اِمشب نہ تُو نے چہرہ دکھایا تو کیا عجب صبح کا منہ نہ دیکھے دل ناصبور ِشب لیلائے شب کی گود میں سویا ہوا تھا چاند سیماب زیبِ تن کئے بیٹھی تھی حورِ شب مے سی اتر رہی تھی کواکب سے نور کی ہر سمت بٹ رہی تھی شرابِ طُہور ِشب ناگاہ تیری یاد نے یوں دل کو بھر دیا گویا سمٹ گیا اسی کوزہ میں نورِ شب اس لمحہ تیرے رشک سے شبنم تھی آب آب مٹی میں مل رہا تھا پگھل کر غرورِ شب سب جاگ اٹھے تھے پیار کے ارماں تہ ِنجوم پھونکا تھا کس نے گوش محبت میں صُورِ شب لمحات وصل جن پہ ازل کا گمان تھا چٹکی میں اڑ گئے وہ طیورِ سرورِ شب ''الفضل انٹرنیشنل'' لندن ۔ ١٢جون ١٩٩٨ کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ112 46۔ عزیزہ طوبیٰ کی شادی پر جاتی ہو میری جان خدا حافظ و ناصر حافظ رہے سلطان خدا حافظ و ناصر اُمّی کی پہنچتی رہیں طوبیٰ کو دعائیں ابا کی رہو جان خدا حافظ و ناصر سلطان کی ملکہ بنو ' سلطان تمہارا سرتاج ہو ہر آن خدا حافظ و ناصر جاتی ہو میری جان خدا حافظ و ناصر مولا ہو نگہبان ' خدا حافظ و ناصر کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ113۔115 47۔ آ میری موجوں سے لپٹ جا

حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر ؓ کے صاحبزادے ناصر ظفر کو خدا تعالیٰ نے بڑی سریلی اور دل میں اتر جانے والی آواز سے نوازا ہے۔ کالج کے زمانہ میں وہ ہمیں ایک ہندی گانا سنایا کرتے تھے جس میں دنیا کی بے ثباتی کا ذکر تھا اور یہ مثال بھی دی گئی تھی کہ پھول سے رنگت باغی ہو کر تتلی بن اڑ جائے باس کلی کا سینہ چیرے اور دنیا پر چھائے اسی طرح بادلوں کے پہاڑوں کی طرف اڑ جانے کا ذکر تھا۔ اس پر میں نے صرف سمندر سے بادلوں کے اٹھنے ' پہاڑوں پر برسنے اور پھر واپس سمندر میں آملنے کا ذکر کیا ہے کہ کس طرح خدا تعالیٰ کھاری پانی سے شفاف بخارات اٹھاتا ہے اور کل عالم پر محیط ایک نظام کے تابع انہیں اونچے پہاڑوں پر برساتا اور پھر واپس سمندر میں لے آتا ہے۔ اس نظم میں ملی جلی ہندی اور اردو زبان میں اظہار مطلب کی کوشش کی گئی ہے۔

