ہے دراز دست دعا مرا

ہے دراز دستِ دعا مرا ہے دراز دستِ دعا مرا امۃ القدوس ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ1۔12  دیباچہ بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

'ہے دراز د ستِ دُعا مرا' آپ کے سامنے ہے۔ یہ صاحبزادی امۃ القدوس بیگم سلمہا اللہ کے عارفانہ کلام کا مجموعہ ہے۔ اس پر تنقیدی نظر ڈالنا میرے بس کی بات نہیں۔ نہ ہی میں یہ جسارت کر سکتا ہوں کہ کسی گھسے پٹے خودساختہ معیار کو سامنے رکھ کر ایک من گھڑت پیمانے یا ترازو سے اس کلام کے قدوقامت اور حدوداربعہ کا اندازہ لگاؤں۔ پھول کو آپ کیسے ماپ سکتے ہیں۔ خوشبو کو سونگھ تو سکتے ہیں، تول نہیں سکتے۔ حرف و صوت، اظہار و بیان اور ہیئت اور معنویت پر بہت کچھ لکھا گیا اور لکھا جا رہا ہے۔ کہیں ادب برائے ادب اور ادب برائے زندگی کی بحثیں ہیں۔ شعر کی قدروقیمت کو متعین کرنے کے لئے موضوعیت اور معنویت، جدیدیت اور ساختیات غرض کہ طرح طرح کے پیمانے وضع کئے جا رہے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ شعر شعر ہے۔ یہ آپ اپنی دلیل ہے۔ آفتاب آمد دلیلِ آفتاب۔ بے شک شعر کی صحیح تفہیم کیلئے اس کے سیاق و سباق اور اس کے یونیورس آف ڈس کورس یعنی اس کے پس منظر کی تفہیم بھی ضروری ہے۔ نفسیات کا معروف اور بنیادی مسئلہ Figure اور Ground یعنی منظر اور پس منظر کا ہے۔ پس منظر کے بغیر منظر کا تصور ہی نا ممکن ہے۔ اور جب منظر اور پس منظر ایک اکائی بن جائیں تو ادب عالیہ کی سرحد شروع ہو جاتی ہے۔ بے شک بقول کولرِج

Poetry is the willing suspension of disbelief.

شعر وہ ہے جو عدم یقین کو بآسانی معطل کردے یا بالفاظ دیگر جھوٹ کو سچ کر دکھاوے۔ ممکن ہے شعر کی بعض اقسام پر یہ تعریف صادق آتی ہو۔ کیونکہ الفاظ کا جادو بھی ایک حقیقت ہے۔ کولرِج کی اپنی شعری کاوشیں مثلاً قبلائی خان اور Ancient Mariner وغیرہ اسی قسم کے شعری ادب کی مشہور مثالیں ہیں۔ لیکن ایسے شعر کے 'پیر' تو شاید ہوں۔ 'سر'بہرحال نہیں ہوتا۔ جسم ہو تو جان نہیں ہوتی۔ جان بھی ہو تو روح نہیں ہوتی۔ لیکن شعر کی ایک قسم وہ بھی ہے جس کی جڑیں اگر زمین میں ہوں تو شاخیں آسمان سے باتیں کر رہی ہوتی ہیں۔ ایسے شعر کا اگر قبلہ درست ہو تو حسن ہے۔ سچ ہے۔ خیر ہے۔ جس منظوم کلام میں یہ ابعادِ ثلاثہ جمع ہو جائیں۔ وہ شعر کہلائے گا بلکہ حقیقی معنوں میں صرف اسے ہی شعر کہا جانا مناسب ہوگا۔ ایسا تخلیقی عمل ایک گونہ اعجاز کا رنگ اپنے اندر رکھتا ہے۔ لفظ اچانک بیدار ہو جاتے ہیں اور بولنے لگتے ہیں۔ یا بقول فیض ؔ لَو دینے لگتے ہیں۔ اگر یہ معجزہ ہو جائے تو اسے شعر کہا جائے گابلکہ ان معنوں میں صرف اسے ہی شعر کہا جائے گا۔

آیئے اس پچاس سالہ بلکہ پوری انسانی تاریخ کے پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس لطیف اَور لذیذ روحانی مائدہ سے لطف اندوز ہوں۔ دیکھیں کس خوبصورتی اَور آداب کے پورے رکھ رکھاؤ کے ساتھ دنیا و مافیہا کی کدورتوں اَور گردوغبار سے نہ صرف پاک بلکہ بے نیاز، نہ گلہ ہے دوستوں سے نہ شکایت زمانہ۔ اپنے قادر اَور مالک ربِّ کریم کے دربار میں حاضر ہیں۔ زخموں کو زبان مل رہی ہے۔ دکھ درد، خوشیاں اَور مسرتیں، قربتیں اور فاصلے اپنی اپنی گزارشات پیش کر رہے ہیں۔انسان کے شرف، مرتبے اور مقام کا ادراک اَور احساس زندہ کیا جا رہا ہے۔اور ایمان اوریقین کو ایک تازہ حوصلہ اور ولولہ ارزانی ہو رہا ہے۔ نہ ستائش کی تمنا، نہ صلے کی پروا۔ بس ایک ہی دھن ہے کہ سب کا خالق اور مالک راضی ہو جائے۔

آپ کا محبوب روایتی نہیں آسمانی ہے، مجازی نہیں حقیقی ہے۔ قدرتِ اولیٰ اور ثانیہ کے سب مظہر اور ان سے فراق کی باتیں ہیں۔ ان کی شعری حسّیت سچی۔ ان کے موضوعی اور معروضی حوالے سچے۔ ان کی پکار عین حقیقت یعنی زمان و مکان اور دنیا و آخرت کے خالق و مالک رحمن اور رحیم خدا کے دربار میں پکار ہے۔ فریاد ہے۔ چیخ ہے۔ جماعت معروضی حوالوں اور امتحانوں اور ابتلاؤں کی جس چکّی میں پِس کر صحیح سلامت نکلی اور ظلم و ستم کے جن مراحل میں سے گزری اور گزر رہی ہے۔ یہ امتحانی مراحل ہی ان کے اشعار کا پس منظر ہیں۔ ہجر و فراق، قرب و وصال کے قصے ہیں۔ غمِ جاں اور غمِ جاناں، ذات اور کائنات کی باتیں ہیں۔ ارباب وطن کی مہربانیوں کا ذکر ہے۔ لیکن کمال یہ ہے کہ ظلم و ستم کی اس چکّی میں پِس کر بھی اگر کہیں حرف شکایت زبان پر آیا ہے۔ تو دعا بن کر۔ اوّل سے آخر تک سارا کلام ایک التجا ہے جو اپنے رب کے حضور کی گئی ہے۔ اور بس۔ غم ہے، فراق ہے، مجبوریاں ہیں، مظلو میت ہے۔ لیکن کہیں غصّے یا جھنجھلاہٹ کا شائبہ تک نہیں۔ سارا کلام اپنے رب کے حضور ایک مسلسل مناجات ہے اور اس دعا کے بیسیوں رنگ ہیں اور بے شمار پہلو۔ کہیں اپنے محبوب آقا سے باتیں ہیں۔ کہیں جانے والوں کا ذکر ہے۔ کہیں آنے والوں سے محبت اور وفا کے تذکرے ہیں۔ قاری ایک محویت کے عالم میں غیر شعوری طور پر ساتھ ساتھ چلنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ہرچند کہ الفاظ کا ذخیرہ تو وہی ہے جسے شاعر اور غیر شاعر روزانہ استعمال کرتے ہیں۔ لیکن جب وہی الفاظ آپ کے قلم سے ادا ہوتے ہیں۔ تو زندہ ہو جاتے ہیں۔ ان کا ہجر عام ہجر نہیں رہتا نہ ہی ان کا غم معروف قسم کا غم۔ اگرچہ ان کے کلام کا قالب ارفع، شعری روایت سے الگ اور مختلف نہیں۔ لیکن اس کلام کی روح سچی اور جذبات پاکیزہ ہیں۔ سارے کلام میں غم کے ساتھ ساتھ کہیں بھی مایوسی یا فرسٹریشن کی ہلکی سی جھلک بھی نہیں۔ ایک یقین ہے۔ ایمان ہے۔ وفا ہے۔ امید ہے۔ ایفائے عہد ہے اور اس فرقت اور شدتِ غم میں بھی ایک کیف و سرور ہے۔ نشاط ہے۔ نشہ ہے محبوب سے گفتگو ہے۔ اور اس گفتگو میں جو لاڈ اور پیار ہے وہ اگر ممکن ہے تو اس روحانی اور آسمانی فضا ہی میں ممکن ہے۔

مرزا غالبؔ کہتے ہیں شعر خود خواہش آں کرد کہ گردد فنِ ما۔ بے شک لکھاری نہیں لکھتا۔ لکھت لکھتی ہے۔ اَور بے ساختہ پن ہی شعر کی جان ہوا کرتا ہے۔ یہ خصوصیت بھی آپ کے کلام کا جزواعظم ہے۔ یہ دین ہے جسے داتا دے دے۔ اگرچہ فن کا یہ لفظ جسے سادہ پُرکاری بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں محل نظر ہے۔ شعر یعنی سچے شعر کے خالق کو فنکار کہنا مجھے تو مناسب نہیں معلوم ہوتا۔ سادہ پرکاری بھی ریزہ کاری اور تکلّف اور تصنع کا مفہوم اپنے اندر رکھتی ہے۔ غم سچا ہو اور نیت نیک اور قبلہ درست ہو تو واقعی غیب سے مضامین آتے ہیں۔ اور صریر خامہ نوائے سروش بن جاتی ہے۔ یہ نوائے سروش آپ کو اس مجموعے میں قدم قدم پر سنائی دے گی۔ بشرطیکہ سننے والے کان ہوں اور محسوس کرنے والا دل۔

اگرچہ آپ کا سارا کلام ہی شعری اور جذباتی حسّیت کے لحاظ سے ایک اکائی کا حکم رکھتا ہے اور کہیں بھی اس منفرد، پاکیزہ اور ارفع سطح سےنیچے نہیں گرنے پاتا۔ لیکن جگہ جگہ ایسے مقام بھی آتے ہیں جو ماؤنٹ ایورسٹ کی طرح سے دور سے الگ نظر آتے ہیں۔ خصوصاً آپ نے ریختے میں جو غزلیں کہی ہیں۔ اپنا جواب آپ ہیں۔ اگر مثالیں دینی شروع کروں تو ڈرتا ہوں کہیںیہ تعارف بہت طویل نہ ہو جائے۔ نیز باقی ماندہ اشعار سے ناانصافی کا مرتکب نہ ٹھہروں اس لئے چند ایک اشعار کو نمونے کے طور پر درج کرتا ہوں۔ آگے سارا سمندر پڑا ہے غوطہ زن ہوں اور موتیوں سے اپنے اپنے دامن بھرلیں۔ فرماتی ہیں:

نہ کُوک کوئلیا کُو کُو کُو تُو آگ لگا اس ساون کو من میرا بیکل بیکل ہے ، نیناں ڈھونڈیں من بھاون کو جب تک بھادوں کی جھڑی رہی مَیں بیچ جھروکے کھڑی رہی برکھا بھی جھر جھربرسے ہے مجھ بِرہن کے کلپاون کو جا دَوڑ لپٹ جا سینے سے من موہن سامنے بیٹھا ہے پگلی ہے ساری عمر پڑی گھبراون کو، شرماون کو ان اُونچے پِیڑھے والوں کا اُس وقت تماشا کیا ہو گا تقدیر کا ڈمرو باجے گا جب تِگنی ناچ نچاون کو سَر بھاری ، پِنڈا دُکھتا ہے ، من پھوڑا ، نظریں گھائل ہیں وہ کومل ہاتھ ہی چاہیئے ہیں اِن زخموں کے سہلاون کو ٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

حضرت امیر خسروؒ کی زمین میں ایک لمبی کیف آگیں غزل ہے۔ چند شعر سنئے:

خسرو میاں کا قول یہ جی کو مرے خوش آ گیا ''تجھ دوستی بسیار ہے اک شب ملو تو آئے کر'' اوروں کا ہر عیب و ہنر ہر دم رہا پیش نظر شیشہ جو دیکھا غور کر نظریں جھکیں شرمائے کر اس سے ملاقاتاں ہوئیں نہ دید نہ باتاں ہوئیں پر کچھ تو ڈھارس ہو گئی اس کی گلی میں جائے کر کیا ہے رقیباں جو مری راہوں میں کانٹے بو دیئے میری جزا تو مل گئی اُس یار کا کہلائے کر چھوٹا سا یہ فتنہ مجھے پل کو بھی دم لینے نہ دے پہلو سے نکلا جائے ہے زِچ آ رہی بہلائے کر

پھر اور بہت سی غزلیں ہیں۔ جو ایسی تازہ کربلاؤں کے پس منظر میں کہی گئی ہیں۔ جہاں جسم مجبور ہیں۔ لیکن دل بدستور آزاد ہیں۔ مشتے نمونہ از خروارے۔

اے تخت نشینو! ہم تو اُنہی آنکھوں کا اشارہ دیکھتے ہیں خوش فہم نہ ہو کہ چلتے ہیں فرمان تمہارے ربوہ میں ٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭ وقت نے کیسے چٹانوں میں دراڑیں ڈال دیں رو دیا وہ بھی کہ جو پہلے کبھی رویا نہ تھا پیار کے اک بول نے آنکھوں میں ساون بھر دیئے اس طرح تو ٹوٹ کے بادل کبھی برسا نہ تھا جانے کیوں دل سے مرے اس کی کسک جاتی نہیں بات گو چھوٹی سی تھی اور وار بھی گہرا نہ تھا موسمِ گُل میں تھا جس ٹہنی پہ پھولوں کا حصار جب خزاں آئی تو اس پہ ایک بھی پتّا نہ تھا ٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭ روح کے روابط میں اس طرح بھی ہوتا ہے فرقتیں تو ہوتی ہیں فاصلہ نہیں ہوتا ٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭ وہ تو دَورِ ہجر ہی صدیوں کی کلفت دے گیا شورشِ اعداء سے تو ہم لوگ رنجیدہ نہ تھے کیا ضروری تھا کہ حرفِ مدّعا ہوتا ادا میری جاں تم سے مِرے حالات پوشیدہ نہ تھے پھر اپنے رب کے حضور دست بدعا ہیں: اَب جلد آکہ سنگِ عداوت کی زد میں ہے میری اذان، میری عبادت، مری نماز ٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭ میری آنکھوںمیں بند ہے برسات میرے دل میں الاؤ جلتے ہیں

اور پھر بزعم خود خدا بننے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتی ہیں:

کوئی نمرود ہو ، شداّد کہ فرعون کوئی اب بصد جاہ و حشم کوئی کہاں ہے سوچو اب تو قصّوں میں ہی بس انکا نشاںہے سوچو تم کہ اس دَور کے فرعون بنے بیٹھے ہو سوچ لو خوب کہ موسیٰ بھی اسی دور میں ہے آج کے دن تو فقط اتنا ہی کہنا ہے مجھے بات لمبی ہو رہی ہے۔ دامنِ دل می کشد کہ جا اینجاست

نظموں تک پہنچتے پہنچتے دیر ہو گئی۔ ایک نظم جو اول تا آخر ایک اکائی ہے۔ اگرچہ لباس غزل کا ہے۔ لیکن اس کا انتخاب ممکن نہیں۔ سترہ شعر ہیں کاش ہمارے بڑے اور ہمارے چھوٹے اسے ازبر کر سکیں۔اس نظم کا عنوان ہے۔

'خدا کرے' خدا کرے کہ صحبتِ امام بھی ہمیں ملے یہ نعمتِ خلافتِ مدام بھی ہمیں ملے خدا کرے کہ عشقِ مصطفےٰؐ ہمارے دل میں ہو رضائے حق کی مسندِ کرام بھی ہمیں ملے

حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے چالیس دن کے چِلّے کے ثمر پر مثنوی ہے۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ اور بزرگ خواتین کی وفات پر منظوم دعائیں ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ سے فرقت کے لمحات کا ذکر ہے۔

آقا ترے بغیر یہ گلشن اداس ہے سب کا سب ایک ہی رنگ اور تاثیر میں ڈوبا ہوا کلام ہے۔ ایک ترکیب بند مسدس ہے۔ جس کے نو بند ہیں۔ چند بند سنئے: انسانی لغزشوں سے میں ماورا نہیں ہوں ماحول سے علیحدہ ربُ الوریٰ نہیں ہوں لیکن میں تجھ سے غافل میرے خدا نہیں ہوں میں بے عمل ہوں بےشک پر بے وفا نہیں ہوں نظریں بھٹک رہی ہیںپر دل میں تُو مکیں ہے '' جو صبر کی تھی طاقت وہ مجھ میں ا ب نہیں ہے'' ٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭ میں مانتی ہوں میرا خالی ہے آبگینہ نہ آہِ صبح گاہی نہ زاریئ شبینہ تسلیم کا سلیقہ نہ پیار کا قرینہ پر میری جان میرا شق ہو رہا ہے سینہ اب اس میں تابِ فکر و رنج و محن نہیں ہے ''جو صبر کی تھی طاقت وہ مجھ میں اب نہیں ہے '' ٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭ ذوقِ دعا کو میرے رنگِ ثبات دے دے جامِ لِقا پلا دے، آبِ حیات دے دے یہ تو نہیں میں کہتی کُل کائنات دے دے فرقت کی تلخیوں سے بس تُو نجات دے دے نظریں فلک کی جانب ہیں خاک پر جبیں ہے ''جو صبر کی تھی طاقت وہ مجھ میں اب نہیں ہے '' پھر سات بند کی ایک دعا ہے جو 'زمانے کے مالک' سے کی گئی ہے۔ الٰہی دعاؤں کی توفیق دے دے، کہ سجدوں میں یہ گِڑگڑانے کے دن ہیں ہمارے قدم ڈگمگانے نہ پائیں، یہ ایمان کے آزمانے کے دن ہیں خُدا وندا بندے خُدا بن گئے ہیں، یہی تیری قدرت دکھانے کے دن ہیں بہت ہو چکی اے زمانے کے مالک، بس اب اپنے لطف و کرم کی نظر کر جو تُو نے اُتارا تھا اس دین سے اب، جُدا اک نرالا نصاب آگیا ہے عمل جو بھی احکام پہ کر رہا ہے، وہی شخص زیرِ عتاب آگیا ہے ترے نام پر ہو رہی ہیں وہ باتیں، کہ انسانیت کو حجاب آگیا ہے بہت ہو چکی اے زمانے کے مالک، بس اب اپنے لطف و کرم کی نظر کر

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی علالت کے سلسلے میں دعائیہ نظم ہے۔ دیگر بزرگوں کی وفات پر دعائیہ نظمیں ہیں۔ اپنے والد گرامی قدر حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمدؒ پر دو نظمیں ہیں۔ ایک آزاد نظم ہے۔ 'یہ میرا باپ ہے' اور دوسری وفات کے بعد 'مرے ا بّا'۔

عزم اور حوصلے میں تو یہ فردہے آ ہنی مرد ہے یہ مرا باپ ہے کوئی کرتا ہے کیا؟ یہ نہیں جستجو کوئی کہتا ہے کیا؟ دل پہ لیتا نہیں محوِ ماضی نہیں حال میں مست ہے بود کا غم نہیں قائلِ است ہے فکرِ فردا نہ فکرِ کم و بیش ہے مردِ درویش ہے یہ مرا باپ ہے پھر ایک نظم 'لمحہ' ہے وہ ایک لمحہ نہ عمر بھر میں کبھی فراموش کر سکوں گی وہ ایک لمحہ تو زندگی پر محیط سا ہو کے رہ گیا ہے۔ یہ نظم آزاد ہے اور اپنی جگہ خوب ہے۔

پھر ایک طویل نظم ہے۔ جس کا عنوان ہے 'گھر'۔ یہ بھی پڑھنے کی چیز ہے پڑھیئے اور اپنے گھر میں اسے آویزاں کیجئے۔ آخر میں میری دعا ہے کہ دعائیں قبول کرنے والا مالک اور قادر خدا آپ کی ساری دعائیں قبول کرے اور جزائے خیر سے نوازے ایک بار پھر اعتراف کرتا ہوں کہ ہم بے زبانوں اور گونگوں کے دکھوں کو انہوں نے زبان دی اور لہجہ عطا کیا۔ اللہ تعالیٰ کے حضور دعا ہے کہ وہ آپ کو صحت و عافیت کے ساتھ لمبی فعّال اور مقبول زندگی عطا فرماوے۔ اور وہ ہمارے دلوں کی ترجمانی کرتی رہیں۔ آمین۔

والسلام خاکسار محمد علی چوہدری مضطر عارفی ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ13۔18 انتساب میں نام کس کے کروں مُعَنْوَنْ میں اس کا کیا انتساب لکھوں! یہ سوچتی ہوں رقم کروں کیا اگر میں کوئی کتاب لکھوں! ہیں کتنے پیارے، ہیں کتنے رشتے کہ جن کی بے پایاں چاہتیں ہیں ہے غمگساروں کی غمگساری تو دوستوں کی رفاقتیں ہیں ہیں کتنے ہی مجھ سے چھوٹے ایسے کہ جن کے دل میں عقیدتیں ہیں ہیں بے ریا جن کے صاف سینے، محبتیں ہی محبتیں ہیں وہ جن کی آنکھوں سے قطرہ قطرہ مئے محبت ٹپک رہی ہے وہ جن کے چہروں سے روشنی سی خلوصِ دل کی جھلک رہی ہے وہ جن کے شفاف، پاک جذبے مرے بھی جذے جگا رہے ہیں مجھے بھی جینا سکھا رہے ہیں یہ پھول چہرے گلاب چہرے کہ جن میں کتنی تراوتیں ہیں یہ پاک سینے کہ جن میں کیسی خلوصِ دل کی حلاوتیں ہیں کدورتیں نہ کثافتیں ہیں صداقتیں ہی صداقتیں ہیں ہیں کتنے میرے بڑے کہ سینوں میں جن کے بے پایاں شفقتیں ہیں وہ مجھ پہ جن کی عنایتیں بے پناہ پیہم نوازشیں ہیں دعاؤں کے جو حصار اُنکی مرا احاطہ کئے ہوئے ہیں تو خیر خواہی کی اُن کے جذبے مجھے تحفظ دیئے ہوئے ہیں یہی تو ہیں کہ دعائیں جن کی ہر امتحاں سے نکالتی ہیں ہر ایک دکھ سے بچا رہی ہیں ہر اک قدم پہ سنبھالتی ہیں مَیں نام کس کے کروں مُعَنْوَنْ مَیں اس کا کیا انتساب لکھوں! اگر مَیں کوئی کتاب لکھوں! یہ میرے چاروں طرف عجب سی بساطِ ہستی بچھی ہوئی ہے کہیں ہے شادی ------ کہیں ہے ماتم کہیں خوشی ہے ------ کہیں پہ ہے غم کہیں ہے شاہ اور کہیں پیادہ کسی کے ہے سامنے ہی منزل کسی کی آنکھوں سے گُم ہے جادہ کسی نے جیتی ہے ساری بازی کسی کو یاں مات ہو رہی ہے کسی کے گھر نور کے اُجالے کسی کے ہاں رات ہو رہی ہے کسی کے سینے میں ناگ نفرت کا سر اٹھائے کھڑا ہوا ہے اُسی کی شہ رگ کو ڈس رہا ہے ہے زہر ایسا جلن سے جس کی خود اُس کا سینہ تپک رہا ہے الاؤ بن کے دہک رہا ہے مَیں برملا کہہ دوں ساری باتیں کہ سب ورائے حجاب لکھوں! اگر مَیں کوئی کتاب لکھوں! ہے ایک دنیا مری بھی سوچوں کی ایک جنت نظیر دنیا محبتوں کا جہان آباد اس میں دیکھو ------ یہاں پہ لوگو نہ نفرتیں نہ عداوتیں ہیں ------ نہ بغض ہے نہ کدورتیں ہیں نہ بدگمانی نہ بے یقینی ------ نہ عیب جوئی نہ نکتہ چینی نہ اجنبیت نہ ناشناسی ------ نہ بے وفائی نہ ناسپاسی نہ بے نوائی نہ نارسائی ------ نہ خود پرستی نہ خود نمائی نہ چیرہ دستوں کی چیرہ دستی ------ نہ خون ارزاں نہ جان سستی حسد نہ رنجش نہ بغض و کینہ ------ ہے آئینہ سا ہر ایک سینہ نہ کورچشمی نہ کم نگاہی ------ نہ راہ گم نہ بھٹکتے راہی نہ بدگمانی کی شدتیں ہیں نہ تلخیوں کی حکایتیں ہیں حقیقتوں کو بیاں کروں میں کہ اپنی آنکھوں کے خواب لکھوں محبتوں کے نصاب لکھوں اگر مَیں کوئی کتاب لکھوں! وہ میرا مالک وہ میرا مولیٰ کہ جس کے فضل و کرم کا سر پہ مرے ہمیشہ رہا ہے سایہ میں جب کبھی پھنس گئی ہوں دلدل میں اُس نے اس سے مجھے نکالا کبھی جو کھائی ہے میں نے ٹھوکر تو اُس نے بڑھ کے مجھے سنبھالا وہ عیب پوش و غفور و ستار میرا مالک مری خطاؤں کی پردہ پوشی اگر نہ کرتا تو اہل دنیا تو مجھ سے ایسا سلوک کرتے کہ ِاس جہاں میں مرا ٹھکانہ کہیں نہ ہوتا کرم اُسی کا ہے سر اٹھا کے جو جی رہی ہوں میں سوچتی ہوں اذیتوں کے مقابلہ میں سکینتوں کے حساب لکھوں ورق ورق، باب باب لکھوں اگر میں کوئی کتاب لکھوں مَیں نام کس کے کروں مُعَنْوَنْ! مَیں اس کا کیا انتساب لکھوں! کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ19۔21 1۔ ہر شے میں وہی ہے جلوہ نما 1981ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ''میں تمہیں ایک مصرع طرح دیتا ہوں اس پر نظم کہو'' اور وہ مصرع یہ تھا۔ ہے صبر و رضا کا مطلب کیا بس لا الہ الا اللّٰہ ہے صبرو رضا کا مطلب کیا بس لا الہ الا اللّٰہ کرتے ہیں اُسی کی حمدو ثنا یہ شمس و قمر یہ ارض و سما گلشن، وادی، صحراء دریا ہر ایک اُسی کا مدح سرا جو کچھ بھی مِلا اُس سے ہی مِلا حق اس کا بھلا ہو کیسے ادا ہر چیز سے بڑھ کر اس کی رضا ہے صبر و رضا کا مطلب کیا بس لا الہ الا اللّٰہ وہ حُسنِ مجسم نورِ ازل وہ زندہ حقیقت ٹھوس اٹل ہر شے کی حقیقت پَل دو پَل آیا جو یہاں وہ چَل سو چَل باقی ہے اگر تو نامِ خدا بس لا الہ الا اللّٰہ کانوں کی سماعت لَب کی نوا ہاتھوں کی سکت قدموں کی بناء آنکھوں کی صفاء ذہنوں کی جلا ادراک کی قوت فہم و ذکاء یہ حُسنِ طلب یہ ذوقِ دعا یہ عرضِ تمنا، طرزِ ادا ہر شے ہے اُسی کی جود و عطا وہ رحمتِ کُل مَیں صرف خطا ہر دَرد کا درماں رُوحِ شفاء کیا؟ لا الہ الا اللّٰہ پھولوں کی مہک بُلبل کی نوا سُورج کی کرن تاروں کی ضیاء قریہ قریہ، کوچہ کوچہ جنگل جنگل، صحرا صحرا وادی وادی، دریا دریا ہر شے میں وہی ہے جلوہ نما بس لا الہ الا اللّٰہ ملجاء بھی وہی ماویٰ بھی وہی آقا بھی وہی مولیٰ بھی وہی رحمن وہی اَرحم بھی وہی نعمت بھی وہی منعم بھی وہی عادِل بھی وہی حاکم بھی وہی رازِق بھی وہی قاسم بھی وہی وارِث بھی وہی رافع بھی وہی باسِط بھی وہی واسع بھی وہی اوّل بھی وہی آخر بھی وہی باطن بھی وہی ظاہر بھی وہی نیچے بھی وہی اُوپر بھی وہی اندر بھی وہی باہر بھی وہی منزل بھی وہی رہبر بھی وہی مرکز بھی وہی محور بھی وہی غالب بھی وہی قادِر بھی وہی اعلیٰ بھی وہی اکبر بھی وہی قدوس وہی بے عیب وہی معبود وہی لاریب وہی کثرت بھی وہی واحد بھی وہی نگران وہی شاہد بھی وہی ربِّ ارض و افلاک وہی معبودِ شہہِ لولاکؐ وہی قیوم وہی ہوشیار وہی غم آئے تو ہے غمخوار وہی غفار وہی ستار وہی ہم جیسوں کا پردہ دار وہی پھر اور کہوں کیا اس کے سوا بس لا الہ الا اللّٰہ