روٹھ کے پانی ساگر سے جب بادل بن اڑ جائے ساگر پاگل سا ہو کر ' سر ساحل سے ٹکرائے روٹھا روٹھا ' غم کا مارا ' وہ بادل آوارہ دیس سے ہو کے بدیس کسی انجانے دیس کو جائے لاکھ ہِردے پر جبر کرے لیکن جب صبر نہ آئے بے چارہ دکھیا نینوں سے چھم چھم نِیر بہائے پھر بھی چین نہ آئے' گھر کی یاد بہت ترسائے جیسے زخمی مچھلی تڑپے ' تڑپے اور بل کھائے یادوں کا طوفان اٹھ کر مَن میں کہرام مچائے بِرہا کی اگنی بجلیاں بن کر آگ کا مینہ برسائے دکھ کا ایک جوالا مکھی سینے میں پھٹ جائے پھوٹ کے بادل برسے ' گرجے ' کڑکے ' شور مچائے پچھتائے اور اپنے من پر آپ ہی دوش لگائے بلک بلک کر اک سنیاسن کا یہ دوہا گائے جاؤ سدھارو تم بھی سدھارو ' روکے تم کو کوئے اس سنسار کی ریت یہی ہے جو پائے سو کھوئے   راہ میں پربت پاؤں پڑے بہلائے اور پھسلائے یار کسی کا اپنانے کو حیلے لاکھ بنائے پربت کا کٹناپا اس کے جی پر آفت ڈھائے اولوں کا پتھراؤ کرے اس پر اور شرم دلائے نالے بَین کریں اور ندیاں منہ سے جھاگ اُڑائے اپنا سر پتھروں پر پٹکیں سینے کو بپھرائے آخر سما کھلے تو دیکھے چَھٹ بھی گئے ،اندھیارے مَن مندر میں سورج بیٹھا آس کا دیپ جلائے سوندھی سوندھی باس وطن کی مٹی میں سے اٹھے تب سب نوحے بھول کے وہ بس راگ ملن کے گائے پیتم یاد میں ڈوبا ڈوبا پریم نگر کو جائے ایک ہی دھن میں گم ہو ' مَن میں ایک ہی یار بسائے اس کے پاؤں دھو کے پئیں ساگر کی موجیں جب وہ جھینپا جھینپا اس میں اترے شرمائے شرمائے آ۔ میری موجوں سے لپٹ جا ساگر تان اڑائے یہ بھی تو سنسار کی ریت ہے جو کھوئے سو پائے کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ116۔119 48۔ دل شوریدہ کا خواب تم نے بھی مجھ سے تعلق کوئی رکھا ہوتا کاش یوں ہوتا تو مَیں اتنا نہ تنہا ہوتا لب پر آجاتا کبھی دل سے اچھل کر مرا نام تو مَیں اس جنبشِ لب کی طرح یکتا ہوتا دل میں ہر لحظہ دھڑکتا یہ تمہارا احساں اس کی ہر ضرب سے سینے میں اجالا ہوتا ظلمتیں دل کی اسی نور سے ہوتیں کافور نور یہ کتنا مدھر ، کتنا رُوپہلا ہوتا جب تصور کے نہاں خانہ میں ہنگامۂ عشق ہم بپا کرتے تو کچھ اُس کا نہ چرچا ہوتا جانتا کون ہمارے دل ِشوریدہ کا خواب دیکھتا کون جو ہم دونوں نے دیکھا ہوتا یوں ہی چھپ چھپ کے ملا کرتے پسِ پردۂ دل دل ہی دل میں کسے معلوم کہ کیا کیا ہوتا یوں ہی بڑھتی چلی جاتی رہ و رسم ِالفت ہم نے جی کھول کے اک دوجے کو چاہا ہوتا دل دھڑکتے جو کبھی راہ میں ملتے سر عام بے دھڑک پیار کے اظہار کا دھڑکا ہوتا مجھ سے تم نظریں چرا لیتے بدن لجا کر پھر مجھے دیکھتے ایسے کہ نہ دیکھا ہوتا یہ ادا دل کو لبھاتی تو ستاتی بھی بہت سوچتا تم نہ مرے ہوتے تو پھر کیا ہوتا میرے سب خواب بکھر جاتے سرابوں میں ۔ بس ایک ہر طرف پھیلا ہوا عالمِ صحرا ہوتا اس تصور سے کہ تم چھوڑ کے جاتے تو سَدا دل محبت کی اک اک بوند کو ترسا ہوتا آنکھ سے میری برستا وہ لہو کہ پہلے شاید ہی اور کسی آنکھ سے برسا ہوتا ڈوب جاتا اُسی خونابہ میں افسانۂ عشق آنکھ کھلتی تو بس اک خواب سا دیکھا ہوتا بہہ چکا ہوتا مری آنکھ سے سیلاب بلا نہ وہ موجیں کہیں ہوتیں نہ وہ دریا ہوتا چھا چکی ہوتی جدائی کی سسکتی ہوئی رات مجھے بانہوں میں شب ِغم نے لپیٹا ہوتا چارسو تم نہ دکھائی کہیں دیتے ۔اک میں اپنے ہی اشکوں میں بھیگا ہوا لیٹا ہوتا دور اک عارضِ گیتی پہ ڈھلکتا ہوا اشک دیدۂ شب سے اُفُق پار چھلکتا ہوتا اُس میں ہر لحظہ لرزتا ہوا ، بجھتا ہوا عکس اک حسیں چاند سے چہرے کا جھلکتا ہوتا کس نے لوٹا ہوا ہوتا مرے چندا کا قرار کروٹیں کس کی جدائی میں بدلتا ہوتا یاد میں کس کی وہ آفاق پہ بہتا ہوا حُسن نت نئی دنیا ۔ نئے دیس میں ڈھلتا ہوتا عمر بھر مَیں بھی تمہیں ڈھونڈتا بے سُود اگر عالمِ خواب مرا ملجأ و ماویٰ ہوتا اب علاج ِغم تنہائی کہاں سے لاؤں تم کہیں ہوتے تو اس غم کا مُدَاوَا ہوتا اب کسے ڈھونڈوں تصور میں بسانے کے لئے چاند کوئی نہ رہا اپنا بنانے کے لئے میرے اس دنیا میں لاکھوں ہیں مگر کوئی نہیں میرا تنہائیوں میں ساتھ نبھانے کے لئے کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ120۔122 49۔ اذن نغمہ مجھے تو دے تو میں کیوں نہ گاؤں ٹیگور کی ایک نظم کا آزاد ترجمہ اذن نغمہ مجھے تو دے تو میں کیوں نہ گاؤں تیرے اس لطف و کرم سے تو مرے کون و مکان دَمَک اُٹھے ہیں مری دھرتی چمک اُٹھی ہے میرا سورج بھی ہے تو چاند ستارے بھی تو اپنے جیون پہ مرا فخر ترے دم سے ہے۔ دیکھتا ہوں میں ترا حسن تو چشمِ نم سے میرے بہتے ہوئے اشکوں میں جھلکتا ہے تُو تیرا احساں ہے کہ تُو نے مجھے گیتوں کے لئے چن لیا ہے کہ میں بُنتا رہوں ، گاتا رہوں ۔  گیت زندگی میں نہ کثافت رہی کوئی نہ جمود ساری بے ربطگی ۔ موسیقی میں تحلیل ہوئی ایسی موسیقی جو اک آبی پرندے کی طرح اپنے پر وسعت افلاک میں پھیلائے ہوئے نیلگوں بحر محبت پہ تھی محو ِپرواز اپنی ہی موج طرب میں تھی فضا پر رقصاں اُسکے پر چھونے لگے تیرے قدم کی محراب کوئی باقی نہ رہی پھر کسی معبد کی تلاش اتنا نشہ ہے ترے پیار کے گیتوں میں کہ مَیں دوست کہہ دیتا ہوں تجھ کو اسی مدہوشی میں تُو تو مالک ہے خداوند ہے خالق ہے مرا مجھ سے ناراض نہ ہونا میں ترا چاکر ہوں کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ123۔125 50۔ آخر وہ دن آیا آج

یہ نظم عزیزہ منصورہ منیب کی بچی کی پیدائش پر کہی تھی جس کے متعلق پہلے ہی عزیزہ ارم کو رویا میں دکھایا گیا تھا کہ بیٹی ہو گی۔ منصورہ مکرمہ صادقہ حیدر صا حبہ مرحومہ اور سید مقصود حیدر صاحب کی بیٹی ہیں اور ان کے میاں عزیزم منیب احمد ' میجر منیر احمد شہید کے صاحبزادہ ہیں۔

منصورہ لے کر آئی ہے اپنی بھولی بھالی بچی معجزہ ہے جو اک اللہ کا اونچی قسمت والی بچی حمد و ثنا کے نغمے گاؤ گل برساؤ ، اُردو کلاس! ڈاکٹرز نے تو تھا یہ ڈرایا منصورہ اور منیب کا بچہ ہوا بھی تو معذور ہی ہو گا پر یہ ہول نہ نکلا سچا حمد و ثنا کے نغمے گاؤ گل برساؤ ، اُردو کلاس! بات ہوئی پوری تو وہی جو اللہ نے بتلائی تھی خواب میں اک خوشخبری بھاری منصورہ کو دکھلائی تھی حمد و ثنا کے نغمے گاؤ گل برساؤ ، اُردو کلاس! ارم نے بھی تو دیکھی تھی خواب میں منصورہ کی لال پیاری ' لمبی اور لم ڈھینگی کرتی تھی جو دل کو نہال حمد و ثنا کے نغمے گاؤ گل برساؤ ، اُردو کلاس! ماں اور باپ ہیں دونوں خوش خوش ہیں منصورہ کی ساس تہنیت کرتی ہے پیش جھک کر سب کو اردو کلاس حمد و ثنا کے نغمے گاؤ گل برساؤ ، اُردو کلاس! کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ126۔128 51 ہار ٹلے پول کا وہ پھول، وہ محبوب گیا