یہ نظم جلسہ سالانہ ١٩٨١ء پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کے خطاب سے قبل محترم صاحبزادہ مرزا لقمان احمد صاحب نے پڑھ کر سنائی۔

کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ22۔28 2۔ نعت وہ جو احمدؐ بھی ہے اور محمدؐ بھی ہے وہ مؤیَّد بھی ہے اور مؤیِّد بھی ہے وہ جو واحد نہیں ہے پہ واحد بھی ہے اک اُسی کو تو حاصل ہوا یہ مقام اُس پہ لاکھوں درود اس پہ لاکھوں سلام سوچا جب وجہِ تخلیق دنیا ہے کیا؟ عرش سے تب ہی آنے لگی یہ نِدا مصطفی، مصطفی، مصطفی، مصطفی وہ ہے خیرالبشر وہ ہے خیرالانام اس پہ لاکھوں درود اس پہ لاکھوں سلام قطبِ روحانیت، ذاتِ قبلہ نما ہادی و پیشوا، رہبر و رہنما مرشد و مقتدا، مجبتیٰ مصطفی حق کا پیارا نبی اور چنیدہ امام اس پہ لاکھوں درود اس پہ لاکھوں سلام اس کی سیرت حسیں ، اس کی صورت حسیں کوئی اس سا نہ تھا ، کوئی اس سا نہیں اس کا ہر قول ہر فعل ہے دلنشیں خوش وضع ، خوش ادا ، خوش نوا ، خوش کلام اس پہ لاکھوں درود اس پہ لاکھوں سلام وہ صدوق و امین و رؤف و رحیم وہ نذیر و بشیر و رسولِ کریم ذات اس کی ہے تفسیر خُلقٍ عظیم اس کے اخلاق کامل ہیں خلقت ہے تام اس پہ لاکھوں درود اس پہ لاکھوں سلام رحمتِ تام بہرِ صغیر و کبیر وہ مہِ ضوفشاں اور مہرِ منیر بحرِ ظلمات میں روشنی کا سفیر اس کے دم سے ہوا روشنی کا قیام اس پہ لاکھوں درود اس پہ لاکھوں سلام وہ محبت کا نادی محبت اتم وہ مروت کا پیکر وہ رحمت اتم عفو اور درگذر اور اخوت اتم ہر خوشی کا وہ منبع مسرت تمام اس پہ لاکھوں درود اس پہ لاکھوں سلام مرد کے بس میں تھی عورتوں کی حیات اس نے ہر ظلم سے ان کو دی ہے نجات اس نے عورت کی تکریم کی کر کے بات کہہ دیا میں ہوں رحم و کرم کا امام اس پہ لاکھوں درود اس پہ لاکھوں سلام زندہ رہنے کا عورت کو حق دے دیا اس کے اُلجھے مقدر کو سلجھا دیا خُلد کو اس کے قدموں تلے کر دیا اس نے عورت کو بخشا نمایاں مقام اس پہ لاکھوں درود اس پہ لاکھوں سلام درس ضبط و تحمّل کا یوں بھی دیا وہ کہ جو آپ کی جان لینے چلا ایسے دشمن سے بھی درگذر کر دیا ہاتھ میں گرچہ تلوار تھی بے نیام اس پہ لاکھوں درود اس پہ لاکھوں سلام اہلِ ثروت کو ثروت کا حق دے دیا عَبد کو بھی قیادت کا حق دے دیا ہر کسی کو شریعت کا حق دے دیا وہ سکونِ خواص و قرارِ عوام اس پہ لاکھوں درود اس پہ لاکھوں سلام ہے صفاتِ الٰہی کا مظہر وہی آئندہ سے گذشتہ سے برتر وہی نوعِ انسان کا ہے مقدّر وہی ختم اس پر نبوت شریعت تمام اس پہ لاکھوں درود اس پہ لاکھوں سلام وہ محمدؐ ہے احمدؐ ہے محمود ہے وہ شہادت ہے شاہد ہے مشہود ہے وہ جو مقصد ہے قاصد ہے مقصود ہے اس کی خاطر ہوا اس جہاں کا قیام اس پہ لاکھوں درود اس پہ لاکھوں سلام ہر حسیں خُلق اُس میں ہی موجود ہے وہ جو روزِ ازل سے ہی موعود ہے ماسوا اس کے ہر راہ مسدود ہے میری ہر سانس کا اس کو پہنچے سلام اس پہ لاکھوں درود اس پہ لاکھوں سلام کون کہتا ہے زندہ ہے عیسیٰ نبی جس کی تعلیم زندہ ہو ، زندہ وہی جس کا ہر قول تازہ ہے سنّت ہری اس کو حاصل ہوئی ہے بقائے دوام اس پہ لاکھوں درود اس پہ لاکھوں سلام میرے آقا کی زندہ شریعت بھی ہے اس کا اُسوہ بھی ہے اس کی سیرت بھی ہے اس کے اقوال بھی اس کی سنّت بھی ہے اس کے سجدہ و قعدہ ، رکوع و قیام اس پہ لاکھوں درود اس پہ لاکھوں سلام اس کی عاشق ہے خود ربِّ اکبر کی ذات اُس کی زیرنگیں ہے یہ کُل کائنات اُس نے ثابت کیا وصل کی ایک رات اُس کے پاؤں کی ہے دھول یہ نیلی فام اس پہ لاکھوں درود اس پہ لاکھوں سلام تھے کبھی جبرئیلِ امیں رازداں اور کبھی یونہی آپس میں سرگوشیاں جلوتیں اس کی ہر طور خلوت نشاں اس کی صبحیں حسیں اس کی تابندہ شام اس پہ لاکھوں درود اس پہ لاکھوں سلام اس کے قدموں تلے یہ خدائی ہوئی عرش تک اِک اُسی کی رسائی ہوئی کُل فضا نور میں تھی نہائی ہوئی تھے خدا اور حبیبِ خدا ہم کلام اس پہ لاکھوں درود اس پہ لاکھوں سلام حشر تک چشمہ جاری ہے فیضان کا وا ہے در آج بھی جذب و ایقان کا کیا نبی اور ہے کوئی اس شان کا؟ ہو مسیح زماں جس نبی کا غلام اس پہ لاکھوں درود اس پہ لاکھوں سلام وہ معارف کا اک قلزمِ بیکراں فخر انسانیت رشکِ قدّوسیاں اس کی توصیف ہو کس طرح سے بیاں ہے زباں شرمسار اور نادم کلام اس پہ لاکھوں درود اس پہ لاکھوں سلام کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ29۔33 3۔ قصیدہ ۔ در شانِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اے مسیحائے زمن عصرِ رواں کے چارہ گر مہدیء آخر زماں روحانیت کے راہبر اے جری اللہ ، بروز انبیاء ، عالی گُہر ہوں ہزاروں رحمتیں تیری مقدس ذات پر تجھ کو پایا تو خدا کی معرفت حاصل ہوئی تجھ کو دیکھا تو عجب شانِ خدا آئی نظر تو نے سمجھایا کہ کیا ہے رُوحِ دینِ مصطفےٰؐ تو نے بتلایا کہ کیا ہے عظمتِ خیرالبشرؐ تو نے فرمایا کہ ''ہر نیکی کی جڑ ہے اتقاء'' ''رنگِ تقویٰ سے کوئی رنگت نہیں ہے خوب تر'' ''وہ خزائن جو ہزاروں سال سے مدفون تھے'' تو نے پھر ظاہر کئے دنیا پہ سب لعل و گہر دیکھ سکتا ہی نہ تھا تو ضعفِ دین مصطفیؐ فکر میں اس کی رہے کٹتے ترے شام و سحر تیرے مولا کا بھی تھا تجھ سے محبت کا سلوک رحمتیں ہی رحمتیں تھیں تیرے ہر اک گام پر آسماں تیرے لئے اس نے بنایا اک گواہ تیری ہی خاطر تھے گہنائے گئے شمس و قمر زلزلوں نے بھی صداقت کی تری تصدیق کی ایک عالم ہو گیا تیرے لئے زیر و زبر آئی یہ ''صوت السّماء جاء المسیح جاء المسیح'' اور زمیں بھی دے رہی ہے تیرے آنے کی خبر اس تواتر سے ہوا انوار کا تجھ پہ نزول جگمگا اُٹھے ہیں جن سے جان و دل کے بام و در تیرے مولیٰ نے ترے دل کو عجب بخشا سرور دے کے تیرے گھر میں آنے والی خوشیوں کی خبر دی تجھے ربّ الورٰی نے وہ نویدِ جانفزا سینکڑوں برسوں سے یہ دنیا تھی جس کی منتظر تجھ کو قدرت نے دیا خود ''اپنی رحمت کا نشاں'' صاحب عزو وقار و شوکت و فتح و ظفر حسن و احساں میں وہ تیرا عکس تیری ہی نظیر ذریّت تیری ، دعا تیری ، ترا لختِ جگر اور پھر وہ بھی جسے نورِ بصیرت تھا ملا تیرے آنگن میں ہی چمکا ہے وہ ''نبیوں کا قمر'' ''بادشاہ آیا'' کے جو الہام کی تفسیر تھا اک فقیرانہ صفت آیا بہ اندازِ دگر تین کو پھر چار کرنے کی بشارت بھی ملی کھینچ لایا تیرے سلطاں کو ترا سوزِ جگر اک طرف بنتِ مبارک ، اک طرف دختِ کرام تیرے گلشن میں لگے ہیں کس قدر شیریں ثمر مُردہ روحوں میں نئی اک روح تو نے ڈال دی یہ ترا احسان کیا کم ہے ہماری ذات پر پھر زمیں کی آسمانوں پر پذیرائی ہوئی پستیوں کو رفعتیں حاصل ہوئیں بارِ دگر جو بڑھا تیرے مٹانے کو وہ مٹ کر رہ گیا فیصلہ اُس کی ہلاکت کا ہوا افلاک پر اُس طرف اِیذاء رسانی کی مسلسل کوششیں اور عجب صبرو تحّمل کے تھے نظّارے اِدھر نیک روحیں آ رہی ہیں اِس طرف پروانہ وار لاکھ چلاّتے رہیں اعدائے بدگو بدنظر کر رہے ہیں آج وہ نیکی بدی کے فیصلے خود جنہیں مطلق نہیں ہے امتیاز خیرو شر گر نہیں پہچانتے تجھ کو تو کیا تیرا قصور کام کرتی ہے بھلا کب کور چشموں کی نظر اہلِ بینش پر کھلے ہیں حسن کے جلوے ترے ہے مگر محروم تیری دید سے ہر بے بصر بدزبانی ، گالیاں ، ایذا رسانی ، اِفترا ایسی باتیں اور محمدؐ مصطفی کے نام پر؟ کوئی سمجھاتا عدو کو اُس کی طاقت کو بھی دیکھ اپنی طاقت کا ہی اے غافل تو اندازہ نہ کر ہے دعا ہم کو بھی توفیق عبادت مل سکے ہاتھ اُٹھے ہوں دعا کو سجدہ گاہوں میں ہوں سَر کاش وارث میں بھی ٹھہروں اُن دعاؤں کی ہمیش آپ نے اولاد کے حق میں جو کی ہیں عمر بھر میرے مولیٰ خادمانِ رجلِ فارس ، ہم بھی ہیں نور سے تیرے صدا روشن رہیں اپنے بھی گھر قدرتِ ثانی کے نظّارے سدا کرتے رہیں کجروی پیدا نہ ہو چھوٹے نہ سیدھی رہگزر نعمتیں دنیا و دیں کی فیض سے ان کے ملیں ہوں ہزاروں رحمتیں یارب شہہِ لَولاک پر حیف جز اشکِ ندامت کچھ نہیں ہے میرے پاس ''میرے آقا پیش ہیں یہ حاصلِ شام و سحر'' کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ34۔36 4۔ ترانہ اک جری اللہ نے لہرایا عَلم اسلام کا بج رہا ہے ہر طرف ڈنکا اب اس کے نام کا مَردِ فارس اور احیائے شریعت زندہ باد احمدیت، احمدیت، احمدیت زندہ باد زندہ باد و زندہ باد و زندہ و پائیندہ باد خادم دینِ متین و عاشقِ خیرالانامؐ وہ مسیح و مہدئ دوراں محمدؐ کا غلام چاند اور سورج نے دی جس کی شہادت زندہ باد احمدیت، احمدیت، احمدیت زندہ باد زندہ باد و زندہ باد و زندہ و پائیندہ باد کہہ رہی ہیں چار سو پھیلی شعائیں نورکی لو شبیہہِ پاک دیکھو وقت کے مامور کی مَاہِ خوباں، پاک سیرت، مَاہ طلعت زندہ باد احمدیت، احمدیت، احمدیت زندہ باد زندہ باد و زندہ باد و زندہ و پائیندہ باد دیکھ اب بھی وقت ہے کر یو نہ پھر چیخ و پکار ''ہاتھ شیروں پر نہ ڈال اے رُوبۂ زار و نزار'' مژدہ فتح و ظفر، تائید و نصرت زندہ باد احمدیت، احمدیت، احمدیت زندہ باد زندہ باد و زندہ باد و زندہ و پائیندہ باد طائرانِ خوشنوا ہر سمت سے آنے لگے گلشنِ احمد میں ہر سو پھول مُسکانے لگے سایہ فضلِ خدا و اَبر رحمت زندہ باد احمدیت، احمدیت، احمدیت زندہ باد زندہ باد و زندہ باد و زندہ و پائیندہ باد ہاتھ تھامے ہم کسی کا سوئے منزل ہیں رواں ہے خدا خود ساتھ اُس کے جو ہے میرِ کارواں چشمئہ فیضان و برکاتِ خلافت زندہ باد احمدیت، احمدیت، احمدیت زندہ باد زندہ باد و زندہ باد و زندہ و پائیندہ باد کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ37۔39 5۔ دیکھو ذرا خدا را جس کے تھے منتظر وہ شہکار آ گیا ہے وہ گلعزار رشکِ گلزار آ گیا ہے دینِ محمدی کا غمخوار آ گیا ہے وہ میرِ کاروانِ ابرار آ گیا ہے نظریں اُٹھا کے اپنی دیکھو ذرا خدارا کہ چاند اور سورج کرتے ہیں کیا اشارا مہدی کو میرے جا کے میرا سلام کہنا میری محبتوں کا اس کو پیام کہنا قولِ نبیؐ ہے یہ تم باصدقِ تام کہنا لبّیک یا مسیح و مہدی مدام کہنا نظریں اُٹھا کے اپنی دیکھو ذرا خدارا کہ چاند اور سورج کرتے ہیں کیا اشارا کیا زلزلوں سے سوچو مچتی رہی تباہی طاعوں بھی سر اُٹھا کے دیتا رہا گواہی جکڑے ہوئے دلوں کو ہیں منکر و نواہی تیرہ ہوئی ہیں راہیں، بھٹکے ہوئے ہیں راہی نظریں اُٹھا کے اپنی دیکھو ذرا خدارا کہ چاند اور سورج کرتے ہیں کیا اشارا دھرتی سمٹ رہی ہے ، کہسار کٹ رہے ہیں سینے سمندروں کے ہرآن پھٹ رہے ہیں گنجینہ ہائے علم و عرفان بٹ رہے ہیں انساں کے سامنے سے پردے سے ہٹ رہے ہیں نظریں اُٹھا کے اپنی دیکھو ذرا خدارا کہ چاند اور سورج کرتے ہیں کیا اشارا زندہ خدا کے میرے زندہ نشان دیکھو ہر ہر قدم پہ اُس کے جلووں کی شان دیکھو یاں اِلتفات و فضل ربِّ جہان دیکھو اور پورا ہوتے قولِ وسّع مکان دیکھو نظریں اُٹھا کے اپنی دیکھو ذرا خدارا کہ چاند اور سورج کرتے ہیں کیا اشارا بادِصبا نے آ کے پیاری سی لَے سنا دی پھر روشنی کی لہروں نے شکل بھی دِکھا دی جو بھی خلش تھی دل میں جس کے وہ سب مٹا دی اور چار دانگِ عالم میں ہو گئی منادی نظریں اُٹھا کے اپنی دیکھو ذرا خدارا کہ چاند اور سورج کرتے ہیں کیا اشارا سوچو وہ رحمتوں کا حقدار کس لئے ہے؟ ہے مفتری تو اس سے یہ پیار کس لئے ہے؟ تکفیر پہ تمہیں پھر اصرار کس لئے ہے؟ تکذیب کس لئے ہے، انکار کس لئے ہے؟ نظریں اُٹھا کے اپنی دیکھو ذرا خدارا کہ چاند اور سورج کرتے ہیں کیا اشارا کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ40۔43 6۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر دیکھ کر میرے محبوب کیا کہوں تجھ سے تیری تصویر سامنے آئی میں نے گھبرا کے پھیر لیں نظریں یہ نہیں ہے کہ شوقِ دید نہیں تجھ سے الفت ہے تیری چاہ بھی ہے خواہش دید ِ بے پناہ بھی ہے کاش تو خواب میں ہی آ جائے کاش یوں تیری دید ہو جائے کاش دو بول ہی محبت کے لبِ جاناں سے میں بھی سُن پاؤں تیری تصویر دیکھ کر جو میں تجھ سے نظریں چرائے پھرتی ہوں تیری کچھ کہتی بولتی آنکھیں میرے محبوب مجھ سے کہتی ہیں کیا یہ تم ہو؟ تمہیں ہؤا کیا ہے؟ کیا یہ سب میں نے تم سے چاہا تھا؟ کیا زبانی تھا دعویٰ ء اُلفت؟ تیری آنکھیں سوال کرتی ہیں کوئی کوشش نہ وصل کی تدبیر عزمِ کوئے نگار بھی تو نہیں اور یہ تیرا معبدِ دل بھی ساحلِ جاں کا سومناتِ جدید نصب ہیں جس میں خواہشات کے بُت کب گرے گا؟ کبھی یہ سوچا ہے؟ میرے انداز میری تصویریں میرے اقوال ، میری تحریریں آسمانی صحیفہ حکمت چشمہ معرفت وہ نورِ ازل حسن صورت کے حُسنِ سیرت کے دلکشا، دلنشیں، حسیں انداز کیا کبھی ان کی سمت بھی دیکھا تم کہ اس مادیت کی دلد ل میں سَر بَسر غرق ہوتی جاتی ہو پر لبوں پر ہیں دعویٰ ہائے غلط پیار ہے، عشق ہے، عقیدت ہے کیا یہ آداب ہیں محبت کے؟ کیا یہ تسلیم کا قرینہ ہے؟ وائے افسوس ایسے جینے پر کیا یہ جینا بھی کوئی جینا ہے! تیری کچھ کہتی بولتی آنکھیں میرے محبوب مجھ سے پوچھتی ہیں تب میں نظریں چرائے پھرتی ہوں اپنی بے مائیگی کا ہے احساس اپنے اعمال پہ ندامت ہے تجھ کو پانے کی دل میںچاہ بھی ہے سوز سینے میں لب پہ آہ بھی ہے عرصہئ کائنات میں لیکن ہر قدم دعوتِ گناہ بھی ہے جس طرف دیکھئے ہیں پھیلے ہوئے کتنے سنگین دام ہائے فریب دل کو جو اپنی سمت کھینچتے ہیں میری کوتاہیوں کا دخل بھی ہے اور ماحول کا تقاضا بھی ہوں تو انساں بھٹک ہی جاتی ہوں تیرے مسجود کی قسم ہے مگر سَر اُسی دَر پہ ہی جُھکاتی ہوں میرے محبوب ہے سبب یہ ہی جو میں نظریں چرائے پھرتی ہوں پر مجھے دل پہ اختیار نہیں تیری تصویر تیرے چہرے کو میری جاںبار بار دیکھتی ہوں ہر گُلِ مشکبار سے بڑھ کر تیرے رُخ پر نکھار دیکھتی ہوں میرے بس میں دل و نگاہ نہیں ذوق وارفتگی گناہ نہیں کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ چل رہی ہے رِیل سی میری نظر کے سامنے ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ47۔48 7۔ یادِ رفتگاں چل رہی ہے رِیل سی میری نظر کے سامنے رفتگاں کی بھیڑ ہے یادوں کے گھر کے سامنے ذہن میں میرے چمکتے ہَیں وُہ چہرے آج بھی ماند نہ ہوتے تھے جو شمس و قمر کے سامنے پیکرِ ضبط و تحمُّل، صبر و ایثار و رضا ایستادہ گردشِ شام و سحر کے سامنے جوہری کی سی پرکھ، لعلِ بدخشاں کی سی آب مِثلِ کوہِ نور تھے لعل و گہر کے سامنے ایک اک کرکے گِرے ہیں کیسے چھتناور شجر کھیل کیا کھیلے گئے برگ و ثمر کے سامنے باعثِ تسکیں رہا اُن کی دعاؤں کا حصار کتنی فکریں گھومتی ہیں اب نظر کے سامنے اس تپش میں تو جھلس کر رہ گئی ہے میری ذات آگ بھڑکی تھی مرے اپنے ہی گھر کے سامنے آگ کا دریا تو ہے سینے میں اب بھی موجزن لاکھ بند باندھا کئے ہم چشمِ تر کے سامنے برہمی تقدیر کی یا شورشِ حالات ہو سانحے ہَیں ہر نفس خستہ جگر کے سامنے درد کا درماں تو ہے بس ایک ، اپنا سر جُھکا مالکِ کون و مکان و بحر و بر کے سامنے چاہے تو پل میں ہے کر سکتا علاجِ جسم و روح بات کیا مشکل ہے میرے چارہ گر کے سامنے ہستئ موہوم پہ کوئی بھروسہ کیا کرے ہست کا انجام ہے ہر دیدہ ور کے سامنے سلسلہ تو ہے وہی لیکن ہے پھر بھی بے خبر دُھند کی دیوار ہے روحِ بشر کے سامنے کوئی چاہے یا نہ چاہے یہ سفر ہے ناگزیر ہر کوئی مجبور ہے حکمِ سفر کے سامنے ایک سوزِ بے بسی بھی اس غمِ پنہاں میں ہے موت اک چبھتا ہوا کانٹا دلِ انساں میں ہے کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ49۔57

8۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی چالیس شبانہ روز دُعاؤں کا ثمر