مکرم ڈاکٹر حمید احمد خان صاحب آف ہارٹلے پول (Hartlepool) کی وفات پر

ہارٹلے پول میں کل ایک کنول ڈوب گیا ہارٹلے پول کا وہ پھول ، وہ محبوب گیا مسکراتا تھا ہمیشہ وہ نجیب ابنِ نجیب اس کے اخلاق نرالے تھے ' ادائیں تھیں عجیب پیکر ِضبط تھا وہ ۔ صبر کا شہزادہ تھا اس کے گرویدہ تھے سب ۔ ہر کوئی دلدادہ تھا اس کے ہی غم سے تو آج آنکھیں ہوئی ہیں پُر آب ذکر سے جس کے کِھل اٹھتے تھے کبھی دل کے گلاب یاد رکھے گی وہ اک پھول سدا اردو کلاس دل سے اٹھلاتی ہوئی اٹھے گی اس کی بوباس وہ سمندر کے کنارے ہمیں لے جاتا تھا دیر تک وہ لب ِساحل ہمیں ٹہلاتا تھا راگ موجوں کا بڑوں چھوٹوں کو بہلاتا تھا اب خیال آتا ہے وہ اس کے ہی گن گاتا تھا کبھی ہم اُس کو لطیفوں سے ہنساتے تھے بہت کبھی گاتے تھے تو وہ پیار سے سمجھاتا تھا آؤ اب بنچوں پہ ساگر کے کنارے بیٹھیں تھک چکے ہو گے تمہیں کل بھی تو جگ راتا تھا میں تمہیں مچھلی کھلاؤں گا تر و تازہ چلو ہے ابھی تک کھلا فش شاپ کا دروازہ چلو اس کی مہمان نوازی ہمیں یاد آئے گی بے غرض اس کی محبت ہمیں تڑپائے گی وہ کئے رکھتا تھا پہلے سے ہی سب کچھ تیار کئی کھانوں کی لگا رکھتا تھا میزوں پہ قِطار ہمیں بٹھلا کے بڑی تیزی سے پھر جاتا تھا اپنے بچوں کو لئے ساتھ وہ سوئے بازار جلد بازار سے لے آتا تھا تازہ مچھلی گرم بھاپ اٹھتی تھی مچھلی سے نہایت مزیدار اب اسے ڈھونڈنے جائے تو کہاں اردو کلاس اسے اب دیکھے گی دل ہی میں نہاں اردو کلاس جس کی خاطر وہ ہمیں کرتا تھا پیار اے وائے وہ بھی غمگین ہے اس کے لئے بے حد ، ہائے صبر کی کرتا ہے تلقین وہ اوروں کو مگر کاش! اُس کو بھی تو اس غم سے قرار آ جائے دفن ہو جائے گا کل ساجدہ کی قبر کے ساتھ اے خدا! قرب یہ دونوں کو بہت بہلائے فاتحہ کے لئے ہم جائیں تو یہ نہ ہو کہیں ہم سے شکویں کریں وہ قبریں کہ اب کیوں آئے اب کبھی ہم سے ملو گے بھی تو بس خوابوں میں یہ کنول اب نہ کھلیں گے کہیں تالابوں میں کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ129۔131 52۔ انڈونیشیا

انڈونیشیا کے تاریخی سفر کے دوران جلسہ سالانہ انڈونیشیا 2000ء کے موقع پر پڑھی گئی۔

اے عظیم انڈونیشیا جایا لہ۔ انڈونیشیا تجھ میں تھیں جو چشم ہائے تر رحمت علی سے بہرہ ور آج بھی ہیں ان میں سے کئی نرگسی خصال ، دیدہ ور جن کو نور کر گیا عطا وہ خدا کا بے ریا بشر وہ فقیر جس کی آنکھ میں نور مصطفی تھا جلوہ گر اے عظیم انڈونیشیا جایا لہ۔ انڈونیشیا ابراہیم وقت کا سفیر تھا جسے تسلط آگ پر وہ غلام اس کے در کا تھا جس کی آگ تھی غلام ِدر بے شمار گھر جلا کے جب پہنچی شعلہ زن وہ اس کے گھر سرد پڑ گئی اور ہو گئی ڈھیر آپ ، اپنی راکھ پر اے عظیم انڈونیشیا جایا لہ۔ انڈونیشیا تیری سرزمیں کی خاک سے مثل آدم اولیاء اُٹھے پھر انہی کی خاکِ پاک سے بے شمار باخدا اُٹھے اُن کی سرمدی قبور سے آج بھی یہی ندا اُٹھے کاش تیری مٹی سے مدام جو اٹھے وہ پارسا اُٹھے اے عظیم انڈونیشیا جایا لہ۔ انڈونیشیا کتنا خوش نصیب ہوں کہ میں تجھ سے ہو رہا ہوں ہم کلام اک غلام خیرالانبیاء کا غلام در غلام در غلام تحفہ ء خلوص لایا ہوں تجھ پہ بھیجتا ہوا سلام نفرتوں کا میں نہیں نقیب صلح و آشتی کا ہوں پیام اے عظیم انڈونیشیا جایا لہ۔ انڈونیشیا تیرا سر ہے تاجدارِ حسن خاک پا ہے سبزہ زارِ حسن ہر حسین کوہسار سے پھوٹتی ہے آبشارِ حسن جس سے وادیوں میں ہر طرف بہ رہی ہے رُودبارِ حسن ہر گھڑی ہوں تجھ پہ گل نثار سبز پوش اے نگار حسن اے عظیم انڈونیشیا جایا لہ۔ انڈونیشیا کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ132۔133 53۔ وہ روز آتا ہے گھر پر ہمارے ٹی وی پر

اس بحر اور قافیہ، ردیف میں احمد فراز کی ایک بہت ہی اعلیٰ پایہ کی نظم ہے۔ اس پر کسی نے مزاحیہ تضمین کہی ہے۔ پس یہ اسی کی تضمین پر تضمین ہے اور اسی کا رنگ اختیار کرتے ہوئے پنجابی ، سندھی ، سرائیکی الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے۔

وہ روز آتا ہے گھر پر ہمارے ٹی وی پر تو ہم بھی اب اسے انگلینڈ چل کے دیکھتے ہیں وہ جس کی بچے بھی کرتے ہیں پیشوائی روز وہ اس کو شوق سے سنتے ہیں بلکہ دیکھتے ہیں عجب مزا ہے جب اُردو کلاس ہوتی ہے تو چھوٹے لڑکے بھی بلیوں اچھل کے دیکھتے ہیں سنا ہے پیار وہ کرتا ہے غم کے ماروں سے تو ہم بھی درد کے قالب میں ڈھل کے دیکھتے ہیں ہے ایم ٹی اے بڑا مقبول اس کو پنجابی لگا کے اپنے گھروں پر 'دَبَل 'کے دیکھتے ہیں جو غیر احمدی سندھی ہیں ملاں کے ڈر سے وہ چھپ کے احمدی گوٹھوں میں چل کے دیکھتے ہیں پٹھان ملا کو ہیں اپنے گھر ہی لے جاتے اور اس کا چٹکیوں میں دل مسل کے دیکھتے ہیں غریب تھل کے ، دوکانوں میں ٹیلی ویژن کی بڑی لگن ، بڑی چاہت سے 'کَھل' کے دیکھتے ہیں خدا کے فضلوں پر ہوتا ہے اپنا دل ٹھنڈا تو مولوی ہمیں کیوں اتنا جل کے دیکھتے ہیں عروج اپنا مقدر ہے اور ان کا زوال یہ وہ ابال ہے جس میں ابل کے دیکھتے ہیں ہمارے حال کے جب آئینے میں جھانکتے ہیں تو اس میں اپنے زبوں حال ، کل کے دیکھتے ہیں جلسہ سالانہ یو کے ۔ جولائی2000ء کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ134۔135 54۔ باپ کی ایک غم زدہ بیٹی باپ کی ایک غم زدہ بیٹی دیر کے بعد مسکرائی ہے آنکھ نمناک ہے مگر پھر بھی مسکراہٹ لبوں پر آئی ہے اس سے کہنے لگی کہ کیوں ابا آپ اتنے اداس بیٹھے ہیں سب کو غمگیں کر دیا ہے جو آپ کے آس پاس بیٹھے ہیں اپنے دل میں بسا کے میرا غم کب تلک میرا درد پالیں گے میرے دکھ کو لگا کے سینے سے کیا مرا ہر ستم اٹھا لیں گے آپ کی بیٹیاں1 ہیں اور بھی جو اپنوں ، غیروں کے ظلم سہتی ہیں اپنے ماں باپ سے بھی چھپ چھپ کر راز دل آپ ہی سے کہتی ہیں رات سجدوں میں اپنے رب کے حضور ان کے غم میں بھی آپ روتے ہیں جن کے ماں باپ اور کوئی نہ ہوں ان کے ماں باپ آپ ہوتے ہیں آپ نے زندگی گزارنی ہے ساری دنیا کے بوجھ اٹھائے ہوئے آپ سے مانگتے ہیں مرہم دل سب کے ہاتھوں سے زخم کھائے ہوئے ان کو سمجھائیں ان سے بھی زیادہ ہیں ستم دیدہ لوگ دنیا میں اپنوں کے ہاتھ مرنے والوں پر روز ہوتے ہیں سوگ دنیا میں 1۔ سب احمدی بچیاں کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ138۔139 55۔ تیرے لئے ہے آنکھ کوئی اشکبار دیکھ

کالج کے ابتدائی زمانہ کی ایک غزل جس کا پہلا شعر والدہ مرحومہ ؓ کی ایک تصویر کا مرہون منت ہے۔