شرابِ محبت پلا ساقیا وہی جام گردش میں لا ساقیا نگاہوں سے پردے اٹھا ساقیا سب احوال نظروں میں لا ساقیا نگاہوں میں لا آج وہ واقعات ہے وابستہ جن سے جہاں کی حیات اٹھارہ کے اوپر چھیاسی تھے سال کہ گویا ہؤا یوں شہہِ ذوالجلال مبارک ہوتجھ کو اے فخر رُسل کہ ملتا ہے تیری دعاؤں کا پھل بہت ہی جو کی تو نے تھیں زاریاں کہ تیری صداقت ہو سب پہ عیاں کہ تیری جماعت یہ پُھولے پَھلے زمانے میں حق کا ہی سکہّ چلے سو تیری دعاؤں کو میں نے سُنا تِرے اس سفر کو مُبارک کیا سُن اے ابنِ مریم سخن دلپذیر کہ بیٹا میں دُوں گا تجھے بے نظیر نشاں ہے وہ فضل اور احسان کا بہت مرتبہ ہے اُس انسان کا مبارک ہو فتح و ظفر کی کلید ہے تیرے لئے یہ خوشی کی نوید وہ آئے گا مُردوں میں دم پھونکنے نجات ان کو دلوائے گا موت سے جو قبروں میں ہیں باہر آئیں گے وہ وہ پھیلائے گا دینِ اسلام کو مبارک ہو لڑکا یہ پاک و وجیہہ جو ہو گا سراسر تری ہی شبیہہ مبارک ہو تجھ کو غلامِ ذکی جو ہوگا یقینا تری نسل ہی شکوہ اور عظمت کا حامل ہے وہ ہماری محبت کے قابل ہے وہ وہ ہوگا بہت ہی ذہین و فہیم وہ کلمۂ تمجید، دل کا حلیم علوم اس میں ہیں ظاہری باطنی وہ دنیا میں پھیلائے گا روشنی وہ فرزندِ دلبند ہے ارجمند خلائق میں ہوگا بہت دل پسند مبارک کہ وہ ''نور آتا ہے نور'' ہو جس سے جلالِ خدا کا ظہور وہ عِطرِ رضا سے جو ممسوح ہے وہ سارے زمانے کا ممدوح ہے وہ ہوگا اسیروں کا بھی رستگار وہ عجزِ مجسّم، وہ کوہِ وقار زمانے میں شہرت وہ پا جائے گا وہ آپ اپنی عظمت کو منوائے گا وہ ہے حسن و احساں میں تیرا نظیر کشادہ جبیں اور روشن ضمیر نواسی میں آخر بفضل خدا یہ موعود بچہ تولّد ہوا لگا جلد بڑھنے وہ ماہِ مُبیں جو سب پیشگوئیاں تھیں پوری ہوئیں ہوئی جب مسیحِ خدا کی وفات تو نظروں میں اندھیر تھی کائنات عدُو کو شماتت کا موقع ملا شریروں کا بھی غنچۂ دل کھلا وہ سمجھے جماعت یہ مٹ جائیگی نشاں بھی نہ اس کا نظر پائے گی جماعت پہ بھی تھا یہ وقتِ گراں ہر اک دل تھا زخمی نظر خونچکاں تھا ہر آدمی بس اسی فکر میں خدا جانے اب ہم رہیں نہ رہیں تھی ہر سمت چھائی ہوئی تیرگی نہ آتی نظر تھی کہیں روشنی یکایک کِرن اک ہویدا ہوئی چمک سی نگاہوں میں پیدا ہوئی جو ظلمت کے بادل تھے چھٹنے لگے نگاہوں سے پردے بھی ہٹنے لگے مبدّل ہوئیں ظلمتیں نور میں جِلا پھر ہوئی جلوۂ طور میں اُٹھا عزم سے ایک کمسِن جواں وہ ہمّت، شجاعت کا کوہ گِراں جماعت پہ موقع تھا یہ جاں گسل کہ گویا ہوا ابنِ فخر رُسل قسم ہے مجھے اے مقدس وجود نہ بیٹھوں گا میں بخدائے ودود نہ جب تک یہ دنیا تجھے جان لے نہ وہ تیری تعلیم پہچان لے تھا انیس سو اور چودہ کا سَن خلیفہ ہوا جب وہ فخر زمن خلافت کی جب اُس نے پہنی قبا تو سارا زمانہ مخالف ہوا جو تھے دوست وہ بھی عدو بن گئے سب اپنے پرائے مخالف ہوئے ''کمال و محمد علی مستری غرض اور اس طرح کے سازشی'' ١؎ ''بڑھے اس کی عظمت کو للکارنے بڑھے دوست بن کر اُسے مارنے''٢؎ اکیلا تھا وہ راہ پُر پیچ تھی تھی راہوں پہ چھائی ہوئی تیرگی کوئی بھی تو اس کا سہارا نہ تھا کہیں درد کا اس کے چارہ نہ تھا بجُز آستانِ شہہ ذُوالمنن کہ جا کے جہاں کم ہو دل کی جلن اسی آستانہ پہ وہ جھک گیا وہ راتوں کو اُٹھ اُٹھ کے رویا کِیا وہ سجدے میں گر گر کے روتا رہا وہ اشکوں کے موتی پروتا رہا میں مجبور ہوں تُو ہے بااختیار نہیں مجھ میں طاقت اُٹھاؤں یہ بار تو دل کو مرے ہمتیں بخش دے کہ باطل شکن جرأتیں بخش دے لگا رات دن کام کرنے وہ ماہ کہ تھی اس کے دل میں محمدؐ کی چاہ عدو کی بھی پرواہ نہ کی ذرا اولوالعزم جرنیل تھا جم گیا یہ لجنہ، یہ تحریک و وقفِ جدید یہ اسکول و کالج قدیم و جدید یہ خدام و اطفال، یہ ناصرات اسی کا ہے مرہون ان کا ثبات یہ ہیں اس کی ہی محنتوں کے ثمر جو پودا لگایا ہوا بارور تھا درد اس کے دل میں جو اسلام کا معیّن کیا راستہ کام کا ''جہاں مختلف دیں کی تصویر تھی وہیں اس نے مسجد بھی تعمیر کی'' جو مسلم کی حالت پہ کرتا نظر تو کرتا تھا خوں اپنے قلب و جگر اسیروں کا ناجی مسیحؑ کا پسر اٹھا بہرِ آزادیئ کاشمر محبت خدا سے، محمدؐ سے تھی رہِ دیں میں ہی زندگی کٹ گئی تھا ضُعف و نقاہت سے اٹھنا محال نہ آرام کا پھر بھی آیا خیال سدا خدمتِ دین کرتا رہا عمل کی وہ تلقین کرتا رہا تھا انیس سو اور پینسٹھ کا سال ہوا جبکہ اس شیر دل کا وصال گیا سب کو روتا ہوا چھوڑ کے وہ دنیائے فانی سے منہ موڑ کے نہ اب وہ یہاں لوٹ کر آئے گا نہ اپنا حسیں چہرہ دکھلائے گا دعا ہے رہے اپنا حامی خدا ہیں راضی کہ جس میں ہو اُس کی رضا کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ58۔62 9۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مصلح موعودؓ کی یاد میں صُبحیں افسردہ ہیں شامیں ویران ہیں گلیاں خاموش ہیں کوچے سنسان ہیں دیکھتے دیکھتے رونقیں کیا ہوئیں آج ربوہ کے سب لوگ حیران ہیں ہر شجر، ہر حجر آج ہے سرنگوں کتنی افسردگی کوہساروں پہ ہے آج ہر دل ہے شق، آنکھ ہے خونچکاں کس قدر بے کسی سوگواروں پہ ہے چاندنی ماند ہے، چاند بھی ماند ہے وہ چمک بھی ستاروں میں باقی نہیں پھول توڑا ہے گلچیں نے وہ باغ سے دلکشی اب بہاروں میں باقی نہیں چل دیا آج وہ فخر عصرِ رواں جس کی ہستی پہ اِس دَور کو ناز تھا وہ کہ اپنے پرائے کا غمخوار تھا وہ کہ اپنے پرائے کا دمساز تھا وہ کہ مُردہ دلوں میں جو دم پھونک کر زندگی کے ترانے سناتا رہا! جو سدا صبر کا درس دیتا رہا جو مصائب میں بھی مسکراتا رہا شفقتیں دُشمنوں پہ بھی کرتا رہا وہ محبت کا اک بحرِ زخّار تھا ڈانٹتا بھی رہا تربیت کے لئے اُس کے غصّے میں بھی لیک اک پیار تھا وہ مرقع تھا عِلم اور عِرفان کا! اِک فراست، ذہانت کا پیکر تھا وہ معرفت کے خزانے تھے حاصل اُسے بحرِ روحانیت کا شناور تھا وہ اُس نے اپنی ذرا بھی تو پرواہ نہ کی اُس کے دل میں تو بس اک یہی تھی لگن ہو خزاں کا تسلّط نہ گلزار پر لہلہاتا رہے دینِ حق کا چمن وہ کہ راتوں کو اُٹھ اُٹھ کے رویا کِیا کہ جماعت یہ دنیا میں پُھولے پھلے رحمتِ حق رہے اِس پہ سایہ فگن چشمہء فیضِ حق اِس میں جاری رہے اہلِ دنیا کی حالت پہ کر کے نظر وہ کہ اشکوں کے موتی پروتا رہا وہ کہ سجدے میں گر کے بِلکتا رہا اور جہاں چین کی نیند سوتا رہا شق ہو پتھر کا سینہ بھی سُن کر جنہیں صبر سے ایسی باتیں وہ ُسنتا رہا خار دامن سے اس کے اُلجھتے رہے وہ ہمارے لئے پُھول چُنتا رہا اس کو اپنے پرائے ستاتے رہے پر ہمیشہ وہ حق بات کہتا رہا آنچ آنے نہ دی اس نے اسلام پر اپنے سینے پہ ہر وار سہتا رہا اپنے لُطف و کرم اور اخلاق سے وہ زمانے کو تسخیر کرتا رہا اپنے خونِ جگر سے وہ اسلام کا اک نیا دَور تحریر کرتا رہا دینِ احمدؐ کی اُس نے بقا کے لئے مال اپنا دیا، اپنی جاں پیش کی اپنی اولاد کو وقف اُس نے کیا اپنے افعال، اپنی زباں پیش کی تشنگی کی یہ حالت رہی، عمر بھر وہ شرابِ محبت ہی پیتا رہا اُس کی ہر سانس تھی بس خدا کے لئے وہ محمدؐ کی خاطر ہی جیتا رہا خدمتیں دین کی بھی وہ کرتا رہا ہجر کی تلخیاں بھی وہ سہتا رہا لے کے آخر میں نذرانۂ جان و دل سوئے کوئے نگاراں روانہ ہؤا اُس کے دم سے اُجالا تھا چاروں طرف وہ گیا تو یہاں تیرگی چھا گئی چاند روشن ہے اب بھی اُفق پہ مگر ''میرے سورج کو کِس کی نظر کھا گئی'' ١؎ ١؎    یہ مصرعہ احمد ندیم قاسمیؔ صاحب کا ہے۔ کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ63۔66 10۔ قطعات ۔ حضرت المصلح الموعود رضی اللہ عنہ کی یاد میں لو آج ابنِ مہدیء مسعود چل دیا محبوب میرا، وہ مرا محمود چل دیا اہلِ وفا کو عشق کی راہوں پہ ڈال کر وہ رہنما، وہ مصلحِ موعود چل دیا رفتارِ وقت روکتے رُکتی بھی ہے کبھی؟ ناداں تھا دل جو ایسے گماں سے بہل گیا سوئے ہوئے تھے چین سے غفلت کی نیند میں آنکھیں کھلیں تو دیکھا کہ سورج بھی ڈھل گیا یوسف بھی دیکھ کے ہو خجل ایسا حسن تھا وہ رنگ، وہ نکھار، وہ چہرے کے خدوخال معصومیّت بلا کی، تبسم کی جھلکیاں چہرے کی دلکشی لب و رخسار کا جمال گزرا ہے وقت کب ہمیں احساس نہ ہوا بچے بڑھے، جوانوں کا ڈھلنے لگا شباب آواز آئی یہ تو سبھی چونک سے گئے نکلا وہ چاند چرغ پہ ڈوبا وہ آفتاب محمود نام ہے ترا، ہر کام خیر ہے ہر فعل، ہر عمل ترا، ہر گام خیر ہے تیری تمام زندگی تقویٰ کی ہے مثال آغاز خیر تھا ترا انجام خیر ہے فضلِ عمر کے عہد کی وہ قیمتی کتاب جس کا خدا نے آپ ہی لکھا تھا انتساب اک عمر جس کو پڑھ کے مسرت ملی ہمیں لو آج ختم ہو گیا وہ زرنگار باب اے جانے والے تیرے تصوّر میں رات دن قلبِ حزیں سے آتی ہے بس ایک ہی صدا تیرا فراق ہم کو گوارا نہ تھا مگر ''ترکِ رضائے خویش پئے مرضی خدا'' آنکھوں میں سیلِ اشک ہیں دل ہیں دھواں دھواں ہیں گرچہ اَب بھی جانبِ منزل رواں دواں راہیں ہیں سوگوار تو راہی اداس ہیں اِس کارواں کی جان تھا وہ میرِ کارواں اِک بار اور محفلِ ہستی اُجڑ گئی پیش آ گیا ہے زیست کو اِک اور مرحلہ چھینی گئی ہے راہ میں اِک قیمتی متاع غُربت میں لُٹ گیا ہے غریبوں کا قافلہ تیرا وجود نعمتِ عظمیٰ سے کم نہ تھا احسان تھا وہ ہم پہ خدائے کریم کا وہ دورِ کیف آفریں یوں ختم ہو گیا جنت سے گویا آیا تھا جھونکا نسیم کا کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ67۔68 11۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مصلح موعودؓ کی یاد میں کلی کلی ہے مضمحل، روش روش اداس ہے وہ باغباں کدھر گیا کہ تھا جو زینتِ چمن وہ خوش بیان اُٹھ گیا، وہ دَور ختم ہوگیا وہ بات ختم ہو گئی کہاں ہے لذّتِ سخن جو پیار کا نقیب تھا، جو قوم کا نصیب تھا دلوں کے جو قریب تھا اُسی کو ڈھونڈتا ہے من مرے حبیب، کیا خبر تجھے ترے فراقِ میں ہیں دل یہاں دھواں دھواں تو تار تار پیرہن مری وفا کی ہے گواہ میری سوزشِ دروں مری یہ دِل گرفتگی یہ میری آنکھ کی چُبھن مری نظر میں آج بھی ہے تیرے حُسن کی ضیائ ہیں اب بھی میرے ذہن میں وہ چشم و ابرو و دہن مجھے ہیں یاد آج بھی وہ تیری مسکراہٹیں تری جبیں پہ وہ تِری شگفتگی کا بانکپن تِری ادائے دلنشیں، تِری نگاہِ دُوربیں تِری وہ خوش بیانیاں، وہ تیرا داؤدی لحن برائے دینِ مصطفیؐ تِری وہ بے قراریاں برائے قومِ مصطفیؐ تِری تڑپ، تِری لگن غلط کہ تیری قوم اب وفا شناس نہ رہی مگر بجا کہ کچھ بدل گیا ہے ظاہری چلن نگاہ و دِل کے زاویئے ہیں رُخ ذرا بدل گئے دلوں کو بھا رہی ہے خوبیِء جہانِ مکروفن مگر مقامِ شکر ہے کہ ہے ہمارے درمیاں وہ جس کو تُو سکھا گیا ہے پاسدارئیِ چمن اُسی کے دم سے اب بھی ہیں وہ برکتیں نصیب میں کہ جن سے دور ہو رہی ہے فکر و یاس کی گھٹن علاوہ اس کے اور کیا یہ میرا دل دعا کرے یہ برکتیں ہوں دائمی خدا کرے، خدا کرے کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ69۔71 12۔ خدا کرے خدا کرے کہ صحبتِ امام بھی ہمیں ملے یہ نعمتِ خلافتِ مدام بھی ہمیں ملے خدا کرے اطاعتِ امام ہم بھی کر سکےں خدا کرے کہ معرفت کا جام بھی ہمیں ملے خدا کرے کہ عشقِ مصطفےٰؐ ہمارے دل میں ہو رضائے حق کی مسندِ کرام بھی ہمیں ملے ہوں اُس کی بزمِ ناز کی جو صحبتیں نصیب میں تو اُس کی رہ میں طاقتِ خرام بھی ہمیں ملے خدا کرے سجود کا سرور بھی نصیب ہو خدا کرے کہ لذّتِ قیام بھی ہمیں ملے خدا کی بارگاہ میں ہر ایک شب گداز ہو حسین صبح، مسکراتی شام بھی ہمیں ملے خدا کرے ہمارا بخت نارسا نہ ہو کبھی خدا کرے سروش کا پیام بھی ہمیں ملے عروجِ آدمی کی ساری رفعتیں نصیب ہوں تو قُدسیوں کی بزم کا سلام بھی ہمیں ملے خدا کرے رِفاقتِ خواص بھی نصیب ہو خدا کرے محبَّتِ عوام بھی ہمیں ملے خدا کرے کہ ہم جہاں کو کرب سے نجات دیں فلاحِ خلق کا یہ اِذنِ عام بھی ہمیں ملے ہمیں عطا ہو کاش بحرِ علم کی شناوری عمل کی رہ میں شہرتِ دوام بھی ہمیں ملے کشادگی دل و نگاہ و فکر کی نصیب ہو خدا کرے بلاغتِ کلام بھی ہمیں ملے علومِ دُنیوی کا ہو فروغ اپنی ذات سے تو دین کی اشاعتوں کا کام بھی ہمیں ملے وجاہتیں ہوں دہر کی ہمارے آگے سرنگوں تو خادمانِ دین کا مقام بھی ہمیں ملے ہمارے ہر عمل میں عکس ہو مسیحِؑ پاک کا فدائیانِ مصطفےٰؐ کا نام بھی ہمیں ملے خدا کرے جہاں کی ساری نعمتیں نصیب ہوں خدا کرے کہ جنّتِ مدام بھی ہمیں ملے خدا کرے ہمارے دل میں اب لگن ہی اَور ہو خدا کرے کہ اب ہمارا بانکپن ہی اَور ہو کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ72۔74 13۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مصلح موعودؓ کی یاد میں عجب محبوب تھا سب کی محبت اس کو حاصل تھی دلوں میں جڑ ہو جس کی وہ عقیدت اس کو حاصل تھی ہیں سب یہ جانتے کہ کام معمولی نہ تھا اس کا کہ مامورِ زمانہ کی نیابت اس کو حاصل تھی اُسے قدرت نے خود اپنے ہی ہاتھوں سے سنوارا تھا تھا جس کا شاہکار اس کی ضمانت اس کو حاصل تھی علومِ ظاہری اور باطنی سے پُر تھا گر سینہ تو میدانِ عمل میں خاص شہرت اس کو حاصل تھی اُولوالعزم و جواں ہمت تھا وہ عالی گہر ایسا زمانے بھر سے ٹکرانے کی ہمت اس کو حاصل تھی رضا کے عطر سے ممسوح کر کے اُس کو بھیجا تھا وہ ایسا گُل تھا کہ ہر گُل کی نگہت اس کو حاصل تھی اُسے ملتا تھا جو بھی وہ اسی کا ہو کہ رہ جاتا کہ دل تسخیر کر لینے کی قوت اس کو حاصل تھی اُٹھاتا تھا نظر اور دل کے اندر جھانک لیتا تھا خدا کے فضل سے ایسی بصیرت اس کو حاصل تھی خدا نے خود اسے ''فضلِ عمر '' کہہ کے پکارا تھا عمرؓ سا دبدبہ ویسی ہی شوکت اس کو حاصل تھی وہ نورِ آسمانی تھا زمیں پہ جو اتر آیا کلمۃُ اللہ ہونے کی سعادت اس کو حاصل تھی وجیہہ و پاک لڑکے کی خدا نے خود خبر دی تھی عجب رنگِ ذکا، شانِ وجاہت اس کو حاصل تھی وہ ذہن و فہم کی جس کے خدا نے خود گواہی دی ذہانت اس کو حاصل تھی، فراست اس کو حاصل تھی ''یہ ممکن ہے اسیروں کے جہاں میں رستگار آئیں '' کہاں وہ بات لیکن جو فضیلت اس کو حاصل تھی جو نظروں کو جکڑ لے ایسی صورت کا وہ مالک تھا دلوں کو کھینچ لے جو ایسی سیرت اس کو حاصل تھی تبسم زیرِ لب، روشن جبیں، روئے گلاب آسا جو یوسف ؑ کو ملی تھی ایسی طلعت اس کو حاصل تھی وہ اس کی زندگی کہ سعئ پیہم سے عبارت تھی نہ دن کا چین، نہ شب کی فراغت اس کو حاصل تھی ہجوم افکار کا، جِہدِ مسلسل اور کٹھن راہیں مگر پھر بھی طبیعت کی بشاشت اس کو حاصل تھی نظیرِ حسن و احسانِ مسیح و مہدیؑء دوراں تھا جس کی ذریّت اس کی شباہت اس کو حاصل تھی مصائب سے وہ کھیلا اور طوفانوں سے ٹکرایا نہ اس کے عزم میں اور حوصلے میں لیک فرق آیا الٰہی روح پہ اس کی صدا نوروں کی بارش ہو جماعت پہ بھی اس کی تیرے فضلوں کا رہے سایہ کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ75۔76 14۔ گل ستاں میں وہ رشکِ بہار آگیا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کے دورہ مغرب سے واپسی کے موقع پر قطعَات زندگی کے چمن پہ نکھار آ گیا آج گلشن میں وہ گلعذار آ گیا پھول مہکے، چمن مسکرانے لگا گل ستاں میں وہ رشکِ بہار آ گیا دید اُس کی ہی آنکھوں کا مقصود ہے وہ کہ موعود ہے ابنِ موعود ہے جا کے یورپ میں پیغام حق کا دیا آج واں کفر کی راہ مسدود ہے وہ نگارِ حسیں ہے یہاں جلوہ گر دیکھ کے جس کو ہر شخص خورسند ہے نافلہ ہے مسیح کا وہ عالی گہر اَور فضلِ عمر کا وہ فرزند ہے شکرِ باری تعالیٰ کہ اُس نے ہمیں قدرتِ ثانیہ کی عطا بخش دی دے کے دَورِ خلافت کی نعمت ہمیں اپنی رحمت کی رنگیں رِدا بخش دی ہے دعائے دلِ درد منداں کہ یہ دیر تک اپنے جلوے دکھاتا رہے اس کی خوشبو سے گلشن مہکتا رہے باغِ احمد یونہی لہلہاتا رہے کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ77۔80 15۔ رخصت ہؤا آنکھ جس کی یاد میں ہے خونچکاں رخصت ہؤا جس کے غم میں دل سے اٹھتا ہے دھواں رخصت ہؤا نافلۃ لّک کی تابندہ بشارت کا ثبوت وہ مسیحِ پاک کا زندہ نشاں رخصت ہؤا مسجدِ اسپین اُس کی منتظر ہی رہ گئی ناصرِ دینِ خُدا سُوئے جناں رخصت ہؤا کچھ نئی راہوں کا بھی ہم کو پتہ بتلا گیا ثبت کر کے اپنے قدموں کے نشاں رخصت ہؤا حوصلہ ایسا کہ انساں دیکھ کر حیران ہو صبرو ہمت کا وہ اک کوہِ گراں رخصت ہؤا جس کے آگے چُپ ہوئے سب عالمانِ ذی وقار اہلِ علم و اہلِ دانش، نکتہ داں رخصت ہؤا لا اِلٰہ کا وِرد برلب، دعوتِ حق بَرزباں جس کے ہر فقرے میں تھا رنگِ اذاں رخصت ہؤا حسن، احساں، پیار، شفقت یاد کیا کیا آئیں گے وہ شہِ خوباں، نگارِ دلبراں رخصت ہؤا جس کا چہرہ دیکھ کر تسکین پاجاتے تھے دل زندہ دل، روشن جبیں، شیریں دہاں رخصت ہؤا جس کو ملتے ہی مہک اٹھتے امیدوں کے چمن! وہ توکّل اور غِنا کا ترجماں رخصت ہؤا سب کی تکلیفوں کو سُن کے حوصلہ دیتا رہا مونس و غمخوار سب کا راز داں رخصت ہؤا کرب کے دریا میں غوطہ زن رہا اُس کا وجود غم مگر جس کا نہ ہوپایا عیاں رخصت ہؤا زخم جو دل پر لگے وہ ہنستے ہنستے سہہ گیا صاحبِ خندہ جبیں، خندہ لباں رخصت ہؤا سنگ و ابریشم کی یکجائی سے تھا اُس کا خمیر نرم فطرت، نرم خُو، پہ سخت جاں رخصت ہؤا کر گیا تحریر ہر دل پہ وہ کچھ انمٹ نقوش دے کے اہلِ عشق کو سوزِ تپاں رخصت ہؤا اپنے رب کی ہر رضا پر جو سدا راضی رہا خوش دلی سے ہمرکابِ قُدسیاں رخصت ہؤا آخرِ دم تک بھی چہرے پہ رہا اُس کے سکوں وہ بہ ایں اندازِ تسکین و اماں رخصت ہوا مسکرانے کی سَدا، تلقین جو کرتا رہا چھوڑکے آنکھوں میں اب سیلِ رواں رخصت ہؤا گِرد جس کے کھینچ رکھا تھا حفاظت کا حصار چھوڑ کے کیسے اُسے تنہا یہاں رخصت ہؤا یہ ہماری ہے تو پھر جو اُس کی حالت ہو سو ہو اُس کی نظروں میں تو گویا کُل جہاں رخصت ہؤا شکرِ لِلّٰہ کہ کڑے لمحوں کی سختی مِٹ گئی فضل ربی سے وہ ہنگامِ گراں رخصت ہؤا پھر خُداکے فضل سے اک سائباں حاصل ہؤا لوگ تو سمجھے تھے سر سے سائباں رخصت ہؤا یاد پھر رہ رہ کے اُس کی دل کو تڑپانے لگی وہ مرا محبُوب آقا اب کہاں؟ رخصت ہؤا اُس کے جانے سے پرانے زخم بھی رِسنے لگے کر کے تازہ پھر سے یادِ رفتگاں رخصت ہؤا ہے خوشی اِس کارواں کو رہنما پھر مل گیا غم مگر ہے وہ امیرِ کارواں رخصت ہؤا ''یا الٰہی کیا کروں دل حوصلہ پاتا نہیں جس کو نظریں ڈھونڈتی ہیں وہ نظر آتا نہیں'' کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ81۔84 16۔ بھول جاؤں میں جسے ایسا تو وہ چہرہ نہ تھا دل کی دُنیا میں کبھی ایسا بھی سَنّاٹا نہ تھا ہم ہی ساکت ہوگئے تھے وقت تو ٹھہرا نہ تھا ہر کوئی اپنی جگہ حیران و ششدر رَہ گیا بات معمولی نہ تھی، یہ واقعہ چھوٹا نہ تھا یہ بجا! کہ وسوسے بھی دل میں اُٹھتے تھے مگر ےوں بھی ہو جائے گا ایسا تو کبھی سوچا نہ تھا وسوسے تھے، خوف تھا، ڈربھی تھا، اندیشے بھی تھے اتنا روشن چاند پہلے ڈوبتے دیکھا نہ تھا حَیف اُس کے واسطے ہم اس قدر جاگے نہ تھے جو ہماری فکر میں سُکھ سے کبھی سویا نہ تھا ضرب کاری تھی بہت آخر شکستہ ہو گیا دل ہی تھا پہلو میں پتّھر کا کوئی ٹکڑا نہ تھا اُس کے سینے میں اگر ہو دَرد کی دُنیا تو ہو اُس کے چہرے پر کسی بھی کرب کا سایہ نہ تھا ایک اُس کے دم سے کتنی محفلیں آباد تھیں ذات میں اپنی تھا وہ اک انجمن، تنہا نہ تھا تھا بہاروں کا پیامی اُس کے چہرے کا گلاب مشکلوں کے ریگذاروں میں بھی کُملایا نہ تھا وہ ترو تازہ، شگفتہ، خنداں،روشن، دلرُبا بُھول جاؤں میں جسے ایسا تو وہ چہرہ نہ تھا وہ گیا کیا! اعتبارِ زندگی جاتا رہا لُطف بزمِ ما، نکھارِ زندگی جاتا رہا میرِ محفل چل دیا، جَانِ جَہاںرُخصت ہؤا وہ شَہہِ خوباں، وہ ماہِ مَہ وِشاں رخصت ہؤا بَن گئی تقدیر ساز اس کی دُعائے مُستجاب وہ شبِ ہسپانیہ کا رازداں رخصت ہؤا جس کے قدموں نے جِلا بخشی تھی اُس کی خاک کو اُندلس حیران ہے کہ وہ کہاں رخصت ہؤا عمر بھر وہ پیار کے ساغر لنڈھاتا چل دیا شاہ دل ساقی، سخی پیرِ مغاں رخصت ہؤا پیار بھی تھا، دلرُبائی بھی تھی، رعنائی بھی تھی رونق و تزئینِ بزمِ دوستاں رخصت ہؤا عجز کی راہوں پہ چل کے پا گیا اَوجِ کمال بن کے محبوبِ خدائے دوجہاں رخصت ہؤا کچھ اشارہ رخصتی کا، نہ وداع کی بات کی وہ ہؤا رخصت! پہ بے سان و گماںر خصت ہؤا یہ نہیں ہیں شعر، سوزِ زندگی کی ہے تپک چار سُو پھیلی ہوئی ہے میرے زخموں کی مہک چاند اِک رخصت ہؤا، اِک ماہ پارہ آگیا جگمگاتا، روشنی دیتا ستارہ آگیا مطلِع انوار پہ چھائی گھٹا چھٹنے لگی پھر نظر کے سامنے روشن نظارہ آگیا بحرِ ظُلمت میں گھرِیں تھیں کشتیاں کہ ایکدم سامنے پھر روشنی کا اِک منارہ آگیا مُصلِح موعود کا اِک اَور فرزندِ جلیل حالتِ بے چارگی میں بن کے چارہ آگیا حُسن جس کا آج تک مستور پردے میں رہا حُسن و خُوبی کو کئے وہ آشکارا آگیا مرحبا! پھر صاحبِ عزوّ وقار آہی گیا پھر خُدا کی قدرتوں کا اعتبار آہی گیا کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ85۔87 17۔ پیار سب سے نفرت کسی سے نہیں میر محفل کبھی تھا وہ جانِ جہاں دیکھ کے جس کو ہر شخص خورسند تھا نافلہ تھا مسیح کا وہ عالی گہر اَور فضلِ عمر کا وہ فرزند تھا ذات اس کی نگاہوں سے اوجھل ہوئی کام اس کا زمانے میں موجود ہے جا کے مغرب میں پیغام حق کا دیا ہے آج واں کُفر کی راہ مسدُود ہے زندگی کی چمک سے دَمکتا ہوا اس کے چہرے پہ کیسا عجب نور تھا اُس کی ہر بات امید کی روشنی یاسیت کے اندھیروں سے وہ دور تھا سلسلہ تھا حوادث کا جاری مگر یاس کا لفظ بھی لَب پہ آیا نہ تھا موجزن دَرد کا دل میں دریا مگر کرب کا اُس کے چہرے پہ سایا نہ تھا مسکراتا رہا آپ بھی وہ سدا مسکرانے کی تلقین کرتا رہا اِس جماعت کو تسکین دیتا رہا اِس کی راہوں کی تعیین کرتا رہا اس کی صورت حسیں، اُس کی سیرت حسیں وہ شگفتہ دہن، وہ کشادہ جبیں درس اہلِ وفا کو یہی دے گیا پیار سب سے کسی سے بھی نفرت نہیں سات سو سال کے بعد مسجد کی پھر اُس کے ہاتھوں سے رکھی گئی ہے بنا بہرِ تشنہ لباں اُس نے اسپین میں چشمۂ فیضِ حق پھر سے جاری کیا یاد تازہ تھی فضلِ عمر کی ابھی اک نیاوار تقدیر نے کر دیا چوٹ تازہ ہوئی زخم رسنے لگے اک نیا درد دل میں میرے بھر دیا چیز جس کی تھی واپس وہی لے گیا کوئی شکووں کا حق بھی ہمارا نہیں اپنے رب کی رضا پہ ہی راضی ہیں ہم اس کی ناراضگی تو گوارہ نہیں کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ88۔90 18۔ محبتوں کا سفیر اپنے ربِّ کریم سے میں نے اپنے آقا کی زندگی مانگی پر خدا جانے کس لئے میری نہ دعا کوئی مُستجاب ہوئی وہ جو اوجھل ہؤا نگاہوں سے دل نے ہر دم اسے صدا دی ہے کوئی شکوہ بھی کر نہیں سکتے چیز جس کی تھی اس نے لے لی ہے یاد سے اس کی میرے سینے میں درد کے لہرئیے سے بنتے ہیں میری آنکھوںمیں بند ہے برسات میرے دل میں الاؤ جلتے ہیں ایک مشفق سا دِلرُبا چہرہ ذہن میں میرے مسکراتا ہے جب نظر رُوبَرُو نہیں پاتی میرا دل ڈوب ڈوب جاتا ہے وہ اولوالعزم باپ کا بیٹا عزم اور حوصلے میں یکتا تھا خندہ پیشانی وصف تھا اُس کا ہر گھڑی مسکراتا چہرہ تھا اُس کے چہرے پہ تازگی، کا نکھار زیرِ لب دائمی تبسّم تھا جس سے ڈھارس دلوں کی بندھ جائے کس قدر دلنشیں تکلّم تھا اہلِ مشرق کے واسطے ڈھارس اہلِ مغرب کو وہ خوشی کی نوید غلبہئ دین کی صدی کے لئے کتنا پُر عزم، کتنا پُر اُمید بُغض اور نفرتوں کی دنیا میں بن کے آیا محبتوں کا سفیر وہ شدائد میں عزم کا پیکر وہ مصائب میں صبر کی تصویر مانتی ہوں کہ بے عمل ہیں ہم مانتی ہوں گناہ گار بھی ہیں باوجود اپنے سب معاصی کے ہم امینِ وفا و پیار بھی ہیں میرے مالک ہمارے جرموں کی اِس جماعت کو نہ سزا دیجو ہم خطا کار و بے عمل ہی سہی تُو تو ارحم ہے رحم ہی کیجو جانے والے کا دَور خوشکن تھا آنے والا بھی خیر لایا ہو جانے والے پہ تیری رحمت ہو آنے والے پہ تیرا سایا ہو کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ91۔92 19۔ ناصر دینِ متیں یاد آگئے اے خدا، اے کردگار و کارساز اے مِرے پیارے مرے بندہ نواز تو کہ ناواقف نہیں احوال سے تجھ سے پوشیدہ نہیں ہے کوئی راز بے عمل ہوں میں، مرا دامن تہی بس محبت ہی تری میری نماز کر بھی دے میرے گناہوں کو معاف تُو نے فرمایا درِ توبہ ہے باز کر قبول اے مالک ارض و سماء التجائے بندۂ عجز و نیاز ''گر قبول افتد زہے عزّو شرف'' میری آنکھوں کی نمی، دل کا گداز خادمانِ رجل فارس ہم بھی ہیں کم ہے جتنا بھی کریں قسمت پہ ناز مسجدِ اسپین میں اسلام کا باب اک کھولا گیا تاریخ ساز جس تڑپ سے یہ بِنا رکھی گئی وہ تڑپ ہر قلب کو کر دے گداز یہ زمیں پھر وہ نظارے دیکھ لے آگریں سجدوں میں محمود و ایاز لا الٰہ کی ضرب ہے تثلیث پر یہ بشارت ہے پئے قومِ حجاز ناصرِ دینِ متیں یاد آگئے دیکھ کر اس کے مناروں کا فراز چیز تیری تھی سو واپس لے گیا میرے شکووں کا نہیں کوئی جواز دے خلافت کو بقائے دائمی رحمتوں سے اپنے بندوں کو نواز کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ93۔94 20۔ آقا ترے بغیر یہ گلشن اُداس ہے آقا ترے بغیر یہ گلشن اداس ہے ماحول ہی اداس ہے کہ مَن اداس ہے فتنوں کی شورشوں سے نہیں مضطرب یہ دِل ہاں آنکھ بے کئے ترا درشن اداس ہے ہجر و فراقِ یار کا عالم نہ پوچھئے آئینہ دل کا ، رُوح کا دَرپن اداس ہے تیرے بغیر رونقِ بزمِ چمن نہیں سَرووسمن اداس ہیں، سوسن اداس ہے خورد و کلاں کے سینے ہیں صدیوں کا غم لئے پِیری فسردہ دل ہے تو بچپن اداس ہے اہلِ وَفا کے جذبے ہیں یکسانیت لئے ایواں ہو یا غریب کا مسکن اداس ہے محروم دید سے مری آنکھیں ہیں اشکبار لالے کا داغ دل میں ہے دھڑکن اداس ہے اہلِ چمن پہ بار ہے خاموشیوں کا بوجھ اے عندلیبِ خوش نوا گلشن اداس ہے بستی کا اپنی حال نہ پوچھو کہ آج کل محبوب کے فراق میں بِرہن اداس ہے ہر ایک دل سے اُٹھتی ہے بس ایک ہی پُکار '' موسیٰ پلٹ کہ وادئ اَیمن اداس ہے '' کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ95۔97 21۔ اے قادرِ مطلق یہ تو بتا پھر لوٹ کے کب تک آئیں گے عرفان کی بارش ہوتی تھی جب روز ہمارے ربوہ میں اے کاش کہ جلدی لوٹ آئیں وہ دن وہ نظارے ربوہ میں جب علم کی محفل جمتی تھی عرفان کی باتیں ہوتی تھیں دن یاد بہت وہ آتے ہیں جو ساتھ گزارے ربوہ میں اے بے بصرو! کیا تم کو خبر اُس لذّت کی جب ہوتے تھے عشاق کی محفل میں اُن کی چِتوَن کے اشارے ربوہ میں گرداب سے نکلو ہم تم کو ساحل سے صدائیں دیتے ہیں رُخ اپنے سفینوں کے موڑو پاؤ گے کنارے ربوہ میں اے تخت نشینو! ہم تو اُنہی آنکھوں کا اشارہ دیکھتے ہیں خوش فہم نہ ہو کہ چلتے ہیں فرمان تمہارے ربوہ میں جو آگ لگائی ہے تم نے وہ تم کو ہی جھلسائے گی اے صاحبِ شر ! کر ہوش ذرا نہ پھینک شرارے ربوہ میں مجبور سہی، لاچارسہی ہے کرب و بَلا کا دَور مگر! پُر عزم بھی ہیں با حوصلہ بھی رہتے ہیں جو سارے ربوہ میں کچھ جان کی بازی ہار گئے، پر لاج وفاؤں کی رکھ لی خوں رنگ لبادوں میں آئے اللہ کے پیارے ربوہ میں تسکین سماعت پاتی ہے، ذہنوں کو جِلا بھی ملتی ہے پر دید کی پیاس کا کیا کیجئے، بھڑکی ہے جو سارے ربوہ میں کب ساقی بزم میں آئے گا، کب جام لُنڈھائے جائیں گے دو قطروں سے کب ہوتے ہیں رندوں کے گزارے ربوہ میں جب تک یہ سانس کا رشتہ ہے بندھن بھی آس کا قائم ہے الطاف کے خوگر بیٹھے ہیں رحمت کے سہارے ربوہ میں پھر نغمۂ بلبل گونجے گا پھر پھول چمن میں مہکیں گے پھر لَوٹ بہاریں آئیں گی سَو رُوپ نکھارے ربوہ میں پھر تارے تابندہ ہوں گے پھر چاند اُجالا پھیلے گا ہر سمت نظر آئیں گے وہی پھر نور کے دھارے ربوہ میں پھر جلوے بزم سجائیں گے، پھر دید کی پیاس بجھائیں گے پھر دیکھنے والے دیکھیں گے گلرنگ نظارے ربوہ میں جب اِذن الٰہی ہو گا پھر اک شان سے واپس آئیں گے آغوشِ امامت کے پالے مہدی کے دُلارے ربوہ میں اے قادرِ مطلق یہ تو بتا پھر لَوٹ کے کب تک آئیں گے وہ دن کہ اذانوں سے گونجا کرتے تھے منارے ربوہ میں کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ98۔101 22۔ نظریں فلک کی جانب ہیں خاک پر جبیں ہے ہر ایک ہے ہراساں یہ دَور نکتہ چیں ہے ہر دل میں ہے تکدّر، آلودہ ہر جبیں ہے ناپختہ ہر عمل ہے، لرزیدہ ہر یقیں ہے وصلِ صنم کا خواہاں شاید کوئی نہیں ہے ''فکروں سے دل حزیں ہے جاں درد سے قریں ہے جو صبر کی تھی طاقت وہ مجھ میں اب نہیں ہے '' آنکھوں میں سیلِ گریہ، سینہ دھواں دھواں ہے ہر نفس مضطرب ہے ہر آنکھ خونچکاں ہے ہونٹوں پہ مسکراہٹ، دل مہبطِ فغاں ہے فُرقت میں یاں تڑپتا انبوہِ عاشقاں ہے غربت میں واں پریشاں اک دِلرُبا حسیں ہے ''جو صبر کی تھی طاقت وہ مجھ میں اب نہیں ہے '' اک دَورِ پُر سکوں کا آغاز چاہتی ہوں لَے ہو طرب کی جس میں وہ ساز چاہتی ہوں نظرِ کرم ہی میرے دمساز چاہتی ہوں میں تیرے لفظ کُن کا اعجاز چاہتی ہوں سب کی ہے تو ہی سنتا اِس بات کا یقیں ہے ''جو صبر کی تھی طاقت وہ مجھ میں اب نہیں ہے'' انسانی لغزشوں سے میں ماورا نہیں ہوں ماحول سے علیحدہ ربُ الوریٰ نہیں ہوں لیکن میں تجھ سے غافل میرے خدا نہیں ہوں میں بے عمل ہوں بےشک پر بے وفا نہیں ہوں نظریں بھٹک رہی ہیںپر دل میں   مکیں ہے ''جو صبر کی تھی طاقت وہ مجھ میں اب نہیں ہے'' میں مانتی ہوں میرا خالی ہے آبگینہ نہ آہِ صبح گاہی نہ زارئ شبینہ تسلیم کا سلیقہ نہ پیار کا قرینہ پر میری جان میرا شق ہو رہا ہے سینہ اب اس میں تابِ فکر و رنج و محن نہیں ہے ''جو صبر کی تھی طاقت وہ مجھ میں اب نہیں ہے '' بے چین ہو کے کوئی دن رات رو رہا ہے وہ اپنی سجدہ گاہیں ہر دم بھگو رہا ہے دامانِ صاف اپنے اشکوں سے دھو رہا ہے تو جانتا ہے سب کچھ یاں جو بھی ہو رہا ہے ہے روح بھی فسردہ دل بھی بہت حزیں ہے ''جو صبر کی تھی طاقت وہ مجھ میں اب نہیں ہے'' کرب و بلا کے لمحے بڑھتے ہی جا رہے ہیں سوز و گداز میرا سینہ جلا رہے ہیں یہ ناگ وسوسوں کے پل پل ڈرا رہے ہیں سب صبر و ضبط میرا کیوں آزما رہے ہیں کچھ اس کا بھی تدارک تُو ربِّ عالمیں ہے ''جو صبر کی تھی طاقت وہ مجھ میں اب نہیں ہے '' ذوقِ دعا کو میرے رنگِ ثبات دے دے جامِ لِقا پلا دے، آبِ حیات دے دے یہ تو نہیں میں کہتی کُل کائنات دے دے فرقت کی تلخیوں سے بس تو نجات دے دے نظریں فلک کی جانب ہیں خاک پر جبیں ہے ''جو صبر کی تھی طاقت وہ مجھ میں اب نہیں ہے '' تیرہ شبی ہے ابرِ اوہام بھی گھنیرا لیکن یقیں ہے مجھ کو نزدیک ہے سویرا نادم بہت ہوں لب پہ آیا گِلا جو تیرا تو نے تو ہر کرم سے گھر بھر دیا ہے میرا تو رحمتِ اتم ہے ستّار مذنبیں ہے ''جو صبر کی تھی طاقت وہ مجھ میں اب نہیں ہے '' تضمین بر مصرع حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ102۔105 23۔ ''جو دُور ہیں وہ پاس ہمارے کب آئینگے'' کب پوپھٹے گی نُور نظارے کب آئیں گے ظُلمت میں روشنی کے منارے کب آئیں گے دل ہر گھڑی ہے جن کو پکارے کب آئیں گے ''جو دُور ہیں وہ پاس ہمارے کب آئیں گے دِل جن کو ڈھونڈتا ہے وہ پیارے کب آئیں گے'' ماےوسی ہے گُناہ پر آخر تو ہیں بشر کب ختم ہو گا کرب و اذیّت کا یہ سَفر تیرہ شبی ہے تابہ کے؟ پُھوٹے گی کب سحر ''ہر دم لگی ہوئی ہے سرِ راہ پر نظر آخر ہماری آنکھ کے تارے کب آئیں گے'' ہر آنکھ اشکبار، برستی، اداس ہے ہر جان بے قرار، ترستی، اداس ہے گر دِل ہے سوگوار، تو ہستی اداس ہے ''یا رب ہمارے شاہ کی بستی اداس ہے اِس تخت گاہ کے راج دلارے کب آئیں گے'' آنکھوں میں سیلِ اشک ہے، ہونٹوں پہ آہ ہے جو ہم سے دُور ہیں اُنہیں ملنے کی چاہ ہے ہر اک سراپا سوز، مُجسّم کراہ ہے ''لب پہ دُعا ہے تیرے کرم پر نگاہ ہے عاشق ترے، حبیب ہمارے کب آئیں گے '' دَرد و الَم کی شدّتیں ہیں سوز کا وفور ربِ کریم کر دے یہ ساری بلائیں دُور جلوے تجلّیات کے اَب اے خدائے نُور ''جو سَر کو خَم کئے تری تقدیر کے حضور تیری رضا کو پاکے سِدھارے، کب آئیں گے '' بے مائیگی کا اپنی میں کرتی ہوں اعتراف بارِ الٰہا! میری ہو ہر اک خطا معاف تُو ساتھ ہو تو کیا جو زمانہ بھی ہو خلاف ''کب راہ ان کی تیرے فرشتے کریں گے صاف کب ہوں گے واپسی کے اشارے کب آئیں گے'' دل محوِ یادِ یار ہے تو ذہن سُوئے گُل ہے سوچ کہ بھٹک رہی اطرافِ کوئے گُل نظروں میں ہے بَسا ہوا گُل رنگ روئے گُل ''صحنِ چمن سے گُل جو گئے مثلِ بوئے گُل رحمت کی بارشوں سے نکھارے کب آئیں گے'' یہ جَبر و ظُلم و جور کا سورج ڈھلے گا کب پھر ہم پہ بابِ رحمتِ یزداں کھلے گا کب پھر سے وہ دَور ِ ساغر و مینا چلے گا کب ''زخمِ جگر کو مرہمِ وصلت ملے گا کب ٹوٹے ہوئے دلوں کے سہارے کب آئیں گے'' گھیرے ہوئے ہے ذہن کو افکار کا ہجوم بے چین ہیں، کئے ہوئے اندیشۂ و ہموم جُھلسا رہی ہے گلشنِ امید کو سموم ''دیکھیں گے کب وہ محفل کالبدر فی النجوم وہ چاند کب ملے گا وہ تارے کب آئیں گے '' تضمین بر اشعار حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحب کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ106۔108 24۔ تمہیں مُبارک ہو اہلِ مشرق محبتوں کا سَلام آیا تمہیں مبارک ہو اہلِ مشرق! محبتوں کا سَلام آیا تمہارے آقا کی شفقتوں اور چاہتوں کا پیام آیا طویل تر فاصلے، کڑی دُھوپ، راہ پُر پیچ آبلہ پا رہِ وفا میں نہ اِس سے پہلے تھا ایسا مشکل مقام آیا جدائیوں میں تو عشق کی آگ کی تپش اور بڑھ گئی ہے سکون و صبر و قرار دل کو نہ صبح آیا نہ شام آیا ہموم کی منزلوں سے گزرے ہیں فکر کی رہ گزر بھی طے کی خیالِ بے مائیگی بھی دل میں قدم قدم گام گام آیا یہ کرب اور ابتلاء کے لمحے سعادت اِس طور بن گئے ہیں عجیب لذّت سجود میں تو عجیب لُطفِ قیام آیا زہے مقدّر اے خوش نصیباں کہ پیار کی چاشنی میں ڈوبا تمہارے محبوب کی طرف سے یہ خط تمہارے ہے نام آیا غموں کی جو تلخیاں مٹا دے جو ذہن و دل کو سکون بخشے وہ مدھ بھرا، وہ سُرور آور کلامِ شیریں کلام آیا تمہاری خوشیاں جھلک رہی ہیں کسی کی قسمت کے زائچے میں نویدِ فتح و ظفر لئے یہ سروش کا ہے پیام آیا تمہارے آقا کی ہے یہ خواہش کہ سونے والوں کو بھی جگا دو خبر دو ظُلمت کے باسیوں کو کہ روشنی کا نظام آیا نقاب رُخ سے اٹھا رہا ہے، حسین جلوے دکھا رہا ہے نوید ہو دید کے پیاسو کہ حُسن بالائے بام آیا مہیب تاریکیاں چَھٹی ہیں زمین پر چاندنی ہے اُتری جو عکس خورشید کا لئے ہے فلک پہ وہ ماہِ تام آیا ہماری کوتاہئی نظر ہے جو لُطف اُس کا نہ دیکھ پائیں پیامِ رحمت تو عاصیوں کو ہمیش آیا، مدام آیا نہ خُم، سبو، ساغر وصراحی، نہ جام و مینا ہی مِلک میری یہ میرے ساقی کی ہے نوازش کہ میرے ہاتھوں میں جام آیا میری ادا تو کوئی بھی ایسی نہ تھی کہ جو اُن کا دل لُبھاتی فقط مِرا جذبۂ وفا ہے کہ آج جو میرے کام آیا نہیں ہے علم اِس کا دشمنوں کو کہ جال قُدرت بھی بُن رہی ہے چلی ہے جس نے بھی چال کوئی وہ آپ ہی زیرِ دام آیا قسم خدا کی نہیں دلوں میں ہمارے دُنیا کا خوف کوئی ہمارا حامی وہی ہے جس کی گرفت میں لیکھرام آیا ہمیں بھی نسبت ہے مَردِ فارس سے اِ ک نگاہِ کرم ہو آقا! تمہارے در پہ بڑی امیدیں لئے یہ اَدنیٰ غلام آیا کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ109۔111 25۔ شفا دے شفادے شفاؤں کے مالک