تیرے لئے ہے آنکھ کوئی اشکبار دیکھ نظریں اٹھا خدا کے لئے ایک بار دیکھ اور محو ِسیرِ دلکشی ء گل نظر اٹھا گلشن میں حال ِزار و نزارِ ہزار دیکھ اٹھی بس اِن سے ایک نوائے جگر خراش ٹوٹے پڑے ہیں بربط ہستی کے تار دیکھ تُو مجھ سے آج وعدہ ء ضبط الم نہ لے ان آنسوؤں کا کوئی نہیں اعتبار دیکھ بند شکیب توڑ کر آنسو برس پڑے اپنوں پہ بھی نہیں ہے مجھے اختیار دیکھ کانٹوں میں ہائے کیوں میری ہستی الجھ گئی وہ مجھ پہ کھلکھلا اٹھا ہے لالہ زار دیکھ  کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ140 56۔ لوح ِجہاں پہ حرف نمایاں نہ بن سکے لوح ِجہاں پہ حرف نمایاں نہ بن سکے ہم جس جگہ بھی جا کے رہے بے نشاں رہے اتنا تو یاد ہے کہ جہاں تھے اداس تھے یہ کس کو ہوش ہے کہ کہاں تھے کہاں رہے حال ِدلِ خراب تو کوئی نہ پا سکا چین ِجبیں سے اہل جہاں بدگماں رہے آنکھوں نے راز ِسوز ِدروں کہہ دیا مگر بزمِ طرب میں ہونٹ تبسم کناں رہے یاروں نے ، اپنے اپنے مقاصد کو جا لیا یاں عقل و دل بکشمکش این و آں رہے یا جوش و ذوق و شوق یا کم ہمتی سے ضعف سب کچھ ہوا کیا پہ جہاں کے تہاں رہے مجھ کو جو دکھ دیئے ہیں نہیں تجھ سے کچھ گلہ میری دعا یہی ہے کہ تو شادماں رہے اپنی تو عمر روتے کٹی ہے پر اس سے کیا جا ، میری جان ! تیرا خدا پاسباں رہے احساس ِنامرادئ دل شعلہ سا اٹھا ہم جاں بلب پڑے رہے آتش بجاں رہے ٩ستمبر ١٩٤٨ء کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ141 57۔ بہیں اشک کیوں تمہارے انہیں روک لو خدارا بہیں اشک کیوں تمہارے اِنہیں روک لو خدارا مجھے دکھ قبول سارے یہ ستم نہیں گوارا ہو کسی کے تم سراپا مگر آہ کیا کروں میں میری روح بھی تمہاری میرا جسم بھی تمہارا میں غم و الم کی موجوں سے الجھ رہا ہوں تنہا مجھے آ کے دو سہارا مجھے تھام لو خدارا میری دل شکستگی پر مجھے غرق ِغم سمجھ کر وہ جو ایک آرزو تھی وہی کر گئی کنارا مجھے اذن ِمرگ دے کر وہ افق پہ چاند ڈوبا وہ مرا نصیب لے کر کوئی بجھ گیا ستارا لو ڈھلک گیا وہ آنسو کہ جھلک رہا تھا جس میں تری شمع ِرخ کا پَرتَو تِرا عکس پیارا پیارا ہے مجھے تلاش اس کی جو کبھی کا کھو چکا ہے مجھے جستجو کا کر کے کہیں دور سے اشارا مجھے چھوڑ کر گئے ہو میرا صبر آزمانے تو سنو کہ اب نہیں ہے مجھے ضبط غم کا یارا کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ142۔143 58۔ عشق نارسا کبھی اپنا بھی اک شناسا تھا کوئی میرا بھی آسرا سا تھا کبھی میں بھی کسی کا تھا مطلوب یا مجھے بس یونہی لگا سا تھا وہ سراپا جمال سر تا پا حسن ِصنعت کا معجزہ سا تھا نرگسی چشم نیم باز اس کی چمنِ دل کھلا کھلا سا تھا خم ِلب ۔ برگ گل کی انگڑائی دہن غنچہ ،۔نیم وا سا تھا حسن کی چاندنی سے تابندہ پھول چہرہ کِھلا کِھلا سا تھا خوش تکلم سا خوش ادا سا تھا بے تکلف سا بے ریا سا تھا یوں لگا جب ملا وہ پہلی بار جیسے صدیوں سے آشنا سا تھا بھر دیا اس نے وہ جو برسوں سے میرے سینے میں اک خلا سا تھا اک کرشمہ فسوں کا پراسرار حیرتوں کا مجسمہ سا تھا خامشی میں سرود ِبے آواز گفتگو میں غزل سرا سا تھا دھوپ میں سائے دار اس کا پیار اور اندھیروں میں اک دیا سا تھا آشنا ہو کے اجنبی تھا وہ شخص ساتھ رہ کر جدا جدا سا تھا دل میں گھر کر گیا وہ دل کا چور دل نشیں کتنا دلربا سا تھا بن سکا نہ مرا کبھی لیکن وہ ہمیشہ مرا مرا سا تھا اس کے دائم فراق میں شب و روز وصل کا سرمدی مزا سا تھا جب بھی وہ آیا ساتھ نغمہ سرا آرزوؤں کا طائفہ سا تھا جب گیا حسرتوں کا اس کے ساتھ ایک غمناک جمگھٹا سا تھا مجھے کنگال کر گیا وہ شخص میرا تو بس وہی اَثاثہ تھا میں نہیں جانتا وہ تھا کیا چیز تھی حقیقت کہ واہمہ سا تھا تھا وہ تعبیر میرے خوابوں کی یا ہیولیٰ سا خواب کا سا تھا پیار میں جس کے عمر بیت گئی کیا فقط ایک دم دلاسہ تھا؟ دیدئہ ہوش جب کُھلا ، دیکھا ہر طرف پھر وہی خلا سا تھا وہی میں تھا وہی طلب دل کی وہی اک عشقِ نارسا سا تھا پیاس بجھ نہ سکی کسی مے سے جانے دل کس بلا کا پیاسا تھا کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ144 59۔ داڑھی کا برگد

یہ بہت پرانے شعر ہیں جو میاں وسیم احمد صاحب کی اجازت سے ہم شائع کر رہے ہیں۔

میرے بھائی! آپ کی ہیں سخت چنچل سالیاں شعلۂ جوّالہ ہیں آفت کی ہیں پرکالیاں آپ کی داڑھی کا برگد دیکھ پاتیں وہ اگر اس پہ پینگیں ڈالتیں ، گاتیں ، بجاتیں تالیاں توڑ دیتیں ڈالیاں ، آتا نہ کچھ ان کو خیال آپ تو داڑھی منڈا کر بچ گئے ہیں بال بال کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ145 60۔ بروفات حضرت امی جانؓ ١٩٤٤ء کی نظم کے دو شعر گو جدائی ہے کٹھن دُور بہت ہے منزل پر مرا آقا بلا لے گا مجھے بھی اے ماں اور پھر تم سے میں مل جاؤں گا جلدی یا بدیر اس جگہ ، مل کے جدا پھر نہیں ہوتے ہیں جہاں کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ146 61۔ نذر ''راوی'' -- غرق راوی ''بذل حق محمود1'' سے میری کہانی کھو گئی ''بذل حق'' سے روٹھ کر وہ واصل حق ہو گئی نذر ''راوی2'' کی تھی میں نے کتنے ارمانوں کے ساتھ ناؤ لیکن کاغذی تھی غرق ''راوی3'' ہو گئی (١)؎    ایڈیٹر ''راوی'' (٢)    گورنمنٹ کالج لاہور کا میگزین (٣)    پنجاب کا مشہور دریا کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ147۔148 62۔ بدلا ہوا محبوب ایک بہت پرانی نظم - معمولی تبدیلیوں کے ساتھ منتظر میں ترے آنے کا رہا ہوں برسوں یہ لگن تھی تجھے دیکھوں تجھے چاہوں برسوں رات کے پردے میں چھپ چھپ کے تجھے یاد کیا دن نکل آیا تو دن تجھ سے ہی آباد کیا لیکن افسوس کہ فرقت کے زبوں حال کے بعد دل میں روندی ہوئی اک حسرت پامال کے بعد آہ جب وصل کی امید کی لو جاگ اُٹھی کلفتِ ہجر شب و روز و مہ و سال کے بعد آج آیا بھی تو بدلا ہوا محبوب آیا غیر کے بھیس میں لپٹا ہوا کیا خوب آیا اس طرح آیا کہ اے کاش نہ آیا ہوتا مجھ سے جھینپا ہوا سو پردوں میں محجوب آیا جسم اس کا ہے سب انداز مگر غیر کے ہیں آنکھ اس کی ہے پر اطوارِ نظر غیر کے ہیں چاند تھا میری نگاہوں کا مگر دیکھو تو بام و در جن کے اجالے ہیں وہ گھر غیر کے ہیں اے مجھے ہجر میں دیوانہ بنانے والے غم ِفرقت میں شب و روز ستانے والے اے کہ تُو تحفہ درد و ہم و غم لایا ہے دیر کے بعد بڑی دور سے آنے والے جا کہ اب قرب سے تیرے مجھے دکھ ہوتا ہے اے شب غم کے سویرے مجھے دکھ ہوتا ہے غالباً ١٩٤٥ء کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ149۔150 63۔ میاں چھیمی کا حلوہ

یہ نظم بچپن میں ضلع کانگڑہ کے ایک پرفضاپہاڑی مقام دھرم سالہ میں کہی تھی جہاں ہم آٹھ بھائی اپنے اباجانؓ کے ساتھ گئے ہوئے تھے۔ وہاں بھائیوں نے آپس میں پیسے ڈال کر حلوہ بنانے کا پروگرام بنایا تھا۔ جب حلوہ پک چکا تو میاں وسیم جنہیں ہم ان دنوں ''چھیمی''کہا کرتے تھے ، حلوہ اٹھائے ہوئے تیزی سے ہماری طرف آ رہے تھے کہ رستے میں ٹکر لگی اور ان کے ہاتھ سے دیگچہ چھوٹ کر سارا حلوہ مٹی میں مل گیا۔ ہم نے انہیں چھیڑنے کی خاطر یہ قصہ بنایا اور میں نے اسے نظمایا۔ لیکن یہ نظم محض بچپن کی اک چھیڑ چھاڑ تھی ورنہ میاں وسیم کی نیت ہرگز حلوہ اکیلے کھانے کی نہیں تھی۔ قیصؔ میری بڑی بہن ، بیگم مرزا مظفر احمد صاحب کا ایک ملازم تھا جو اُن دنوں اُن دونوں کے ساتھ ہی وہاں ٹھہرا ہوا تھا اور چھوٹا ہونے کی وجہ سے بے تکلف اس کا گھر میں آنا جانا تھا۔ امی سے مراد میری امی مرحومہؓ ہیں جن سے میاں وسیم بلاوجہ بچپن میں بہت ڈرا کرتے تھے۔ یہ نظم میاں وسیم احمدصاحب کی اجازت سے شامل اشاعت کی جا رہی ہے۔