ہماری امیدوں کا مرکز ہے تو ہی ہمیں اپنی رحمت کے جلوے دکھا دے تو چارہ گروں کو عطا کر بصیرت انہیں مالکا دستِ معجز نما دے جو ہیں چارہ سازی کے اسرار مولا، کرم سے تو اپنے انہیں سب سکھا دے فراست دماغوں، حصانت ارادوں، بصارت نگاہوں کو دل کو جِلادے شفادے شفادے، شفاؤں کے مالک، مرے سارے پیاروں کو کامل شفادے یہ کشکول ہے سامنے تیرے رکھا اسے اپنے فضلوں سے بھر دے خدایا نہ میں تجھ سے مانگوں تو پھر کس سے مانگوں تو سب کو ہے دیتا تو سب کا ہے داتا تو سب کا ہے ماویٰ، تو سب کا ہے ملجا، تو سب کا ہے والی تو سب کا ہے مولا تو سب کا ہے ساقی ذرا جام بھر بھر کے لطف و کرم کے ہمیں اب پلادے شفادے شفادے، شفاؤں کے مالک، مرے سارے پیاروں کو کامل شفادے کسی گھر کی رونق، کسی دل کی چاہت تو آنکھوں کی پتلی کا تارا ہے کوئی کہیں ذات سے اپنی بڑھ کے ہے کوئی کہیں جان سے اپنی پیارا ہے کوئی کسی کی نگاہوں کا محور ہے کوئی، کسی زندگی کا سہارا ہے کوئی تو سب جانتا ہے، تجھے سب خبر ہے تو شانِ کریمی کے جلوے دکھا دے شفادے شفادے، شفاؤں کے مالک، مرے سارے پیاروں کو کامل شفادے ہے جو روک بھی سامنے سے ہٹا دے ، ہمارے لئے راہ ہموار کر دے براہیمی سنت دکھا میرے پیارے، یہ دہکی ہوئی آگ گلزار کر دے کوئی نا امیدی کا لمحہ نہ آئے مجھے اور بھی جو گنہگار کردے نویدِ مسرت سنا کر ہمیں اب گرفتہ دلوں کی تو ڈھارس بندھا دے شفادے شفادے، شفاؤں کے مالک، مرے سارے پیاروں کو کامل شفادے کہیں درد کی داستانیں چھڑی ہیں کوئی اپنے زخموں کو سہلا رہا ہے کہیں چارہ گر خود کو مجبور پاکے کسی دل شکستہ کو بہلا رہا ہے ہمہ وقت دھن سوز کی سنتے سنتے مری جاں کلیجہ پھٹا جا رہا ہے ذرا چھیڑ دے ساز ''کُن'' کو مُغنی مدھر لَے میں نغمہ طرب کا سنا دے شفادے شفادے، شفاؤں کے مالک، مرے سارے پیاروں کو کامل شفادے لئے آنکھ میں آنسوؤں کی روانی ترے در پہ کوئی خمیدہ کھڑا ہے جو اوروں کا دکھ بھی سمیٹے ہوئے ہے بہت دیر سے آبدیدہ کھڑا ہے ہے سینہ فِگار اور سوچیں ہیں زخمی جگر سوختہ دل تپیدہ کھڑا ہے وہ صبر و رضا کا ہے پیکر تو خود لطف سے اپنے ہر فکر اس کی مٹا دے شفادے شفادے، شفاؤں کے مالک، مرے سارے پیاروں کو کامل شفادے خزانے میں تیرے کمی تو نہیں ہے خزینۂ ہستی کے وا باب کر دے تو قادر ہے تو مقتدر ہے خدایا ہمارے لئے پیدا اسباب کر دے ہیں پژمردہ جو پھول رحمت کی شبنم تو ڈال ان پہ اور اُن کو شاداب کر دے کرشمہ دکھا اپنی قدرت کا پیارے جو بگڑے ہوئے کام ہیں سب بنا دے شفادے شفادے، شفاؤں کے مالک، مرے سارے پیاروں کو کامل شفادے

کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ112۔113

26۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی بیماری کے ایام میں ایم ٹی اے پر آپ کو دیکھ کر اور آپ کی باتیں سن کر

میری جاں دل کو دُکھانے کی تو نہ باتیں کرو روح پر بجلی گرانے کی تو نہ باتیں کرو مدتوں سے منتظر ہیں میری بستی کے مکیں اُن کو ڈھارس دو ڈرانے کی تو نہ باتیں کرو ہجر کے آزار نے برسوں رُلایا ہے جنہیں تم بھی اب اُن کو رُلانے کی تو نہ باتیں کرو دِل کہ جو پہلے ہی زخموں سے ہؤا ہے داغ داغ اس پہ تم چرکے لگانے کی تو نہ باتیں کرو زندگی تو یوں بھی ہے اک امتحاں در امتحاں آج تم بھی آزمانے کی تو نہ باتیں کرو مسکرا کے دو ہمیں بھی مسکرانے کی نوید اس طرح آنسو بہانے کی تو نہ باتیں کرو لوٹ آؤ میری دنیا میں بہاروں کو لئے اک الگ دنیا بسانے کی تو نہ باتیں کرو جانتی ہوں خوب میں کہ کیا مری اوقات ہے اور نظروں سے گرانے کی تو نہ باتیں کرو غیر تو ہے غیر خوش ہوگا مری تکلیف سے میرے دشمن کو ہنسانے کی تو نہ باتیں کرو کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ114۔116 27۔ پھر وہی رمزیں وہی گھاتیں گو تمہارے گرد رہتا ہے ہزاروں کا ہجوم چاہنے والوں کی رونق، جانثاروں کا ہجوم نفس مٹی میں ملائے خاکساروں کا ہجوم سب تڑپتے اور بلکتے بے قراروں کا ہجوم جو تمہارے درد کو محسوس کر کے رو پڑیں غم تمہارے بانٹتا ہے غمگساوں کا ہجوم پھر بھی لگتا ہے مجھے کہ رازداں کوئی نہیں یوں بظاہر لگ رہا ہے رازداروں کا ہجوم دل سے بھی پوچھا ذرا، کہتا ہے کیا؟ کیا یہ نہیں؟ گرچہ میں تنہا نہیں ہوں پھر بھی میں تنہا ہی ہوں ہے یہی انساں کی فطرت اس کو چاہت چاہئے بے تکلف دوستوں کی بھی رفاقت چاہئے حلقۂ احباب میں بھی ایک سے تو سب نہیں ہم جلیسوں، ہم نواؤں کی بھی صحبت چاہئے دل ہی ہے آخر تو تھک جاتا ہے بارِ فکر سے ہے طلب اس کی اسے تھوڑی سی فرصت چاہئے نفس کا بھی حق ہے کچھ انسان پہ اس کو بھی تو تھوڑا سا آرام، تھوڑی سی فراغت چاہئے پیار سے مجبور ہو تم، ہم بھی تو مجبور ہیں بس ہمیں بھی تو تمہاری پوری صحت چاہئے دل سے بھی پوچھا ذرا، کہتا ہے کیا؟ کیا یہ نہیں؟ تم نے اپنے چاہنے والوں کا کیوں سوچا نہیں فرض ہے اپنی جگہ اور کام ہے اپنی جگہ میری جاں پر حاجتِ آرام ہے اپنی جگہ بے نیازی حسن کی تو دہر میں مشہور ہے پھر بھی میرے عشق پر الزام ہے اپنی جگہ ہے ترے حرفِ تسلی کا بھی اک اپنا مقام میرے دل میں کثرت اوہام ہے اپنی جگہ کاش ہم بھی اہتمام گریۂ شب کر سکیں گو دعا برلب، بہ ہریک گام ہے اپنی جگہ میں نے اپنے دل سے جو پوچھا تو کہتا ہے یہی تم سے بھی تو حق محبت کا ادا ہوتا نہیں گِرد اپنے اتنا پختہ نہ حصارِ ذات ہو میری باتیں بھی سنو! مجھ سے بھی دل کی بات ہو کب کہا میں نے کہ نہ محبوب سے اپنے ملو دن کا کچھ حصہ مجھے دو نام اُس کے رات ہو مسکراہٹ کی بھی کچھ بجلی چمکنی چاہئے یہ بھی کیا کہ بس فقط اشکوں کی ہی برسات ہو پھر وہی رمزیں، وہی گھاتیں، وہی چُہلیں چلیں پھر مری جھولی میں تیرے پیار کی سوغات ہو دل سے بھی پوچھا ذرا، کہتا ہے کیا؟ کیا یہ نہیں؟ کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ117۔118

28۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کیلئے دعائیہ نظم

پوشیدہ تجھ سے کوئی ہمارا نہیں ہے راز سینے بھرے ہیں سوز سے دل ہیں بہت گداز رحمت کی آس میں ہوئے دستِ دعا دراز اِک نظرِ التفات سے مولا ہمیں نواز آئے ہیں در پہ چاک گریباں کئے ہوئے سینوں میں ایک حشر بپا، لب سیئے ہوئے ہر آن ہے لپیٹ میں اپنی لئے ہوئے افکار کی تپش ہمیں احساس کا گداز کٹ جائے گی کبھی نہ کبھی رات ہی تو ہے اِک عارضی یہ تلخئ حالات ہی تو ہے تیرے سوا ہے کون تری ذات ہی تو ہے مشکل کشا، مجیبِ دعا، ربِّ کارساز خدمت میں پیش کرتے ہیں صبر و رضا کے پھول اہلِ وفا کی ساری خطاؤں کو جائیں بھول جیسی بھی جس طرح کی بھی ہیں کیجئے قبول میری دعائیں ، میری عبادت ، مری نماز پھیلائے جھولیاں ترے در پہ ہیں آئے آج بندے ہیں ہم تو تیرے ہی ، رکھ لے ہماری لاج تیرے ہی پاس ہے مرے ہر کرب کا علاج چارہ گری کا کوئی کرشمہ اے چارہ ساز کیسا تفکرات کا پھیلا ہے سلسلہ پیش آگیا ہے راہ میں اک اور مرحلہ ربِّ کریم شانِ کریمی کا واسطہ پہلی سی ڈال پھر وہی اِک نِگہ دلنواز جاؤں کہاں کہ میرا تو ہے ایک ہی خدا تو ہی طبیب و چارہ گر و مالکِ شفاء ہونٹوں پہ میرے آج تو ہے بس یہی دعا آقا مرے بخیر رہیں عمر ہو دراز کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ119۔123 29۔ یہ تم نے کیا کِیا جاناں، یہ تم نے کیا کِیا جاناں یہ تم نے کیا کِیا جاناں! یہ تم نے کیا کِیا جاناں! ابھی تو لوٹ کر آنے کا وعدہ بھی نبھانا تھا ابھی تو شہر کی گلیوں میں بھی پھرنا پھرانا تھا ابھی تو اپنی بستی کے گلی کوچے سجانا تھا ابھی تو ہجر کے ماروں کی بھی ڈھارس بندھانا تھا ابھی تو شعر کہنے تھے ابھی تو گنگنانا تھا ابھی تو آنسوؤں کے ساتھ ہم نے مسکرانا تھا ابھی تو مل کے ہم نے پیار کے نغمات گانے تھے ابھی تو دل کے سارے داغ بھی تم کو دکھانے تھے جو مثل ریگ ہاتھوں سے ہیں نکلے کیا زمانے تھے یہ تم نے کیا کیا جاناں! یہ تم نے کیا کِیا جاناں! ابھی تو رُوبرو ہم نے ملاقاتیں بھی کرنی تھیں ابھی تو تم سے دل کی کتنی ہی باتیں بھی کرنی تھیں ابھی تو ناز اٹھوانے، مداراتیں بھی کرنی تھیں ابھی اہل وفا نے نذر سوغاتیں بھی کرنی تھیں ابھی تو میری جاں ہم کو دعاؤں کی ضرورت تھی ابھی تو دان تم نے ہم کو خیراتیں بھی کرنی تھیں ابھی تو تشنگی دل کی مرے بجھنے نہ پائی تھی ابھی تو پیار کی کچھ اور برساتیں بھی کرنی تھیں تھے اس بستی کے باسی منتظر کہ چاند نکلے گا منور نور سے ہم نے سیاہ راتیں بھی کرنی تھیں ابھی تو چاندنی کو میرے آنگن میں اُترنا تھا یہ تم نے کیا کِیا جاناں! یہ تم نے کیا کِیا جاناں! یہ میری اور تمہاری پیاری بستی، زندہ دل بستی کہ جس کے تم بھی شیدائی تھے جس کی میں بھی شیدا ہوں اچانک ہی خبر ایسی سنی کہ ایسے لگتا ہے کہ جیسے کوئی سایہ ہو گیا ہو یا کوئی جادو اثر سے جس کے ہر ذی روح پتھر بن کے رہ جائے اگر تم دیکھ لیتے حال اس دم اپنی بستی کا تو کتنے دل گرفتہ، کس قدر دلگیر ہو جاتے مرے آنسو تمہارے پاؤں کی زنجیر ہو جاتے اے کاش ایسا ہی ہو جاتا، اے کاش ایسا بھی ہو سکتا نہ بازاروں میں سڑکوں پہ کوئی رونق نہ ہنگامہ ہر اک سو ہُو کا عالم اور سناٹا سا طاری تھا فسردہ صبحیں، غمگیں شامیں اور سہمی ہوئی راتیں تھیں بس سرگوشیوں میں ہولے ہولے کرب کی باتیں فقط بس سسکیوں کی سرسراہٹ تھی فضاؤں میں اداسی رَچ گئی تھی میری بستی کی فضاؤں میں یکا یک دی ندا ہاتف نے ہلچل سی ہوئی پیدا لی اس بستی نے انگڑائی دریچہ دل کا بھی کھولا خدا کے فضل کا سایہ، خدا کے پیار کا جلوہ سبھی اہل وفا کو اہل بینش کو نظر آیا اُفق پہ روشنی ابھری، ستارہ ایک پھر چمکا اُجالے کی کرن نے ہر اندھیرا ختم کر ڈالا ہر اک مضطر کے دل پر اک سکینت سی ہوئی طاری ہر اک کے لب پہ کلمہ ہائے حمد و شکر تھے جاری ''خدا دارم چہ غم دارم خدا داری چہ غم داری'' ''خدا دارم چہ غم دارم خدا داری چہ غم داری'' ١؎ مگر میں کیا کروں جاناں مجھے تم یاد آتے ہو تمہارے ساتھ کتنے چہرے یادوں میں چلے آئے وہ اُجلے چاند چہرے سوچ کر ہی جن کو میرے دل کی نگری میں اُجالا ہو چراغاں ہی چراغاں ہو مری جاں میں کبھی تم کو نہ ہرگز بھول پاؤں گی میں پھر اک بار اپنے عہد کی تجدید کرتی ہوں جو میں نے تم سے باندھا تھا نہ وہ پیمان توڑوں گی میں محبوب حقیقی کا کبھی دامن نہ چھوڑوں گی میں اُس کی قدرت ثانی سے ہرگز منہ نہ موڑوں گی خدا تو فیق دے مجھ کو۔ خدا توفیق دے مجھ کو میں آنے والے کے ہر حکم پر سر کو جھکاؤں گی وفاؤں کے دئیے ہر گام پہ پل پل جلاؤں گی یہ میرا تم سے وعدہ تھا یہ میرا تم سے وعدہ ہے کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ124۔126 30۔ ہم رہے ثابت قدم سب گردشوں کے باوجود بے سبب سی ہے اُداسی رونقوں کے باوجود دل میں تنہائی ہے اُتری دوستوں کے باوجود ہجر کا دور گراں اپنی جگہ پر اب تلک وصل کی امید بھی تھی فاصلوں کے باوجود یہ تسلی تو تھی اس دنیا کا ہی باسی تو ہے قرب کا احساس سا تھا فرقتوں کے باوجود خوف تھا خدشے بھی تھے فکریں بھی اندیشے بھی تھے لیک مایوسی نہیں تھی وسوسوں کے باوجود کیا ہوا کہ یک بیک دامن چھڑا کے چل دیا مڑ کے بھی دیکھا نہ اتنی چاہتوں کے باوجود کر گیا ہے نقش ہر اِک دل پہ وہ انمٹ نقوش بھول پائے گا نہ گزری ساعتوں کے باوجود کیوں نہ میرے دل میں اس کی چاہ کے جذبے پلیں مجھ کو چاہا جس نے میری خامیوں کے باوجود دل میں ایسے بھی اُتر آتے ہیں سنّاٹے کبھی جیسے وہ زندہ ہی نہ ہو دھڑکنوں کے باوجود ذہن ہے سویا ہوا سا نغمگی کی بزم کا آنکھ دھندلائی ہوئی ہے مہ رُخوں کے باوجود وہ گیا کیا رونقِ بزمِ چمن جاتی رہی لذتِ دادِ ہنر، شعر و سخن جاتی رہی شکر للہ کہ وفا کے پھول مرجھائے نہیں ہیں شگفتہ موسموں کی شدتوں کے باوجود جانب منزل رواں ہے اب بھی اپنا کارواں تازہ دم ہے راستے کی سختیوں کے باوجود نامرادی میرے دشمن کا مقدر بن گئی ہاتھ کچھ آیا نہ اس کے کوششوں کے باوجود ان مخالف سمت جاتے قافلوں سے پوچھیئے کیوں بھٹکتے پھر رہے ہیں رہبروں کے باوجود گر خدا کو چھوڑ کر ہو ناخداؤں پر نظر ڈوب جاتے ہیں سفینے ساحلوں کے باوجود جن دِیوں میں پڑتا رہتا ہے خلوصِ دل کا تیل وہ دِیے بجھتے نہیں ہیں آندھیوں کے باوجود گردشِ افلاک بھی ہم کو ہلا پائی نہیں ہم رہے ثابت قدم سب گردشوں کے باوجود یہ سہاگن بن پیا کے رہ نہیں سکتی کبھی پھر کوئی محبوب دل تسخیر کرنے آگیا ایک لمحے کے تعطل میں خلا پیدا ہوا پھر نیا اِک باب وہ تحریر کرنے آگیا کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ131

32۔ قطعات بروفات ۔ حضرت سیّدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ

بابِ روحانیت کا وہ روشن ورق جس میں تابندہ تاریخ محفوظ تھی جس نے ہر سو بکھیرے تھے دُرِّعدن اس نے خاموشیوں کی رِدا اوڑھ لی اس کی شب زندہ داری کی برکات سے کتنے غمگیں دلوں کو سکوں مل گیا وہ مبشّر بھی تھی وہ مبارک بھی تھی عمر بھر اُس کا فیضان جاری رہا شام ڈھلتی گئی دن گزرتا گیا زندگانی کا سورج پگھلتا گیا زندگی موت کی گود میں دیکھ کر دل سلگتا رہا، کرب بڑھتا گیا کرب و تکلیف کی شِدّتیں مٹ گئیں رُوحِ معصوم کو اب قرار آگیا ہجر کی تلخیاں جو فزوں ہوگئیں اُس کو لینے بہشتی سوار آگیا کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ132۔133 33۔ حضرت سیّدہ امۃ الحفیظ بیگم صا حبہؓ کی یاد میں دُخترِ احمد، مسیحِ پاک کی لختِ جگر ہوں ہزاروں رحمتیں اس کی مبارک ذات پر پاک طینت، باصفا، عالی گُہر،'' دُختِ کِرام'' سیّدہؓ کی جان، مہدی ؑ کی حسیں نُورِ نظر ذات جس کی عظمتِ اسلاف کا پَر تَو لئے وہ کہ جو تھی گلشنِ احمد کا اک شیریں ثمر ہستیاں ہوتی ہیں کچھ ایسی کہ جب رخصت ہوں وہ ساتھ اُن کے اِک مکمّل دَور ہے جاتا گزر یہ نشانی بھی مرے محبوب کی رخصت ہوئی دیکھنا چاہے گی پر نہ دیکھ پائے گی نظر اُس سے مل کر بھی بہت تسکین پا جاتے تھے لوگ فرقتِ آقا کے زخموں کو وہ کچھ دیتی تھی بَھر وار کچھ ایسا اجل کا تھا کہ یکدم گِر گیا باردار و خوبصورت، ایک چھتناور شجر ''کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَۃَ الْمَوْت ''ہے قرآن میں ہو کہیں کوئی نہیں ہے موت سے اس کو مفر '' خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں ''١؎ یاد کر کے جن کو میرے چشم و دل آتے ہیں بھر قاعدہ ہے زندگی میں قدر ہم کرتے نہیں بعد میں پھر یاد کرتے ہیں اُنہیں با چشمِ تر جانتے تو سب ہیں کہ یہ زندگی ہے بے ثبات پر نہیں یہ سوچتے کہ اس قدر ہے مختصر! رُوح منزل پہ پہنچ آرام پاجاتی ہے واں ختم ہو جاتا ہے جب اِس زندگانی کا سفر جانے والے چھوڑ جاتے ہیں وہ زخمِ بے نشاں کہ تپک جاتی نہیں سینے سے جن کی عُمر بھر ہے ہمارے پاس تو بس اک دُعاؤں کی سبیل کاش پیدا ہو ہماری بھی دُعاؤں میں اثر ''آسماں تیری لحد پہ نُور افشانی کرے ''٢؎ رحمتِ حق یاں ہماری بھی نگہبانی کرے ١؎ یہ مصرع غالب کا ہے۔   ٢؎ یہ مصرع علامہ اقبال کا ہے۔ کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ134۔135

34۔ حضرت سیّدہ منصورہ بیگم صا حبہ رحمہا اللہ ۔ حرم محترم حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی وفات پر