اک پیسہ پیسہ جوڑ کر بھائیوں نے شوق سے سوچا تھا یہ کہ سوجی کا حلوہ بنائیں گے پھر بیٹھ کر مزے سے کسی بند کمرے میں اک دوسرے کو حلوے پہ حلوہ کھلائیں گے چھیمی نے سوچا کیوں نہ اکیلا ہی کھاؤں میں باورچی خانہ چوری چھپے کیوں نہ جاؤں میں ہوشیار بننے والوں کو بدھو بناؤں میں جب مجھ کو کھانے دوڑیں ، کہیں بھاگ جاؤں میں یہ سوچ کر چلا گیا باورچی خانے میں باورچی تھا مگن وہاں حلوہ پکانے میں اس سے کہا میں تھک گیا ہوں آنے جانے میں بھائی ہیں میرے منتظر اندر زنانے میں پھر دیگچی اٹھا کے وہ تیزی سے چل پڑا حلوہ کی طرح منہ سے بھی پانی ابل پڑا کیا علم تھا کہ راہ میں دیکھے گا قیص کو دیکھا تو ڈر سے سینہ میں دل ہی اچھل پڑا جب قیص نے کہا تمہیں امی بلاتی ہیں امی کا نام سنتے ہی بس وہ ٹھٹھر گیا قسمت کو دیکھئے کہ کہاں ٹوٹی جا کمند حلوہ قریب دہن ہی آیا تھا ، گر گیا کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ151 64۔ یہ دو آنکھیں ہیں شعلہ زا یہ دو آنکھیں ہیں شعلہ زا۔ یا جلتے ہیں پروانے دو یہ اشکِ ندامت پھوٹ پڑے۔ یا ٹوٹ گئے پیمانے دو پہلے تو مری موجودگی میں تم اکتائے سے رہتے تھے اب میرے بعد تمہارا دل گھبرائے گا ۔ گھبرانے دو دکھ اتنے دیئے میں سہہ نہ سکا یوں زیست کا رشتہ ٹوٹ گیا اب اپنے کئے پر ظالم دل پچھتاتا ہے ، پچھتانے دو خوش ہو کے کرو رخصت دیکھو ۔ تم ناحق اپنی پلکوں پر جو اشک سجائے بیٹھے ہو ۔ ان اشکوں کو ڈھل جانے دو مر کر بھی مرا ، یہ بھیگی آنکھیں ، چین اڑا دیں گی۔ تو کیا یہ بجھے چراغ سجاؤ گے مرے مرقد کے سرہانے دو نیند آئی ہے تھک ہار چکا ہوں چھوڑو بھی پچھلی باتیں میں رات بہت جاگا ہوں۔ اب تو صبح تلک سستانے دو ١٩٤٤ء کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ152۔153 65۔ ہم کو قادیاں ملے ہیں لوگ وہ بھی چاہتے ہیں دولت ِجہاں ملے زمیں ملے ۔مکاں ملے ۔ سکون قلب و جاں ملے پر احمدی وہ ہیں کہ جن کے جب دعا کو ہاتھ اٹھیں تڑپ تڑپ کے یوں کہیں کہ ہم کو قادیاں ملے غضب ہوا کہ مشرکوں نے بت کدے بنا دیئے خدا کے گھر ۔کہ درس ِوحدت ِخدا۔ جہاں ملے چلے چلو ۔ تمہاری راہ دیکھتی ہیں مسجدیں وہ منتظر ہیں خانۂ خدا سے پھر اذاں ملے بڑھے چلو براہِ دیں خوشا نصیب کہ تمہیں خلیفۃ المسیح سے امیرِکارواں ملے جیو تو کامران جیو ، شہید ہو تو اس طرح کہ دین کو تمہارے بعد عمر جِاوداں ملے ہے زندہ قوم وہ نہ جس میں ضعف کا نشاں ملے کہ طفل طفل ، پیر پیر ، جس کا نوجواں ملے جلسہ سالانہ لاہور ١٩٤٩ء کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ154 66۔ رنج تنہائی اف یہ تنہائی تری الفت کے مٹ جانے کے بعد تیری فرقت میں تو اتنا رنجِ تنہائی نہ تھا اب بِتا کر عمر ہوش آئی تو یہ عقدہ کھلا عشق ہی پاگل تھا ورنہ میں تو سودائی نہ تھا کیسی کیسی شرم تھی ، کیا کیا حیا تھی پردہ دار پیار جب معصوم تھا اور وجہِ رسوائی نہ تھا وائے پیری کی پشیمانی ، جوانی کے جنون خود سے میں شرمندہ تھا ، مجھ سے مرا آئینہ تھا