رابطہ درمیاں سے ٹوٹ گیا اتنے برسوں کا ساتھ چھوٹ گیا سانس کی اک ذرا سی لغزش سے آبلہ زندگی کا پھوٹ گیا عورتوں کی وہ رازدار گئی اور بصد فخر و افتخار گئی میرے آقا کو دے کے گہرا غم میرے آقا کی غمگسار گئی وہ کہ خوددار بھی تھی اور وضعدار بھی تھی اہلِ بینش بھی تھی وہ صاحبِ کردار بھی تھی عمر بھر سایہ بنی جن کا اُنہیں چھوڑ گئی حکمِ حاکم تھا یہی وہ تو وفادار بھی تھی آتشِ ربط و تعلق تو ہوئی ہے خاموش اب تو بس ذہنوں میں یادوں کا دھواں باقی ہے گھر کی عورت سے جو نسبت ہے وہی ختم ہوئی گھر کہاں اب تو فقط ایک مکاں باقی ہے کس کا حال پوچھے گا، کس کو کچھ بتائے گا مضطرب سا بیٹھا ہے اُس کا ہمسفر کیسے ایک وہ نہیں ہے تو اس کے گھر میں سناٹا سُونا سُونا لگتا ہے آج اُس کا گھر کیسے زخم محرومی کے بھر جائیں یہ ممکن تو نہیں پر خدا ان کو بصد رحمت و برکت رکھے اب تو ہونٹوں پہ دعا رہتی ہے یہ شام و سحر میرا مولا میرے آقا کو سلامت رکھے کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ136۔137 35۔ حضرت ّسیدہ آصفہ بیگم صا حبہ رحمہا اللہ کی وفات پر یک بیک کیا ہوا اِک جہاں رو دیا کانپ اُٹھی زمیں، آسماں رو دیا یہ تو محسوس کرنے کی ہی بات ہے جس نے سمجھا یہ سوزِ نہاں رو دیا بات کیسی سُنی دہنِ تقدیر سے جو جہاں تھا بہ قلبِ تپاں رو دیا ہاتھ میں پُھول تھامے تھا بیٹھا ہوا جب وہ کملا گیا باغباں رو دیا جب فنا کا مکمل یقیں ہو گیا حُسن کی دیکھ رعنائیاں رو دیا اُڑ گئی ایک دم بُلبُلِ خوش نَوا خامشی چھا گئی، آشیاں رو دیا ننھی کلیاں بھی ہیں سہمی سہمی ہوئی شاخِ گُل جو کٹی گلستاں رو دیا صبر کی سب کو تلقین کرتا ہؤا گِر کے سجدوں کے وہ درمیاں رو دیا دل تو آخر ہے دل یہ تو تڑپے گا ہی جب بڑھیں اس کی بے تابیاں رو دیا رکھ کے سینے پہ سنگِ گراں ہنس دیا لے کے دل پہ وہ بارِ گراں رو دیا آتشِ غم کو پانی کی حاجت تو تھی دل سے اُٹھنے لگا جو دُھواں رو دیا ہجر کی تلخیاں اَور بھی بڑھ گئیں ہم یہاں روئے کوئی وہاں رو دیا چُپ رہا جو بھرم ضبط کا رکھ لیا چھیڑ دی جس نے یہ داستاں رو دیا اُس کے دُکھ پہ نہ آنسو بہیں کس طرح میرے ہر دُکھ پہ جو مہرباں رو دیا راہبر حوصلے سب کو دیتا رہا اُس کے دُکھ پہ مگر کارواں رو دیا فرطِ غم سے زباں میری ساکت ہوئی خامہ لرزاں رہا اور بیاں رو دیا کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ138۔140 36۔ حضرت سیدہ چھوٹی آپا صا حبہ کی یاد میں جو پیار تم نے دیا تھا مجھے، وہ ختم ہوا جو مَیں نے تم سے کیا ہے وہ پیار باقی ہے محبتوں کی چھلکتی شراب تھی جس میں صراحی ٹوٹ گئی وہ، خُمار باقی ہے مدُھر سی لَے میں وہ نغمے سُنا گئی ہو تم کہ جن سے کتنے دلوں کو لُبھا گئی ہو تم ذرا سی ٹھیس سے جو ٹوٹ ٹوٹ جاتے ہیں محبتوں سے وہ رشتے نبھا گئی ہو تم تمہاری آنکھ کا سُرمہ تمہاری شرم و حیا تمہارے چہرے کی زینت شفیق سی مسکان تمہاری ذات کی خوبی تمہاری بےَ نفسی تمہارے ماتھے کا جُھومر ہے دین کا عرفان بہت ہیں جن کو کہ چلنا سکھادیا تم نے جو لڑکھڑایا کوئی اس کو بڑھ کے تھام لیا نہ لب پہ کوئی شکایت نہ دل میں کینہ تھا ہمیشہ خُلق و مروّت سے تم نے کام لیا تمہارے بعد بھی ہر کام ہو رہا ہے مگر تمہاری یاد کا سایہ بھی ساتھ چلتا ہے رفاقتوں کے سفر پہ نظر جو پڑتی ہے وفورِ سوز سے سینہ مرا پگھلتا ہے خود اپنے ہاتھ سے تم نے جنہیں سنوارا تھا وہ دلنواز فضائیں سلام کہتی ہیں ہمیشہ تم نے ہمیں دی سلامتی کی دُعا تمہیں ہماری دعائیں سلام کہتی ہیں ہر اک کی شادی غمی میں دیا ہے تم نے ساتھ جہاں تلک بھی ہوا سب کے کام آتی رہیں تمام عمر کسی سے نہ کی حقوق کی بات تمام عمر فرائض ہی تم نبھاتی رہیں ہو کس طرح سے اطاعت گزاریوں کا شمار تمہارا ہر قدم اُ ٹھا فقط امام کے ساتھ خُدا کرے کہ وہاں بھی تم اُن کے ساتھ رہو تمہارا نام ہے منسوب جن کے نام کے ساتھ کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ141۔143 37۔ یہ مرا باپ ہے یہ جو تصویر ہے آپ کے سامنے یہ مرا باپ ہے ایک دہقاں ہے یہ کام کرکر کے ظالم کڑی دھوپ میں رنگ جھلسا ہوا پاؤں پہ دھول کپڑے بھی ہیں ملگجے کھیتی باڑی، مشینیں ہیں دو مشغلے خدمتِ دین میں بھی یہ مشغول ہے یہ مرا باپ ہے دوستوں کے لئے ٹھنڈے اور میٹھے پانی کی جوئے رواں پَر غضب میں جو آئے تو آتش فشاں اُس کی فطرت میں شعلہ بھی شبنم بھی ہے خوش نوائی بھی ہے، لہجہ برہم بھی ہے لیک اک بات ہے کوئی شکوہ نہیں ہے شکایت نہیں دل میں کینہ نہیں عیب جوئی نہیں، نکتہ چینی نہیں بدگمانی نہیں، بے یقینی نہیں، اُس میں شفقت بھی ہے سخت گیری بھی ہے خُوئے سلطانی شانِ فقیری بھی ہے حوصلہ بھی ہے اس میں شجاعت بھی ہے بے نیازی بھی، رنگِ محبت بھی ہے وضع داری بھی ہے خاکساری بھی ہے تمکنت بھی ہے اور انکساری بھی ہے خیر خواہی بھی ہے بہرِ خلقِ خدا بہرِ دینِ خدا جانثاری بھی ہے عزم اور حوصلے میں تو یہ فردہے آ ہنی مرد ہے یہ مرا باپ ہے کوئی کرتا ہے کیا؟ یہ نہیں جستجو کوئی کہتا ہے کیا دل پہ لیتا نہیں محوِ ماضی نہیں حال میں مست ہے بود کا غم نہیں قائلِ است ہے فکرِ فروا نہ فکرِ کم و بیش ہے مردِ درویش ہے یہ مرا باپ ہے کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ144۔147 38۔ میرے ابّا دُعا کے کوئی جال یاں بُن رہا تھا کوئی پُھول اُمید کے چُن رہا تھا ''زمانہ بڑے شوق سے سُن رہا تھا تمہیں سوگئے داستاں کہتے کہتے'' ابھی تُم سے سننی تھیں چاہت کی باتیں مسیحِ زماں سے محبت کی باتیں خِلافت سے گہری عقیدت کی باتیں خُدا کی، خُدا کی جماعت کی باتیں اخوّت کے قِصّے مروّت کی باتیں اسیری کی، ذوقِ شہادت کی باتیں ابھی تم سے کرنی تھیں کتنی ہی باتیں ابھی کتنے قصّے سنانے تھے تم کو ابھی راز کتنے بتانے تھے تم کو ابھی کتنے خاکے دکھانے تھے تم کو لطائف بہت سے سنانے تھے تم کو مجھے یاد آتی ہیں ماضی کی باتیں کبھی اپنی بانہوں میں جُھولا جھلایا کبھی پیار سے ساتھ اپنے لگایا کبھی دے کے تھپکی مجھے دی تسلّی کبھی مسکرا کے مرا دل بڑھایا تمہی میری ڈھارس بندھاتے رہے ہو تمہی ناز میرے اُٹھاتے رہے ہو تمہی مان میرا بڑھاتے رہے ہو کبھی مجھ سے سنتے رہے داستانیں کبھی اپنی باتیں سناتے رہے ہو مجھے یاد آتی ہیں کتنی ہی باتیں تمہیں ایک طُرفہ طبیعت ملی تھی انوکھی، نرالی سی فطرت ملی تھی خلافِ توقع، ملی عمر تم کو خلافِ توقع، امارت ملی تھی الٰہی بشارت کے مصداق ٹھہرے بفضل خدا یہ سعادت ملی تھی مسیحِ زماں سے محبت تھی تم کو تو اس کی جماعت کی غیرت بہت تھی اطاعت کے جذبہ سے سرشار تھے تم خلافت سے تم کو عقیدت بہت تھی ہمیشہ لبوں پہ رہی مسکراہٹ شگفتہ مزاجی، بشاشت بہت تھی تھی گہری نظر اور رائے تھی صائب بفضل الٰہی بصیرت بہت تھی ارادے تھے پختہ امنگیں جواں تھیں بہت حوصلہ، استقامت بہت تھی زمانے کا ڈر تھا، نہ دنیا کا لالچ غناء تھی بہت اور قناعت بہت تھی کبھی تھک کے راہوںمیں ماندہ نہ دیکھا کہ پیرانہ سالی میں ہمت بہت تھی نڈر تھے بہت اور بے باک تھے تم تھی جرأت بہت اور شجاعت بہت تھی مجھے تھی تمہاری دعاؤں کی حاجت ابھی تو تمہاری ضرورت بہت تھی مجھے یاد آتی ہیں کتنی ہی باتیں سدا بے بسوں کو سہارا دیا پر کبھی بات کی اور نہ احساں جتایا کسی سے شکایت نہ کوئی گلہ تھا خُدا ہی تمہاری طلب تھا، صلہ تھا سبھی پوچھتے ہیں کہ آخر ہوا کیا کہ یکدم ہی سب سے نگاہیں چرا کر ہر اک ہاتھ سے ہاتھ اپنا چھڑا کر چلے کیوں گئے بے گماں، چپکے چپکے مَیں اب کیا بتاؤں؟ جواں ہمتی میں کوئی شک نہیں پر تھا آخر کو دل دردِ ہجراں کا مارا بہت ہی سنبھالا، سنبھل نہ سکا رُک گیا یک بیک ناگہاں، چلتے چلتے کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ148 39۔ قطعات بروفات سید میر داؤد احمد صاحب میرے دل میں عجب سی اک کسک محسوس ہوتی ہے مرے احباب جب ماضی کے افسانے سناتے ہیں وہ جن میں زندگی کی اک لہر موجود ہوتی تھی مجھے اکثر تمہارے قہقہے وہ یاد آتے ہیں گزاری عمر ساری خدمت دین متیں کر کے کہ تم آباء سے اپنے ایک نسبت خاص رکھتے تھے خلافت اور جماعت سے بہت گہرا تعلق تھا شریعت اور روایت کا نہایت پاس رکھتے تھے یہ کیسی بے بسی کا دور آج آیا ہے کہ خود بھی آ نہ سکوں تم کو بھی بلا نہ سکوں تمہاری یاد کا وہ نقش ہے مرے دل پر کہ تم کو بھولنا چاہوں بھی تو بھلا نہ سکوں کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ149۔150 40۔ مَیں ہُوں غلامِ قادرِ مطلق کیا کیا ادا و ناز دکھاتا ہوا گیا کتنے دلوں پہ برق گراتا ہوا گیا ماں باپ کا جہان میں وہ نام کر گیا اُن کی جبیں پہ چاند سجاتا ہوا گیا کم گو بہت تھا کچھ بھی زباں سے کہے بغیر وہ داستانِ عشق سناتا ہوا گیا مسجود سامنے تھا لہو سے وضو کیا ہر قطرہ اپنے خوں کا بہاتا ہوا گیا ہر قطرہ خون کا گل و لالہ میں ڈھل گیا ہر گام پہ گلاب کِھلاتا ہوا گیا وہ اپنی ہم سفر کو بڑی چھوٹی عمر میں اک معتبر وجود بناتا ہوا گیا کتنے دلوں کی ساتھ وہ تسکین لے گیا اور ساتھ ہی سکوں بھی دلاتا ہوا گیا اس خاندان کا وہ حسیں، دلربا سپوت اس کا وقار و مان بڑھاتا ہوا گیا مَیں ہُوں غلامِ قادرِ مطلق اُسی کا ہوں ہر حال میں یہ عہد نبھاتا ہوا گیا اک یارِ دلربا کے لبوں پہ ہیں اُس کے وصف وہ رشک کے چراغ جلاتا ہوا گیا گل رنگ پتیاں سی بکھرتی چلی گئیں شہرِ وفا کی راہ سجاتا ہوا گیا کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ151۔152 41۔ خلا فت خدا کا یہ احسان ہے ہم پہ بھاری کہ جس نے ہے اپنی یہ نعمت اتاری نہ مایوس ہونا گھٹن ہو نہ طاری رہے گا خلافت کا فیضان جاری نبوت کے ہاتھوں جو پَودا لگا ہے خلافت کے سائے میں پْھولا پَھلاہے یہ کرتی ہے اس باغ کی آبیاری رہے گا خلافت کا فیضان جاری خلافت سے کوئی بھی ٹکر جو لے گا وہ ذلّت کی گہرائی میں جا گرے گا خدا کی یہ سنّت ازل سے ہے جاری رہے گا خلافت کا فیضان جاری خدا کا ہے وعدہ خلافت رہے گی یہ نعمت تمہیں تا قیامت ملے گی مگر شرط اس کی اطاعت گزاری رہے گا خلافت کا فیضان جاری محبت کے جذبے، وفا کا قرینہ اُخوُّت کی نعمت، ترقی کا زینہ خلافت سے ہی برکتیں ہیں یہ ساری رہے گا خلافت کا فیضان جاری الٰہی ہمیں توُ فراست عطا کر خلافت سے گہری محبت عطا کر ہمیں دکھ نہ دے کوئی لغزش ہماری رہے گا خلافت کا فیضان جاری کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ153۔155 42۔ دعا اے خدا قادر و کریم مرے مہرباں میرے اے رحیم مرے اے مرے مولا اے سمیع و بصیر اے کہ آقا مرے نعیم مرے کس طرح تجھکو چھوڑ سکتی ہوں میرے شہ رگ سے بھی قریب ہے تو خالق و باری و مصّور ہے عالم الغیب ہے مجیب ہے تو ہو ادا کیسے حقِّ شکروسپاس جان و دل بھی ہوں گو نثار مرے میرے عِصیاں کا کچھ شمار نہیں مجھ پہ احساں ہیں بے شمار ترے میرے ہونٹوں کو تابِ گویائی میری آنکھوں کو نور بخشا ہے مجھکو سب نعمتیں عطا کر کے میرے دل کو سرور بخشا ہے تیری درگہ میں پیش کرنے کو کوئی نذرانہ میرے پاس نہیں تیری رحمت ہو گر نہ شاملِ حال میری بخشش کی کوئی آس نہیں میرے دامن میں اے غفور و رحیم چند آنسو ہیں چند آہیں ہیں ایک بارِ گناہ سینے پر۔۔۔۔۔۔! اور ندامت بھری نگاہیں ہیں میری کم مائیگی پہ بھی تو نے مجھ سے ایسا سلوک رکھا ہے اِس جہاں کے دہکتے دوزخ میں میں نے جنت کا لطف چکھا ہے اے میری جان تجھ سے آج کے دن اک یہی التجا میں کرتی ہوں تو نہ بس ساتھ چھوڑیو میرا تجھ سے یہ ہی دعا میں کرتی ہوں حشر کے روز جب فرشتے کہیں اُس کا یہ جُرم ہے خطا ہے یہ تب مری جان ہنس کے کہہ دینا میرے بندے کی اک ادا ہے یہ کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ156۔159 43۔ تضمین بر اشعار ۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام آج پھر تثلیث نے توحید سے کھائی یہ مار رفتہ رفتہ چَھٹ رہا ہے شرک و بدعت کا غبار بتکدے سے دہر کے اُٹھتی ہے رَہ رہ کے پکار ''اے خدا ، اے کارساز و عیب پوش و کردگار اے میرے پیارے ، میرے محسن ، مرے پروردگار'' دین احمدؐ پھر سے زندہ ہو گیا دنیا میں آج ''احمد ثانی نے رکھ لی احمدِ اوّل کی لاج'' علمِ قرآں کا ہوا پھر ذہنِ انسانی پہ راج ''آ رہا ہے اس طرف احرارِ یورپ کا مزاج نبض پھر چلنے لگی مُردوں کی ناگہہ زندہ دار'' معتبر ہونے لگی پھر زندگانی کی اساس مُردہ روحوں میں جنم لینے لگی جینے کی آس پا گئے پھر گوہرِ تابندہ کو جوہر شناس ''کس طرح تیرا کروں اے ذوالمِنَن شکر و سپاس وہ زباں لاؤں کہاں سے جس سے ہو یہ کاروبار'' بڑھ کے پھر اہلِ جہاں کو دعوتِ اسلام دو تشنہ رُوحوں کو شرابِ معرفت کے جام دو نفرتوں کی محفلوں میں پیار کے پیغام دو ''گالیاں سُن کے دعا دو پا کے دُکھ آرام دو کِبر کی عادت جو دیکھو تم دکھاؤ انکسار'' رحمتیں برسا رہا ہے آج بھی ربِّ رحیم فضل اپنے کر رہا ہے ہر گھڑی مولا کریم آج بھی دکھلا رہا ہے وہ صراطِ مستقیم ''وہ خدا اب بھی بناتا ہے جسے چاہے کلیم اب بھی اُس سے بولتا ہے جس سے وہ کرتا ہے پیار'' ایک جانب دشمنانِ دیں اور اُن کے دام ہیں افتراء ہے ، کذب ہے ، بہتان ہیں ، الزام ہیں دوسری جانب تیری رحمت کے جلوے عام ہیں ''تیرے اے مرے مربی کیا عجائب کام ہیں گرچہ بھاگیں جبر سے دیتا ہے قسمت کے ثمار'' اُس کے دشمن خوار ہیں وہ کامیاب و ارجمند پستیاں پہنچا سکیں کیا اہلِ رفعت کو گزند حُسنِ دیں سے منحرف، آلالُشِ دنیا پسند ''سر پہ اِک سورج چمکتا ہے مگر آنکھیں ہیں بند مرتے ہیں بے آب وہ اور در پہ نہر خوشگوار'' دیکھتے ہو تم ہمارے ساتھ کیا نصرت نہیں؟ ہم پہ کیا فضلِ خدا یا سایہ رحمت نہیں؟ جو نہ حاصل ہو ہمیں ایسی کوئی نعمت نہیں؟ ''صاف دِل کو کثرتِ اعجاز کی حاجت نہیں اِک نشاں کافی ہے گر دل میں ہو خوفِ کِردگار'' چشمۂِ صافی رواں ہے کر بھی لے اب دل کو صاف عجز کی راہوں کو اپنا ، چھوڑ دے لاف و گزاف ہیچ ہیں ورنہ نماز و روزہ و حج و طواف ''یہ گماں مت کر کہ یہ سب بدگمانی ہے معاف قرض ہے واپس ملے گا تجھ کو یہ سارا ادھار'' اے خدا! ہر چیز میں جلوہ تیرا موجود ہے تُو ہے لامحدود بس باقی سبھی محدود ہے تیری خوشنودی ، تیری چاہت مرا مقصود ہے اِس جہاں میں خواہش آزادگی بے سُود ہے اک تیری قیدِ محبت ہے جو کردے رستگار'' کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ160۔162 44۔ حدیثِ مبارک سُنن دار قطنی ہے یہ کہہ رہی سنو مجھ سے آکے حدیثِ نبیؐ ہمارے نبیؐ کا جو فرمان ہے ہمارا تو اس پہ ہی ایمان ہے رسولِ خدا نے یہی تھا کہا کہ اِک مردِ فارس یہاں آئے گا جو ایماں ثریا پہ بھی جائے گا زمیں پہ اُسے پھر یہ لے آئے گا تمہارا یہ مہدی ہے ہم میں سے ہی وہ ہوگا یقینا مرا اُمتّی مسیحائے دوراں وہ عیسیٰ مثیل ہے یہ ُاس کے آنے کی روشن دلیل وہ آئے گا تو چاند گہنائے گا اُسے دیکھ سورج بھی چُھپ جائے گا اُسے جا کے تم میرا کہنا سلام کہ ہو گا وہی آخریں کا امام حدیثِ مبارک یہ پوری ہوئی اُسے آئے بھی اِک صدی ہو گئی وہ آیا تو سورج بھی چُندھیا گیا اُسے دیکھ کر چاند شرما گیا زمیں کے یہ پیچھے سمٹنے لگا تو وہ چاند کی اوٹ میں ہو گیا دھرو کان گر ہے ذرا بھی وقوف کہ کہتے ہیں کیا یہ کسوف و خسوف چلو جلد بڑھ کے اطاعت کرو مسیحِ محمدؐ کی بیعت کرو اسے دو پیارے نبیؐ کا سلام یہی تو تھا منشائے خیرالانام صَلِّ عَلٰی نَبِیّنَا صَلِّ علٰی مُحَمّدٍ صَلِّ عَلٰی امِامِنا صَلِّ علٰی مُحَمَّدٍ صَلِّ عَلٰی مَسِیْحِنا صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ صَلِّ عَلٰی نَبِیّنَا صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ163۔165 45۔ تضمین بر اشعار ۔ حضرت مصلح موعودؓ آآ! کے تجھے حال ذرا اپنا سنائیں جو دل پہ ہمارے ہیں لگے زخم دکھائیں جلووں کو ترے دیکھ کے تسکین بھی پائیں ''آآ! کہ تیری راہ میں ہم آنکھیں بچھائیں آآ! کہ تجھے سینے سے ہم اپنے لگائیں'' آپ آئیں تو پھر جھوم اُٹھیں ساری فضائیں آپ آ کے زمانہ سے تکدّر کو مٹائیں آپ آ کے یہ نفرت کے بھی ایوان گرائیں ''آپ آ کے محمدؐ کی عمارت کو بنائیں ہم کفر کے آثار کو دنیا سے مٹائیں'' یوں امتحاں اتنا نہ کڑا لیجئے آقا نہ میری خطاؤں کی پکڑ کیجیئے آقا بس اپنے ہی سائے میں پناہ دیجئے آقا ''رحمت کی طرف اپنی نظر کیجئے آقا جانے بھی دیں کیا چیز ہیں یہ میری خطائیں'' ہم لوگ ہمیشہ سے ہیں ہمرازِ تلطّف جرأت ہے مری تیرا ہی اعجازِ تلطّف یہ قول ہے اُس کا تھا جسے نازِ تلطّف ''میں جانتا ہوں آپ کا اندازِ تلطّف مانوں گا نہ جب تک کہ میری مان نہ جائیں'' اے میرے خدا نورِ فراست بھی عطا کر ہم پیار کا چرچا کریں نفرت کو مٹا کر وحدت کی طرف لائیں زمانے کو بلا کر ''ربوہ کو تیرا مرکزِ توحید بنا کر اِک نعرہ تکبیر فَلک بوس لگائیں'' اے کاش کہ یہ شہر رہے خُلد بداماں ہو دَورِ صحابہ کا ہر اک نقش نمایاں اس بستی کا ہر شخص ہے اس بات کا خواہاں ''جس شان سے آپ آئے تھے مکّہ میں مری جاں اک بار اُسی شان سے ربوہ میں بھی آئیں'' اے کاش کہ توفیقِ عبادت بھی عطا ہو اور یوں ہو کہ مقبول ہر اک میری دعا ہو اللہ کرے ہم پر سدا فضلِ خدا ہو ''ربوہ رہے کعبہ کی بڑائی کا دعاگو کعبے کو پہنچتی رہیں ربوہ کی دعائیں'' کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ166 46۔ قطعات مِری زباں پہ تو قدغن لگائے بیٹھے ہیں میرا خیال گرفتار کس طرح ہوگا میں مطمئن ہوں کہ میرا خدا محافظ ہے وہ فکر میں ہیں نیا وار کسطرح ہو گا کروگے کس کی پرستش بتاؤ کچھ تو کہو قدم قدم پہ خداؤں نے ڈیرے ڈالے ہیں کروگے ایک کو راضی تو دوسرا ناراض ہزاروں بت ہیں یہاں سینکڑوں شوالے ہیں نہ جاں کی نذر گزاری نہ دل کا نذرانہ ادا کیا نہ کوئی حق بندگی ہم نے نہ سوزِ عشق ہے سینے میں نہ خلوص و یقیں گزار دی یُونہی بے کیف زندگی ہم نے ہو نغمۂ پیرا بھلا کیسے عندلیبِ چمن کہ ُاس کے نغموں پہ زاغ و زغن کے پہرے ہیں نہ رنگ و بُو ہے کلی میں نہ باس پھولوں میں خلوص پہ تو یہاں مکر و فن کے پہرے ہیں کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ167۔168 47۔ کرشنا تھا تمہارا جو اِسی نگری میں رہتا تھا مَیں پھر پیتم کے چرنوں پر سراپنادَھرنے آئی ہوں پَوِترت جَل سے نینوں کی گگریا بھرنے آئی ہوں پڑی ہے دُھول من پہ میرے اس کو صاف کر دو نا دمکتے موتیوں سے تم مِری جھولی کو بھر دو نا پھٹے کپڑوں پہ اپنے سُچے موتی جڑنے آئی ہوں پَوِترت جَل سے نینوں کی گگریا بھرنے آئی ہوں چلے آؤ مرے من میں یہاں بسرام کر لو نا بچا ہے جو مرا جیون وہ اپنے نام کر لو نا مَیں اِس بستی میں رہ کے کچھ تپسیّا کرنے آئی ہوں پَوِترت جَل سے نینوں کی گگریا بھرنے آئی ہوں مرے نینوں میں کاسے ہیں مرا ہر دے سوالی ہے دیالو ہو دیا کر دو مرا کشکول خالی ہے بڑی آشا لئے مَیں مَن کی جھولی بھرنے آئی ہوں پَوترت جَل سے نینوں کی گگریا بھرنے آئی ہوں کٹھن راہیں ہیں ، اندھیارا ہے ، منزل کیسے پاؤں گی گھڑا کچا ہے میرا کیسے ندیا پار جاؤں گی بچالو ڈوبنے سے تم سے بِنتی کرنے آئی ہوں پَوترت جَل سے نینوں کی گگریا بھرنے آئی ہوں پکڑلو ہاتھ میرا تم مجھے شکتی عطا کر دو مجھے تم شانتی دے دو مجھے مکتی  عطا کر دو تمہارے آسرے چڑھتی ندی میں ترنے آئی ہوں پَوترت جَل سے نینوں کی گگریا بھرنے آئی ہوں مرے اللہ ، مرے ایشر ، مرے بھگوان تم ہی ہو دھرم ، دھن ، دین ، دولت ، آتما ، جِند جان تم ہی ہو سجانے کو یہ مُورت من کا مندر گھڑنے آئی ہوں پَوترت جَل سے نینوں کی گگریا بھرنے آئی ہوں کرشنا تھا تمہارا جو اسی نگری میں رہتا تھا تمہارے گُن ہی گاتا تھا ، تمہی کے گیت کہتا تھا مَیں وہ اشلوک سُننے وہ کویتا پڑھنے آئی ہوں پَوترت جَل سے نینوں کی گگریا بھرنے آئی ہوں کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ169۔171 48۔ وہ ایک لمحہ میں کرب کے کیسے مرحلوں سے گزر رہی ہوں یہ کون جانے جو چاند ڈوبا، ہؤا اندھیرا تو ظلمتوں کے پیامبر بھی لپک کے آئے وہ چاہتے تھے کہ چاند نگری کے باسیوں کو بھی ظلمتوں کے سپرد کر دیں مگر یکایک چھٹا اندھیرا افق پہ کرنیں ہوئیں ہویدا وہ خوف اور وسوسے مٹے جو ہوئے تھے پیدا عجیب سا وقت آگیا تھا! عجب دوراہے پہ زندگی تھی! نئی رتوں کی تھی چاہ دل میں گئی رتوں کا خیال بھی تھا جہاں جدائی کا کرب گہرا وہیں پہ شوقِ وصال بھی تھا عجب دوراہے پہ زندگی تھی خوشی بھی دل کو ملال بھی تھا عجیب سا وقت آ گیا تھا! عجیب حالت تھی اہلِ دل کی ! میں کرب کے کیسے مرحلوں سے گزر رہی ہوں یہ کون جانے وہ ایک لمحہ نہ عمر بھر میں کبھی فراموش کر سکوں گی وہ چاند کے ڈوبنے کا لمحہ فروغِ تیرہ شبی کا لمحہ وہ چیختی زندگی کا لمحہ وہ ڈوبتی روشنی کا لمحہ وہ روح کی بے حسی کا لمحہ لہو کی یخ بستگی کا لمحہ وہ نفس کی سر کشی کا لمحہ اَنا کی بے رہروی کا لمحہ وہ کم نگاہی کا کج روی کا وہ ذہن و دل کی کجی کا لمحہ شعور کی بے خودی کا لمحہ وہ لغزشِ آگہی کا لمحہ وہ کرب کا ابتلا کا لمحہ وہ خوف کا بے بسی کا لمحہ وہ کسمپرسی کا بے کسی کا تھکن کا درماندگی کا لمحہ بشر کی بے مائیگی کا لمحہ ہماری بے چارگی کا لمحہ سکوتِ ساقی گری کا لمحہ وہ پیاس کا تشنگی کا لمحہ وہ ایک لمحہ تو زندگی پر محیط سا ہو کے رہ گیا ہے! کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ172۔174 49۔ جو الٰہی جماعت کی تقدیر ہیں جو الٰہی جماعت کی تقدیر ہیں ہم پہ بھی تو وہی ابتلاء آ گئے اہلِ ایماں کو کوئی مٹائے گا کیا دار پہ چڑھ کے جو زندگی پا گئے ہم نے ہر ظلم کا وار ہنس کے سہا یوں کہ ظالم پریشان ہوتا گیا جتنے ایماں پہ پہرے بٹھائے گئے اور بھی پختہ ایمان ہوتا گیا میرا ایماں جو سینے میں پنہاں رہا اب اُجاگر ہوا ہے خدا کی قسم اب مرے عشق کا راز مجھ پہ کھلا مجھ کو حُبِّ رسولِ خدا کی قسم اپنی جاں بھی اگر پیش کرنی پڑے اُس کی خدمت میں یہ بھی ہے کم دوستو اپنی تاریخ کے اِس اہم باب کو خونِ دل سے کریں گے رقم دوستو یہ خرافات ہم کو ڈرائیں گی کیا گرم و سردِ زمانہ چشیدہ ہیں ہم آتشِ عشق احمدؐ ہے بھڑکی ہوئی روح و جاں سوختہ دل تپیدہ ہیں ہم ظلم کے خم لنڈھا کے وہ مخمور ہیں اُن کی آنکھوں میں رنگِ خمار آ گیا ابتلاء سے گذر کے مگر دیکھ لو ہم پہ بھی تو نرالا نکھار آ گیا لے کے نامِ نبی لے کے نامِ خدا تم خلائق کو یونہی ستاتے چلو ہم قدم تیز سے تیز کرتے چلیں اور تم رہ میں کانٹے بچھاتے چلو ڈھیل جتنی ملی تم بگڑتے گئے معصّیت کو سِوا سے سِوا کر دیا ہم کئے جائیں گے فرض اپنا ادا فرض تم نے بھی اپنا ادا کر دیا جھوٹ ، کذب ، افتراء ، زِشت خوئی ، کجی کیا اسی پہ ہے دعویءِ عشقِ نبیؐ 'غیرمسلم' کو ہے درد اسلام کا اور 'مسلماں' کا اسلوب کافر گری کبر و نخوت کے پیکر یہ سوچا کبھی ظلم جن پہ کئے ہیں وہ انسان ہیں جن کے سینوں میں عشقِ نبیؐ موجزن جن کے ہونٹوں پہ آیاتِ قرآن ہیں چھین لی ہیں زباں کی تو آزادیاں میرے دل پہ بھی پہرے بٹھاؤ گے کیا خونِ مظلوم سے ہاتھ رنگیں کئے روبرو ربِّ محشر کے جاؤگے کیا وہ مجیب دعا ہے ہمیں ہے یقین یہ کشاکش سکوں میں بدل جائے گی آہِ مظلوم پہنچے گی جب عرش پر تیرگی بھی اُجالے میں ڈھل جائے گی کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ175۔176 50۔ تنظیم گلستان آج پھر شعلہ بداماں ہے فضائے گلشن بلبلیں نوحہ کناں ہیں کہ چمن جلتا ہے آج ہر سمت نظر آتا ہے آہوں کا دھواں جانے کس آگ میں پھر میرا وطن جلتا ہے باغباں کیسے ہیں جن کو یہ خبر تک نہ ہوئی کہ چمن والوں کا صیاد نے کیا حال کیا جن کو گلشن کی سیاست کا بھی کچھ علم نہ تھا ایسے معصوم شگوفوں کو بھی پامال کیا ہم تو جس طرح بنے صبر کئے جاتے ہیں ''جب نہیں بولتا بندہ تو خدا بولتا ہے'' اُس کے رستے میں کٹھن وقت جو سہہ جاتے ہیں اُن پہ اپنے کرم و لطف کے در کھولتا ہے کیسی تنظیم گلستاں ہے؟ اِسے کیا کہیے؟ دیکھتے ہیں جسے تضحیک سے ویرانے بھی باغبانوں سے شگوفوں کی حفاظت نہ ہوئی آشیاں جل گئے لوٹے گئے کاشانے بھی اتنے پھولوں کو مسل کے بھی نہ دل شاد ہوئے اتنی جانوں کا لہو پی کے بھی سیری نہ ہوئی ہم کڑی دھوپ سے بچنے کو یہاں آئے تھے اپنے حق میں تو یہ چھاؤں بھی گھنیری نہ ہوئی امتحاں آتے ہی رہتے ہیں رہ اُلفت میں جذبۂ شوق کو جو اَور ہوا دیتے ہیں اور پھر حسن کی اک چشم کرم کے جلوے ہر کٹھن وقت کو ہر غم کو بُھلا دیتے ہیں میرے اِمروز کا فردا یہ دکھایا کس نے پیار کے نغمے میں ڈوبی یہ نوا کیسی ہے آج پھر کس نے پکارا ہے محبت سے مجھے ''بے مکانی میں یہ دستک کی صدا کیسی ہے'' ١ـ؎ یہ وہی ذات ہے ہم پہ جو رہی سایہ فگن وہی ہستی جو ہر اک غم سے بچا لیتی ہے جس نے ہر حال میں یوں اپنی حفاظت کی ہے جیسے ماں گود میں بچے کو اُٹھا لیتی ہے   ١ ؎ یہ مصرع مکرم صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب کا ہے۔ کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ رنگِ تغزل '' شیر و شکر آمیختہ ہم شعر ہے ہم گیت ہے''

ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ179۔181 51۔ اپنے اعمال نظروں میں پھرنے لگے جب بھی سَر کو جھکایا دُعا کے لئے اپنے اعمال نظروں میں پھرنے لگے جب بھی سَر کو جھکایا دُعا کے لئے اپنی بے مائیگی پہ ندامت ہوئی لفظ ملتے نہیں التجا کے لئے وہ اگر بخش دے تو ہے اس کی عطا ، جانتی ہوں کہ میری حقیقت ہے کیا کوئی دعویٰ کروں یہ نہیں حوصلہ کچھ عمل بھی تو ہو ادّعا کے لئے ذات سے اُن کی ہم جب سے منسوب ہیں اہلِ دُنیا کی نظروں میں معتوب ہیں پر ہمیں تو یہ کانٹے بھی محبوب ہیں ہم ہیں تیّار ہر اک جفا کے لئے پیار اُن کا ہی تو رُوحِ ایمان ہے ، اُن سے نسبت ہی تو اپنی پہچان ہے یہ تعلق نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ، ہم ہیں کوشاں اسی کی بقا کے لئے یوں نہ تضحیک کی ہم پہ ڈالو نظر ، پالیا ہم نے کیا یہ تمہیں کیا خبر ہم تو خوش ہیں ہمارا چناؤ ہؤا معرکہ ہائے کرب و بَلا کے لئے زخم سینوں میں اپنے چھپائے ہوئے ، مسکراہٹ لبوں پہ سجائے ہوئے پیار کی جوت من میں جگائے ہوئے ، جی رہے ہیں اُسی کی رضا کے لئے آزماتا ہے ان کو ہی وہ دوستو! جن کے جذبوں پہ محبوب کو ناز ہو امتحاں میں وہی سرخرو ہو گئے تھے جو تیار ہر ابتلا کے لئے یہ ادائیں غضب کس قدر کر گئیں ، عشق کی شدّتیں اور بھی بڑھ گئیں ناز دکھلا کے ان کا چرانا نظر ، تازیانہ ہے شوقِ لِقا کے لئے ہجر کی تلخیاں کچھ سِوا ہو گئیں ، کُلفتیں فرقتوں کی بَلا ہو گئیں جوت کتنی اُمیدوں کی بجھنے لگی لَوٹ ہی آئیں اب تو خُدا کے لئے وہ مجیبِ دُعا آج بھی ہے مگر ، بات کیا ہے کہ آہیں ہوئیں بے اثر کیا ہمارے یہ جذبے ہی صادق نہیں ، ہاتھ اُٹھتے نہیں یا دُعا کے لئے ہم تو مجبور ہیں اور لاچار ہیں ، کتنی پابندیوں میں گرفتار ہیں وہ تو مختار ہے مالکِ کُل بھی ہے ، بات مشکل ہے کیا کبریاء کے لئے آرزو خوش نصیبوں کی پُوری ہوئی ، اُن کو مولیٰ نے توفیقِ پرواز دی یاں شکستہ پَری ابتلاء بن گئی جذبہ ہائے خلوص و وفا کے لئے جب وہ چاہے گا زنجیریں کٹ جائیں گی ، فاصلوں کی طنابیں سمٹ جائیں گی کام میرے لئے غیر ممکن ہے جو سہل ہے میرے مشکل کُشا کے لئے جو مجسّم تھا رحمت فقط پیار تھا ، جو محبت کا اِک بحرِ زخّار تھا نام پر اس کے یاں ایسی باتیں ہوئیں دل تڑپ اُٹھا اس دلرُبا کے لئے میرے اپنے وطن کے یہ اہلِ قلم جن کو دعویٰ ہے رکھتے ہیں دُنیا کا غم ہو رہا ہے یہاں جو بھی کیا ہے وہ کم ان کے احساسِ دَرد آشنا کے لئے سامنے ان کے خونیں تماشے ہوئے ، بے کفن کتنی بہنوں کے لاشے ہوئے جن کے اسلاف سینہ سپر ہو گئے ، سر سے نوچی گئی اِک رِدا کے لئے نفرتوں کے الاؤ دہکتے رہے ، اور ہر سمت شعلے لپکتے رہے آگ میں فکر و احساس جلتے رہے کہ تھا ایندھن بہت اس چِتا کے لئے امتحاں ٹھیک ہے آزمائش بجا ، پھر بھی انسان کمزور ہے اے خدا کچھ تسلّی تو دے ، کوئی ڈھارس بندھاخاطِرِ قلبِ لرزیدہ پا کے لئے آنکھ نم ، دل پریشاں ، جگر سوختہ ، منتظر ہیں ترے لُطف کے مالکا کب صبا لائے گی مژدۂ جانفزا میری جاں اہلِ شہرِ وفا کے لئے

کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ182۔184 52۔ تھی جلن بے شک مگر تکلیف دِہ چھالا نہ تھا تھی جلن بے شک مگر تکلیف دِہ چھالا نہ تھا سوز ایسا نہ تھا جب تک آبلہ پھوٹا نہ تھا اب تو خود مجھ سے مری اپنی شناسائی نہیں آئینے میں مَیں نے یہ چہرہ کبھی دیکھا نہ تھا وقت کے ہاتھوں نے یہ کیسی لکیریں ڈال دیں ایسے ہو جائیں گے ایسا تو کبھی سوچا نہ تھا موسمِ گُل میں تھا جس ٹہنی پہ پھولوں کا حصار جب خزاں آئی تو اس پہ ایک بھی پتّا نہ تھا پیار کے اک بول نے آنکھوں میں ساون بھر دیئے اِس طرح تو ٹوٹ کے بادل کبھی برسا نہ تھا خامشی سے وقت کے دھارے پہ خود کو ڈال دوں سامنے میرے کوئی اس کے سوا رستہ نہ تھا کوئی مجھ کو نہ سمجھ پایا تو کیا شکوہ ، مگر آپ سے تو میرے احساسات کا پردہ نہ تھا درمیاں میں اجنبیت کی تھی اک دیوار سی جب تلک میں نے اسے اس نے مجھے پرکھا نہ تھا فکرِ دیں گاہے تو ، گاہے اہلِ دنیا کا خیال کون سا دن تھا کہ میری سوچ پہ پہرہ نہ تھا مقتدر وہ تھے مگر نُطق و قلم کی حد تلک روح پہ میری کسی ذی روح کا قبضہ نہ تھا چاند کو تکتے ہوئے گذریں کئی راتیں مگر میرے ذہن و فکر میں تسکین تھی سودا نہ تھا وقت نے کیسے چٹانوں میں دراڑیں ڈال دیں رو دیا وہ بھی کہ جو پہلے کبھی رویا نہ تھا جانے کیوں دل سے مرے اسکی کسک جاتی نہیں بات گو چھوٹی سی تھی اور وار بھی گہرا نہ تھا چھوٹی چھوٹی رنجشیں اپنی جگہ پر شکر ہے نفرتوں کی آگ سے سینہ کبھی جُھلسا نہ تھا کس کی بد نامی کے چرچے ہو رہے ہیں شہر میں میں نے جب دیکھا تھا اس کو تب تو وہ ایسا نہ تھا کس لئے احباب نے تیروں کی زد پہ لے لیا میں نے تو دشمن کا بھی لوگو بُرا چاہا نہ تھا کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ188۔189 54۔ آئینے سے جب تک کہ سامنا نہیں ہوتا آئینے سے جب تک کہ سامنا نہیں ہوتا اپنے آپ سے کوئی آشنا نہیں ہوتا اپنی ذات سے باہر جو نکل نہیں پاتے اس طرح کے لوگوں میں حوصلہ نہیں ہوتا عشق کی نظر اس پہ جب تلک نہیں پڑتی حُسن تو وہ ہوتا ہے دلربا نہیں ہوتا روح کے روابط میں اِس طرح بھی ہوتا ہے فرقتیں تو ہوتی ہیں فاصلہ نہیں ہوتا ہم سے اہلِ دل بھی یاں ہر کہیں نہیں ملتے ہر کوئی بھی تو جاناں آپ سا نہیں ہوتا ہر نگار کی باتیں دلنشیں نہیں ہوتیں ہر حسین کا جلوہ دلکُشا نہیں ہوتا حُسن کی حقیقت سے آگہی نہ ہو جب تک پیار ہو تو جاتا ہے دیرپا نہیں ہوتا راہبر ہو کامل تو منزلیں بلاتی ہیں راستے میں درماندہ قافلہ نہیں ہوتا میرے غیر سے کہدو اِس طرح نہ اِترائے پیار ہر کہیں ظاہر برملا نہیں ہوتا خون کے سبھی قطرے سرخ رو نہیں ہوتے جنگ کا ہر اک میدان کربلا نہیں ہوتا رنجشیں نہیں پلتیں، تلخیاں نہیں بڑھتیں جس جگہ اناؤں کا مسئلہ نہیں ہوتا پیار کا حسیں تحفہ قسمتوں سے ملتا ہے ہر کسی کی قسمت میں یہ لکھا نہیں ہوتا خوب کہہ گیا کوئی، جان دی، اسی کی تھی حق ادا کریں پھر بھی حق ادا نہیں ہوتا کوچۂ وفا میں وہ شرمسار پھرتا ہے جس کے پاؤں میں کوئی آبلہ نہیں ہوتا رات کی خموشی میں دل کے ساز چھڑتے ہیں ساتھ ہمنوا کوئی دوسرا نہیں ہوتا کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ190۔191 55۔ جو بپتا دل پہ بیتی ہے وہ سامنے لاؤں تو کیسے جو بپتا دل پہ بیتی ہے وہ سامنے لاؤں تو کیسے مَیں دَرد میں گذرے لمحوں کا احوال سُناؤں تو کیسے تم شیش محل میں بیٹھ کے اپنی دید کرا تو دیتے ہو مجھکو بھی بتاؤ مَیں شیشے کے اندر آؤں تو کیسے ملنے کا مزا تو آتا ہے جب باہم مِل جُل بیٹھے ہوں یہ بیچ میں جو دیوار سی ہے میں اُسکو گراؤں تو کیسے تم خوشبو ہو جو ساتھ ہوا کے مجھ تک آن پہنچتی ہے مَیں تم کو اپنے ہونے کا احساس دلاؤں تو کیسے جن گلیوں میں تم پھرتے تھے وہ ساجن کھوج میں رہتی ہیں اِن بیکل بیکل گلیوں کو بولو سمجھاؤں تو کیسے نہ میری زباں ہی کُھلتی ہے نہ میرا قلم ہی چلتا ہے پھر دل کے سچّے جذبوں کو تم تک پہنچاؤں تو کیسے آواز تمہاری آتی ہے، دیدار تمہارا ہوتا ہے پر دُوری کا احساس ہے جو میں اس کو مٹاؤں تو کیسے یہ بالک ہٹ، یہ تریا ہٹ، یہ راجا ہٹ سب ہیچ لگیں ہے منواہٹ سب سے بڑھ کے مَن کو بہلاؤں تو کیسے آنکھوں میں گھٹائیں بند ہیں یوں اک قطرہ پانی نہ نکلے سینے میں سُلگتی بھٹّی کی پھر آگ بجھاؤں تو کیسے تم اُونچا اُڑنے والے ہو مَیں ایک شکستہ پر چِڑیا جو منزل تم بتلاتے ہو وہ منزل پاؤں توکیسے مَیں لاج کی ماری کونے میں گردن کو جھکائے بیٹھی ہوں ہے سوچ یہی چھلنی چھلنی جھولی پھیلاؤں تو کیسے آنکھوں کے اُجلے پانی کے چشموں میں روانی نہ ہو تو اِس دھبّہ دھبّہ دامن کے مَیں داغ مٹاؤں تو کیسے گر غور کروں تو اَور ہی اِک چہرہ دکھلائی دیتا ہے مَیں دیکھ کے شیشہ خود سے ہی پھر آنکھ ملاؤں تو کیسے کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ192۔194 56۔ اہلِ دل پہ جو پہرے بٹھائے گئے اُن کے کچھ اور بھی مشغلے بڑھ گئے اہلِ دل پہ جو پہرے بٹھائے گئے اُن کے کچھ اور بھی مشغلے بڑھ گئے جذبہ ہائے جنوں پہ نکھار آگیا ، دل جواں ہو گئے ، ولولے بڑھ گئے یہ جنوں پیشہ لوگوں کا میدان ہے ، اہلِ دانش یہاں مات کھاتے رہے دیکھتے رہ گئے صاحبانِ خرد اور آگے بہت منچلے بڑھ گئے سُست رَو راہرو جانتے کیا نہیں؟ وقت کا کارواں کب رُکا ہے کہیں؟ جن کے بھی یاں ذرا ڈگمگائے قدم چھوڑ پیچھے اُنہیں قافلے بڑھ گئے سہل انگاریاں نہ گراں خوابیاں دل میں بس قصدِ کوئے نگاراں کئے آگ کی تال پر رقص کرتے ہوئے تپتے صحراؤں میں دل جلے بڑھ گئے سوچ پہ اک اُسی کی حکومت تو تھی، فکر پہ اک اُسی کا اجارا تو تھا جب سے محفل میں آئے ہیں اہلِ جنوں محتسب کے بہت مسئلے بڑھ گئے باغباں خود گلستاں اجاڑا کئے اور کسی نے بھی بڑھ کے نہ روکا انہیں اہلِ گلشن کی دیکھی جو یہ بے حِسی پھر تو گلچیں کے بھی حوصلے بڑھ گئے خون کی ہولیاں ایسے کھیلی گئیں آسماں بھی لہو رنگ ہونے لگا نفرتوں کے وہ لاوے اُبلنے لگے کہ زمیں ہل گئی زلزلے بڑھ گئے ہمسفر جو بھی باہم اُلجھنے لگے رنجشوں کے لئے راستے کُھل گئے اور اُن کا سفر جب شروع ہو گیا قربتیں گَھٹ گئیں فاصلے بڑھ گئے ہے بجا دوستی ایک انعام ہے لیک اس کا نبھانا کٹھن کام ہے جس قدر دوستوں کی پذیرائی کی اس قدر ان کے شکوے،گِلے بڑھ گئے حال پوچھا نہ رُک کے کوئی بات کی ، یوں نفی کی اُنہوں نے مری ذات کی یہ نہیں ہے کہ نظریں نہ مجھ پہ پڑیں چلتے چلتے نظر کی، وَلے بڑھ گئے حاصلِ زندگی سوزِ پنہاں تو تھا کچھ تو اس کی حفاظت بھی کرنا ہی تھی ضبطِ غم کا ہمیں جب نہ یارا رہا اس سے پہلے کہ آنسو ڈھلے ، بڑھ گئے بے ثباتی تو تھی لیک یہ بھی نہ تھا کہ بتاشوں کی صورت چٹخنے لگیں اب تو لگتا ہے یہ قلبِ انسان میں خون کم رَہ گیا بُلبُلے بڑھ گئے اب مجھے تم مرے حال پہ چھوڑ دو ، دوستو فکرِ چارہ گری نہ کرو! جتنی چارہ گروں نے عنایات کیں درد کے اور بھی سلسلے بڑھ گئے حکم جب بھی جسے کوچ کا مِل گیا چھوڑ کر یہ سرائے وہ رخصت ہؤا کچھ بھری دوپہر میں روانہ ہوئے اور باقی جو تھے دن ڈھلے بڑھ گئے آگ بھڑکے تو کیسے بجھائے کوئی جو بجھانے کو پانی میّسر نہ ہو سینہ جلتا رہا آنکھ نم نہ ہوئی اور یوں رُوح کے آبلے بڑھ گئے وہ مسیحا نفس ، بُلبُلِ خوش لحن جانتا ہے وہ چارہ گری کے چلن جب بھی اُس کے لبوں نے مسیحائی کی قلبِ بیمار کے حوصلے بڑھ گئے کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ195۔196 57۔ آشنا فکریں بھی تھیں اور غم بھی نادیدہ نہ تھے آشنا فکریں بھی تھیں اور غم بھی نادیدہ نہ تھے پر مسائل زندگی کے اتنے پیچیدہ نہ تھے جسطرح جذبات کا دریا ہے دِل میں موجزن ایسے تو بپھرے ہوئے طوفاں بھی شوریدہ نہ تھے کس لئے نظروں میں یوں برقِ تپاں کی آگئے آرزؤوں کے چمن اتنے تو بالیدہ نہ تھے غیر تو محسوس کیا کرتے بھلا میری کمی مڑکے دیکھا تو مِرے اپنے بھی نم دیدہ نہ تھے عشق کی راہوں پہ چل کر منزلیں سر کر گئے جو زمانے کی نگاہوں میں جہاندیدہ نہ تھے ہم تو خود اپنی انا کے چکروں میں پھنس گئے ورنہ منزل صاف تھی رستے بھی پیچیدہ نہ تھے اک نئی لذت سدا اہل نظر پاتے رہے داستانِ عشق کے اوراق بوسیدہ نہ تھے وہ تو دَورِ ہجر ہی صدیوں کی کلفت دے گیا شورشِ اعداء سے تو ہم لوگ رنجیدہ نہ تھے کیا ضروری تھا کہ حرفِ مدّعا ہوتا ادا میری جاں تم سے مِرے حالات پوشیدہ نہ تھے رفتہ رفتہ اُن پہ میری ذات کے جوھر کُھلے پہلے تو احباب میرے اتنے گرویدہ نہ تھے شوخئ طرزِ تکلّم نے مجھے رسوا کیا لوگ یہ سمجھے مِرے افکار سنجیدہ نہ تھے کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ197۔198 58۔ در پہ پڑے ہیں جب تک انعام ہو نہ جاوے در پہ پڑے ہیں جب تک انعام ہو نہ جاوے تیری جناب سے کچھ اکرام ہو نہ جاوے یہ دل کی بستیاں تو تجھ سے ہی سجتیاں ہیں اِس گھر میں وسوسوں کا بِسرام ہو نہ جاوے ہر بات تجھ سے کُھل کر مَیں اس لئے کروں ہوں تا درمیاں میں حائل ابہام ہو نہ جاوے چاہو ہو تم رقیباں ہنس بول مَیں نہ پاؤں یہ آرزو تمہاری ناکام ہو نہ جاوے ہر قول و فعل پر تو لگ ہی چکی ہے قدغن اب سانس لینا بھی یاں الزام ہو نہ جاوے کافر گری نے ایسا کچھ رُوپ ہے نکالا تسلیم سے گریزاں اسلام ہو نہ جاوے مجھ سانس کی تپش سے ظالم جُھلس رہا ہے ایسا بھی کوئی نازک اندام ہو نہ جاوے ہم غیر کی جفائیں ہنس ہنس کے سہہ رہے ہیں تا سِلسِلہ وفا کا بدنام ہو نہ جاوے اَے چارہ گر جو تیری نظرِ کرم ہو ایدھر ممکن ہے کیسے پھر جو آرام ہو نہ جاوے اے یارِ دلرُبا تُو ناراض ہو نہ ہم سے ہستی ہماری وقفِ آلام ہو نہ جاوے دو چار دن کی فرصت مشکل سے جو ملی ہے ڈر ہے کہ وہ بھی نذرِ اوہام ہو نہ جاوے دامن پکڑ کے تیرا ۔کرتے رہیں گے زاری تا وقتیکہ ہمارا ہر کام ہو نہ جاوے ڈرتے گذر گئی ہے ، ڈرتے گذار دیں گے جب تک بخیر اپنا انجام ہو نہ جاوے کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ199۔201 59۔ نہ کُوک کوئلیاکُوکُوکُوتُو - آگ لگا اِس ساون کو نہ کُوک کوئلیاکُوکُوکُوتُو         آگ لگا اِس ساون کو من میرا بیکل بیکل ہے ، نیناں ڈھونڈیں من بھاون کو جب تک بھادوں کی جھڑی رہی مَیں بِیچ جھروکے کھڑی رہی برکھا بھی جھر جھربرسے ہے مجھ بِرہن کے کلپاون کو جب آس کی فصلیں پکتی ہیں اور باس فضا میں رَچتی ہے تو بجلی تڑپن لاگے ہے کھلیان میں آگ لگاون کو جو بستی پیچھے چھوڑ آئی یادوں میں سمائی رہتی ہے من میرا مچلا جائے ہے پھر اُس بستی میں جاون کو جس تن لاگے سو تن جانے پر پریم نگریا میں یارو! سب لوکاں دوڑے آتے ہیں دُوجوں کا درد بٹاون کو اک پیتم واں پہ سوئے ہے نہ منہ کھولے نہ بات کرے پر پریمی پَل پَل جاتے ہیں چرنوں میں پھول چڑھاون کو اُس دَر کی پُجارن کو لوگو کب جگ کا لوبھ لبھائے ہے کہ رام کی  سیتا نجروں میں کب لاوے پاپی راون کو سب گوپیاں دوڑی آوے تھیں جب کانوں میں یہ بانگ پڑی کہ کرشن کنہیا آویں گے ُسندرتا رُوپ دکھاون کو جا دَوڑ لپٹ جا سینے سے من موہن سامنے بیٹھا ہے پگلی ہے ساری عمر پڑی گھبراون کو، شرماون کو یہ وقت کا پنچھی تو آگے سے آگے اُڑتا جائے ہے جو بِیت گیا سو بِیت گیا پھر کیا رہوت پچھتاون کو اِن اونچے پِیڑھے والوں کا اس وقت تماشا کیا ہو گا تقدیر کا ڈمرو باجے گا جب ِتگنی ناچ نچاون کو کیا رام دوارے جاؤں مَیں پگ پگ پہ ٹھوکر لاگے ہے ہر جا اِک سُندر مُورت ہے مجھ مُورکھ کے بہکاون کو لَوٹی تو نیناں جل تھل تھے سینے پہ دُونا بوجھ پڑا مَیں کِس چو پال میں جا بیٹھی تھی اپنا جی بہلاون کو سَر بھاری ، پِنڈا دُکھتا ہے ، من پھوڑا ، نظریں گھائل ہیں وہ کومل ہاتھ ہی چاہیئے ہیں ان زخموں کے سہلاون کو پی گھر آئیں تو یہ نہ ہو کہ آنگن میں اندھیارا ہو سو من کا تیل نچوڑا ہے نینوں کے دِیپ جلاون کو کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ202۔203 60۔ جو اس کے پیار کی جھولی میں سوغاتیں بھی ہوویں گی جو اس کے پیار کی جھولی میں سوغاتیں بھی ہوویں گی تو دل میں شکر ہونٹوں پہ مناجاتیں بھی ہوویں گی بِرہ کے دن کٹیں گے فاصلے بھی مٹ ہی جائیں گے بہم بیٹھیں گے مل کے روبرو باتیں بھی ہوویں گی ابھی تو دور سے ہی وہ ہمیں درشن کراتے ہیں وہ دن بھی آئیں گے کہ جب ملاقاتیں بھی ہوویں گی شبِ تاریک کٹ جائے گی بادل چھٹ ہی جائیں گے مقدّر میں ہمارے چاندنی راتیں بھی ہوویں گی وہ دولہا چاند اپنی چاند نگری میں جو آئے گا تو اُس کے ساتھ میں کرنوں کی باراتیں بھی ہوویں گی زمانے کے تقاضے بھی نبھائیں گے سبھی لیکن ہمارے ساتھ پُرکھوں کی روایاتیں بھی ہوویں گی وفا کی راہ پہ نسلیں ہماری گامزن ہوں گی ہمارے عشق کی لب پہ حکایاتیں بھی ہوویں گی کسی سے نہ کبھی امید رکھو دلنوازی کی بڑھے گی گر توقع تو شکایاتیں بھی ہوویں گی بنے گی بات کیسے جو تناؤ کم نہیں ہوگا نبھے گی کس طرح جو بیچ میں ذاتیں بھی ہوویں گی اگر ہم نفسِ امارہ کی باگیں تھام کے رکھیں تو رب جی سوہنے کی پھر عنایاتیں بھی ہوویں گی ہماری نین جھیلوں کا جو پانی اُس کنے پہنچا کھلیں گے پھول بھی صحرا میں برساتیں بھی ہوویں گی جو دینا ہے تو عزت سے مجھے چاہت کے تحفے دو وہ ہونگے اور جن ہاتھوں میں خیراتیں بھی ہوویں گی ہم انساں ہی رہیں گے کہ ملائک بن نہیں سکتے کچھ اچھی ہیں تو کچھ ہم میں غلط باتیں بھی ہوویں گی جو اپنے نفس کو مٹی میں یکسر رول دیویں گے یقیں رکھیں کہ پھر ان کی مداراتیں بھی ہوویں گی کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ204۔205 61۔ ہوئی سجدہ ریز مَیں جو تو زمیں نے دی دہائی ہوئی سجدہ ریز مَیں جو تو زمیں نے دی دہائی ''کہ مَرا خراب کر دی تو بہ سجدۂ ریائی''١؎ مجھے گود میں اُٹھایا، مجھے سینے سے لگایا مرے کام آگئی ہے یہ مری شکستہ پائی تجھے کیا خبر ہے زاہد! اسے کیا پسند آئے؟ مِری حالتِ ندامت! ترا فخر پارساَئی یہ تری صلوٰۃ و سُجہ نہ جچی کسی نظر میں تجھے کر رہا ہے رسوا ترا شوقِ خود نمائی تری محفلوں کا واعظ! وہی رنگ ہے پرانا وہی تیری کم نگاہی، وہی تیری کج ادائی نہ یہاں ہی پوچھ تیری، نہ وہاں مقام تیرا نہ خدائی معترف ہے، نہ خُدا سے آشنائی یہ حیات و موت کیا ہے، یہی گردشِ زمانہ یہی عارضی سی قُربت، یہی عارضی جُدائی اُسے کاش نہ خبر ہو کہ مآلِ زیست کیا ہے بڑے شوق و آرزو سے جو کَلی ہے مسکرائی تری رحمتوں کا مالک! مجھے چاہیئے سہارا ہَے یہ وقتِ کسمپُرسی ہے یہ دَورِ نارسائی یہ مکین پستیوں کے بڑا ناز کر رہے ہیں مرے مہرباں! دکھادے ذرا شانِ کبریائی تری غیرتوں کا طالب، تری نعمتوں کا عادی ترے سامنے پڑا ہے مرا کاسۂ گدائی جو دیا ترا کرم ہے نہیں مجھ میں بات کوئی نہ طریقِ خوش کلامی، نہ ادائے دلرُبائی ہیں ترے حضور حاضر یہ ندامتوں کے تحفے مِری زندگی کا حاصل، مری عُمر کی کمائی ١؎ یہ مصرع عرفیؔ کا ہے۔ کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ206۔207 62۔ رقیبو سامنے آؤ تو بات بنتی ہَے رقیبو سامنے آؤ تو بات بنتی ہَے کچھ اور تیر چلاؤ تو بات بنتی ہَے نگاہِ یار کا طالب ہے رقص بسمل کا مزید زخم لگاؤ تو بات بنتی ہَے چراغ گھر کی منڈیروں کے تو بجھا ڈالے دلوں کے دیپ بجھاؤ تو بات بنتی ہَے جگر فگار ہو، دل سوختہ، نظر زخمی تپک رہے ہوں یہ گھاؤ تو بات بنتی ہَے نگاہ و فکر و دل و جان جگمگا اٹھیں گر ایسے جشن مناؤ تو بات بنتی ہَے جو داغ داغ ہَے دامن وہ دُھل کے صاف تو ہو بہت سے اشک بہاؤ تو بات بنتی ہَے دلوں کی راکھ میں چنگاریاں تلاش کرو دہک اٹھیں یہ الاؤ تو بات بنتی ہَے وہ بے نیاز ہَے اپنی نیازمندی سے تم اس کے ناز اٹھاؤ تو بات بنتی ہَے مِرے حبیب مِری بات کا جواب تو دو دلوں کی آس بندھاؤ تو بات بنتی ہَے دل و نگاہ کا اتنا بھی امتحان نہ لو بس اب تو لوٹ ہی آؤ تو بات بنتی ہَے کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ208۔210 63۔ یہ بے چینی سی کیسی ہے کچھ اس کا سبب بتلاؤ تو یہ بے چینی سی کیسی ہے کچھ اس کا سبب بتلاؤ تو تم چارہ گر ہو آکے میرے زخموں کو سہلاؤ تو ہم مُورکھ ہیں، ہم پاپی ہیں، ہم لوبھی ہیں یہ مان لیا اچّھوں سے تو سب ہی کرتے ہیں تم ہم سے کر دکھلاؤ تو آکاش کی جانب تکتے تکتے تھکن سی ہونے لگتی ہے تم اپنے پریمی کی خاطر اِس دھرتی پہ بھی آؤ تو تم یکتا ہو، تم کامل ہو، تم رہبر ہو، تم منزل ہو پھر دَر دَر کیوں بھٹکاتے ہو بس اپنی راہ دکھاؤ تو ہم سے ہے گِلہ کہ ہم جگ کے اصنام کی پوجا کرتے ہیں وہ سامنے ہیں، تم اوجھل ہو پردے سے باہر آؤ تو ہر چمکی کو سونا سمجھے اور ہر رُوپا پہ ریجھ گئے ہر کھوٹی شئے پہ کیوں لپکیں تم رُوپ کی جوت جگاؤ تو کمزور بہت ہیں چاہیں بھی تو قول نبھا نہیں پاتے ہم پر تم تو قدرت والے ہو تم اپنا قول نبھاؤ تو اچھے ہیں بُرے ہیں جو بھی ہیں، جیسے ہیں تمہارے اپنے ہیں کچھ لاج ہماری رکھ لو اب تم نے ہی کیا ہے چناؤ تو ترسا ترسا کیوں دیتے ہو کب پیاس بَھلا یُوں بجھتی ہے تم اپنی مد شالا سے ہمیں بھر بھر کے جام پلاؤ تو ہم پریم پجاری ہیں ساجن سب ناز اٹھائیں گے لیکن کبھی ایک تو میری بھی مانو گر اپنی سو منواؤ تو میں تنہا کب تک بولوں گی تم تو بس سُنتے رہتے ہو کچھ من کی ڈھارس آس بندھے کوئی ایسی بات سناؤ تو خوابوں کے سہارے ہی ہم یہ فرقت کا زمانہ کاٹتے ہیں سپنے تو دکھاتے رہتے ہو تعبیر بھی اب دکھلاؤ تو وہ لوگ جو ہم سے دُور ہوئے یاد آئیں تو بے کل کرتے ہیں سینے میں تپک سی رہتی ہے بھرتے ہی نہیں یہ گھاؤ تو سینے میں الاؤ جلتے ہیں، رگ رگ میں شرارے پلتے ہیں تم اپنے پیار کی برکھا سے یہ بھڑکی آگ بجھاؤ تو ہے دُھوپ کڑی کٹھنائی کی یہ تن من جھلسے جاتے ہیں کچھ پنڈا ٹھنڈا کرلیں ہم ، تم رحمت مینہہ برساؤ تو اک شخص جو بے حد پیارا تھا مجھے بول یہ اس کے یاد آئے ہر روز ہی بڑھتے جاتے ہیں اس جیون کے الجھاؤ تو سُن میرے گِلے ہنس کے بولے کیا تم پہ شکوے سجتے ہیں کبھی اپنے اندر بھی جھانکو کچھ کرنی پہ شرماؤ تو پچھتاوے اَچھے ہوتے ہیں جیون کو سنبھالا دیتے ہیں جو بیت گئی سو بیت گئی اَب بیتی پہ پچھتاؤ تو جب سُکھ پایا تو دُور ہوئے اور درد مِلا تو لَوٹ آئے کیا پریمی ایسے ہوتے ہیں کچھ پریت کی ریت نبھاؤ تو اِک شخص کے ذمّے ڈال دیئے شب کی زاری دن کے نالے وہ تنہا روتا رہتا ہے کچھ تم بھی نِیر بہاؤ تو بس میری خطائیں جانے دو کب میں نے کہا کہ عدل کرو مَیں رحم کی طالب ہوں تم سے تم ''کُن'' کی شان دکھاؤ تو کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ211۔213 64۔ اُس سے شکوہ کون کرے کہ کیوں تڑپائے ساری رات ''ان کو شکوہ ہے کہ ہجر میں کیوں تڑپایا ساری رات جن کی خاطر رات لُٹا دی چین نہ پایا ساری رات'' ( یہ شعر حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کا ہے) اُس سے شکوہ کون کرے کہ کیوں تڑپائے ساری رات جو پیتم خود ہجر کے دُکھ سے چین نہ پائے ساری رات جگ والو! کیا چاہت کا یہ رُوپ بھی تم نے دیکھا ہے پریمی سُکھ سے سوئیں پی کو نیند نہ آئے ساری رات مُجھ مورکھ کی اکھیئن میں تو پانی کی اک بُوند نہیں مَن موہن نے میری خاطر نِیر بہائے ساری رات نِربھاگی جو ہیں وہ سب تو لمبی تانے سوتے ہیں بَھاگوں والا رو رو اِن کے بھاگ جگائے ساری رات سُورج کس کے پریم میں جلتا مَنوا لے کر گُھومے ہے کس کی کھوج میں چاندگگن کے چکّر کھائے ساری رات لاج کی ماری سوچ رہی ہوں کیسے اُس کی اَور تکوں ساجن جی کی سیوا کی نہ ناز اُٹھائے ساری رات روز ارادے باندھے ، سوچا ، رات تو اُس کے نام کریں بات یہ دن بھر یاد رہے پر یاد نہ آئے ساری رات گھر ویران پڑے ہوں تو آسیب بسیرا کرتے ہیں دِل کی بستی پرمنڈلائے دُکھ کے سائے ساری رات آدھی رات کی زاری اچھی جِیون بَھر کے رونے سے بے کَل مَن اب آدھی رات کے قرض چکائے ساری رات ذہن ہے بوجھل ، تن دُکھتا ہے ، مَن بھی جلتا انگارہ ساری رات ہی سوئے پھر بھی سو نہ پائے ساری رات ایک ذرا سی جان نے میری کیا کیا جھنجھٹ پالے ہیں دن بھر کے سب جھگڑے سوچوں میں نپٹائے ساری رات یُوں بھی ہو کہ ِبپتا جو بھی ِبیتے َمن پہ بوجھ نہ ہو اور کبھی بے بات کے میرا جی گھبرائے ساری رات بُھولی باتیں، بِسرے قِصّے ، سُندر مُکھڑے ، پیارے لوگ یادوں کی بارات نے کیا کیا رنگ جمائے ساری رات آس نراس کے سنگھم پر یہ جیون کب تک بیتے گا دن کو خود ہی توڑے جو سَپنے دکھلائے ساری رات نظریں چھالا چھالا ہوگئیں ، جَلتی دُھوپ میں تکنے سے ان پیالوں میں آشاؤں کے دِیپ جلائے ساری رات بِن مانگے جو دان کرے کیا مانگے سے نہ دیوے گا ؟ بیٹھ رہو اُس دَر پر جھولی کو پھیلائے ساری رات گیت کوی کے سُن کے سَر تو دُھنتے ہو پر سوچا بھی ؟ اُس نے کتنی پِیڑ سہی ، کیا کشٹ اُٹھائے ساری رات کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ214۔216 65۔ دنیا سرائے ہے یہاں رہوے ہے جو بھی آئے کر دنیا سرائے ہے یہاں رہوے ہے جو بھی آئے کر آخر کو اُس جانا پڑے چارہ نہیں بن جائے کر کس سوچ میں ہے تو میاں کر لے جو کرنا ہے یہاں چڑیاں جو چُگ لیں کھیتیاں تو کا ملے پچھتائے کر چمناں پہ جو ڈالی نگہ ہر گل دیا فہمِ فنا ڈالی پہ جو پھوٹا، کِھلا اور رہ گیا مرجھائے کر ہر پھول کا دکھ ہو بڑا پر اس کا تو ہووے سوا جو وقت سے پہلے ہی یاں رہ جائے ہے کملائے کر وہ جو کرے اچھا کرے کیا خوف کیسے وسوسے ہونا ہے جو سو ہو رہے پھر ہوئے کیا گھبرائے کر اُس کا عجب دستور ہے اب پاس ہے اب دور ہے پردے میں جا مستور ہے جلوہ ذرا دکھلائے کر اُس سے ملاقاتاں ہوئیں نہ دید نہ باتاں ہوئیں پر کچھ تو ڈھارس ہو گئی اُس کی گلی میں جائے کر اُس کی عنایت ہے بڑی مجھ پر سدا رحمت کری خطرہ جو آیا ٹل گیا سر پر مرے منڈلائے کر چارہ گراں کرتے بھی کیا؟ میرا مسیحا آ گیا تسکیں کا پھاہا رکھ دیا زخماں مرے سہلائے کر سمجھا تھا بزمِ یار میں اُس بن نہ ہوئے گا کوئی دیکھا مجھے جو غیر نے تو رہ گیا بَل کھائے کر اوروں کا ہر عیب و ہنر ہر دم رہا ِپیش نظر شیشہ جو دیکھا غور کر نظریں جھکیں شرمائے کر یہ سوچ یہ فکر و نظر ان پہ سدا قابو رہے ہے نفس بھی سرکش بڑا راکھو اسے سمجھائے کر زخموں پہ مرہم لگ گیا سب درد دل کا بھگ گیا دلدار نے دیکھا مجھے جب بھی ذرا مسکائے کر خسرو میاں کا قول یہ جی کو مرے خوش آ گیا ''تجھ دوستی بسیار ہے اک شب ملو تو آئے کر'' کیا ہے رقیباں جو مری راہوں میں کانٹے بو دیئے میری جزا تو مل گئی اُس یار کا کہلائے کر چھوٹا سا یہ فتنہ مجھے پل کو بھی دم لینے نہ دے پہلو سے نکلا جائے ہے زِچ آ رہی بہلائے کر جگ کی ملونی سے ترا دل کس قدر میلا ہوا آنکھوں کے پانی سے اسے ٹک صاف کر نہلائے کر کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ217۔218 66۔ رات بھر بٹتی رہی خیرات میرے شہر میں رات بھر بٹتی رہی خیرات میرے شہر میں ایک ہنگامہ تھا برپا رات میرے شہر میں رات بھر جذبے گھٹا بن کے برستے ہی رہے رات بھر ہوتی رہی برسات میرے شہر میں روشنی کے طائفے تھے نور کی کرنوں کے ساتھ چاند کی اتری تھی جب بارات میرے شہر میں وہ بھی لوٹے ہاتھ میں تسکین کے تحفے لیے لائے تھے جو درد کی سوغات میرے شہر میں غیر داخل ہو گئے آ کر مِرے ماحول میں منتشر کرنے کو میری ذات میرے شہر میں گرچہ پہلے سے نہیں حالات میرے شہر کے پھر بھی بہتر ہیں بہت حالات میرے شہر میں یہ تو سب ہے تیرے ابرو کے اشاروں کا کمال وَرنہ کب تھی یہ مری اوقات میرے شہر میں یوں ہیں غیروں میں مگن کہ دیکھتے تک بھی نہیں چھوڑتے تھے جو نہ میرا ہاتھ میرے شہر میں عشق جس نے میرؔ کو بدنام و رسوا کر دیا ہے وہ وجہِ عزّتِ سادات میرے شہر میں کچھ کرو اونچی فصیلیں اور شہرِ ذات کی غیر بیٹھا ہے لگائے گھات میرے شہر میں یوں ہمہ تن گوش ہیں سب یہ گلہ جاتا رہا کہ نہیں سنتا کوئی بھی بات میرے شہر میں جذبۂ دل سے ہے رہتا دن بھی مصروفِ عمل سوزِ دل سے جاگتی ہے رات میرے شہر میں کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ219۔220 67۔ دن کی تھکن اتارنے شام ڈھلے پہ گھر گیا دن کی تھکن اتارنے شام ڈھلے پہ گھر گیا سویا ہؤا ہے چین سے کہتا ہے کون مر گیا کب ، کیسے، کس طرح ، کہاں ، کیوں گیا ، اس کو چھوڑیئے جانا تھا اسکو ایک دن بات ہے مختصر ۔ گیا درد کی شدّتیں بڑھیں، چارہ کوئی نہ ہو سکا آہ بھی رائیگاں گئی، نالہ بھی بے ثمر گیا تاب و تواں ، شباب ، رُوپ ، وقت چُرا کے لے گیا ہاتھ سے بھی سکت گئی، بات سے بھی اثر گیا کرب کی کیفیت کا حال سوختہ تن سے پوچھئے لوگوں کو کیا خبر کہ جو کہتے ہیں زخم بھر گیا لاکھ چلے سنبھل سنبھل بات وہاں نہ بن سکی چپکے سے آکے جب کوئی پیچھے سے وار کر گیا کیسے ستم کی بات ہے آیا جو دَرد بانٹنے اپنے دکھوں کا بوجھ بھی سینے پہ میرے دھر گیا گردشِ وقت نے مجھے ایک نیا جنم دیا وہ جو اَنا کا تھا اسیر یارو وہ شخص مر گیا بھٹی میں تجربات کی کوئی پڑا تو یوں ہؤا رُوپ تو ماند پڑ گیا، ذہن مگر نکھر گیا حُسن کی نظرِ التفات جب بھی پڑی ہے عشق پر اُس کے نصیب جاگ اُٹھے، اُس کا جہاں سنور گیا کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ221۔223 68۔ نہ گراؤ اشک بھی آنکھ سے نہ لبوں سے نکلے کراہ بھی نہ گراؤ اشک بھی آنکھ سے نہ لبوں سے نکلے کراہ بھی جو زمینِ دل میں دبی رہی ہوئی بارور وہی آہ بھی مِرا ہاتھ تھام لے رہبرا مُجھے منزلوں کا نہیں پتہ ہیں بڑی کٹھن یہ مسافتیں بڑی پیچدار ہے راہ بھی ہیں قدم قدم نئے مرحلے ، نئی الجھنیں ، نئے مسئلے مجھے چاہیے تِرا فضل بھی ترا لطف تیری پناہ بھی یہ نجوم و شمس و قمر سبھی ترا آئینہ ہیں بنے ہوئے ہیں تِری ہی راہ دکھا رہے گل و برگ بھی ِپر کاہ بھی یہ غبار سا ہے چڑھا ہوا جو افق پہ کاش چھٹے ذرا کہ یہ تیرہ بخت بھی دیکھ لیں ترا مہر بھی تیرے ماہ بھی نہ زباں پہ شکوے ہوں نہ گِلے کہ بڑھیں گے اس سے تو فاصلے جو اَنا نہ بیچ سے جا سکی تو نہ ہو سکے گا نباہ بھی جو جہاں میں آیا تھا پھول سا وُہ گیا تو ماندہ تھکا ہوا تھا بڑا نڈھال وجود بھی بڑی مضمحل تھی نگاہ بھی کبھی یورشیں ہیں ہموم کی کبھی مسئلوں کا ہجوم ہے کبھی دِل کی بستی کو گھیر لیتی ہے وسوسوں کی سپاہ بھی یہ نہیں کہ اب وُہ وفا نہیں ، نہیں ایسا کچھ تو ہوا نہیں ہے مگر بجا تِرے ساتھ ہی رہی دل میں دنیا کی چاہ بھی میں بھٹک بھٹک کے قدم قدم پھری ہوں تری ہی تلاش میں مِری دلگدازی کی کیفیت مرے پیار کی ہے گواہ بھی مرے چارہ گرذرا جلد آ مرا دل ہے پھوڑا بنا ہوا مرے درد کا بھی علاج کر مرے حوصلے کو سراہ بھی اُنہیں زندگی کی نوید دے جنہیں مار ڈالا ہے ہجر نے دِلِ ریزہ ریزہ لئے ہوئے جو پڑے ہیں چشم براہ بھی کبھی اپنی دید کرائیے، ذرا دِل کی آس بندھائیے کبھی مُسکرا کے نظر بھی ہو کوئی بات گاہ بگاہ بھی مری روح تُو، مری جان تُو ، مری آس تُو ، مرا مان تُو مرا ذوق بھی، مرا شوق بھی ، مری آرزو مری چاہ بھی کوئی بدگمان یہ کہہ نہ دے ہے کہاں جسے تھے پکارتے کرو بے بسی کو نہ مشتہر نہ عیاں ہو حالِ تباہ بھی مری فرد ِجرم جو لکھ رہے ہیں فرشتے اُن سے یہ عرض ہے مری حسرتیں بھی شمار ہوں جو لکھے ہیں میرے گناہ بھی کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ224۔226 69۔ جس دل کا واسطہ پڑا ہرجائیوں کے ساتھ جس دل کا واسطہ پڑا ہرجائیوں کے ساتھ سمجھوتہ اس نے کر لیا تنہائیوں کے ساتھ تنہا مسافرت کی صعوبت نہ پوچھئے رستے تو سہل ہوتے ہیں ہمراہیوں کے ساتھ جو شہرتوں کے دور میں حلقہ بگوش تھے وہ چھوڑتے چلے گئے رسوائیوں کے ساتھ احباب کا تغا ِفل بے جا بھی ہے قبول ان کے خلوص ، ان کی پذیرائیوں کے ساتھ بندہ بشر ہوں میں ، سو ہیں مجھ میں ہزار عیب اپنائیے مجھے مری کوتاہیوں کے ساتھ اہلِ خرد کو کوئی یہ باور کرا تو دے نادانیاں بھی چلتی ہیں دانائیوں کے ساتھ اُس کا نہ دل سنے کبھی نوحوں کی آھٹیں رخصت ہوئی ہے گھر سے جو شہنائیوں کے ساتھ کچھ سوچئے کہ کیوں نہیں کرتے اُسے قبول کیا آپ ہی گئی تھی وہ بلوائیوں کے ساتھ غیروں سے کیا وہ رسمِ محبت نبھائیں گے جو لوگ کہ نبھا نہ سکے بھائیوں کے ساتھ اولاد بھی نہ پیار کے قرضے چکا سکی جس کو کہ چاہا جاتا ہے سچائیوں کے ساتھ بہتر یہی ہے دل میں رہے اُس کی ہی طلب چاہو اُسی کو روح کی گہرائیوں کے ساتھ اے حسنِ بے نیاز ادھر بھی نگاہِ لطف آئی ہوں در پہ شوق کی پہنائیوں کے ساتھ ہم سے ہے اجتناب تو غیروں پہ التفات کیا یہ سلوک کرتے ہیں شیدائیوں کے ساتھ اہلِ چمن کو فکرِ چمن کس طرح نہ ہو خو ِف سمومِ غم بھی ہے پُروائیوں کے ساتھ آتے ہیں راستے میں کٹھن مرحلے کئی ہوتی ہیں طے مسافتیں کٹھنائیوں کے ساتھ ہیں زندگی کے راستے پُر پیچ تو مگر منظر بہت حسین بھی ہیں کھائیوں کے ساتھ دید و شنید کے تو مزے وقت لے اُڑا بجھنے لگیں بصارتیں ُشنوائیوں کے ساتھ یہ وہ ہی جانتا ہے کہ کیسے نبھائی ہے لیکن نبھا گیا میری کجرائیوں کے ساتھ کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ227۔229 70۔ یہ بزمِ دنیا ہے آنا جانا تو اس میں یونہی لگا رہے گا یہ بزمِ دنیا ہے آنا جانا تو اس میں یونہی لگا رہے گا نہ مجھ سے پہلے خلا تھا کوئی نہ بعد میں ہی خلا رہے گا یہ میں نے مانا کہ بوجھ اپنا اٹھا کے چلنا ہے سب کو تنہا پہ پھر بھی احباب ساتھ ہونگے تو دل کو کچھ حوصلہ رہے گا محبتوں اور چاہتوں کا یہ مان ہی تو متاعِ دل ہے اگر بھرم یہ بھی ٹوٹ جائے تو پھر مرے پاس کیا رہے گا یہ کیسے ممکن ہے دوستو کہ تمہارے دکھ سے مجھے نہ دکھ ہو تمہاری آنکھیں جو نم رہیں گی تو میرا دل بھی بھرا رہے گا نہ وسوسوں سے فرار ممکن نہ فکر و اندیشہ سے مفر ہے یہ مسئلوں کا جہاں ہے اس میں تو اِک نہ اِک مسئلہ رہے گا قدم قدم پر نئے مراحل نئے مسائل کا سامنا ہے میں بوجھ سارے سہار لوں گی جو ساتھ میرے خدا رہے گا کچھ اپنے جذبوں کو بھی نکھاریں کچھ اپنے اعمال بھی سنواریں سلف کا ایمان کب تلک ڈھال بن کے آگے کھڑا رہے گا نہ صرف دنیا سے دل لگاؤ کہ عاقبت کی بھی فکر کر لو قدم بھٹکنے نہ پائیں گے جو خیالِ روزِ جزا رہے گا کبھی کسی زندگی کا دھڑکا، کبھی کسی کے فراق کا غم یہ ایسا کانٹا ہے عمر بھر جو ہمارے دل میں چبھا رہے گا محبتوں میں تو نفس کو مارنا، ہی پڑتا ہے لمحہ لمحہ اگر اَنا بیچ میں رہی تو دلوں میں بھی فاصلہ رہے گا اگر ہو وسعت دلوں میں پیدا ، تعلقات استوار ہوں گے نہیں ہے لازم کہ جو بُرا آج ہے وہ کل بھی بُرا رہے گا اگر ہم اپنی طرف بھی دیکھیں ، ہمارے طور و طریق کیا ہیں تو اقرباء سے کوئی شکایت نہ دوستوں سے گِلہ رہے گا اگر ہے اُس کی رضا کی خواہش تو خاکساری شعار کر لیں ہماری گردن جھکی رہے گی تو بابِ رحمت کھلا رہے گا ہمارے خونِ جگر سے ہوتی ہے اس گلستاں کی آبیاری خلوص سے سینچتے رہے تو چمن وفا کا ہرا رہے گا یہ آبگینہ چٹخ ہی جائے گا ایک دن ضربتِ زماں سے کہاں تک اپنے تئیں سنبھالے ہوئے دلِ مبتلا رہے گا ہموم دیمک سی بن کے انساں کو چاٹ لیتے ہیں رفتہ رفتہ جڑیں ہی گر کھوکھلی ہوئی ہوں تو پیڑ کب تک کھڑا رہے گا کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ230۔231 71۔ مری فہم کاہے قصور مجھ پہ نہ رازِ دیر و حرم کھلا مری فہم کاہے قصور مجھ پہ نہ رازِ دیر و حرم کھلا نہ تضادِ دینِ و دَھرم کھلا نہ فسادِ عرب و عجم کھلا یہ حیات کیا ہے ممات کیا یہ عدم ہے کیا یہ وجود کیا تری کائنات کا راز تو نہ کسی پہ تیری قسم کھلا ہے یہ لامکان و مکان کیا ہیں رموز و سرِّ جہان کیا کوئی کیسا ذہنِ رسا ہو اُس پہ بہت کھلا بھی تو کم کھلا کٹے انقباض کے مرحلے شروع پھر ہوئے وہی سلسلے یہاں میری آہ مچل گئی وہاں بابِ لطف و کرم کھلا ہیں عجیب خول میں بند یہ کہ کبھی سمجھ میں نہ آ سکے نہ تو دوستوں کے کرم کھلے نہ ستم کشوں کا سِتم کھلا اسے دوسروں سے گلہ ہو کیوں کہ گٹھن ہو جس کے وجود میں نہ خوشی ہی جس کی ہو برملا نہ ہی جس کا جذبۂ غم کھلا یہ خلوص و پیار کے واسطے یونہی خامشی ہی سے نبھ گئے نہ میری اَنا نے طلب کیا ، نہ تری وفا کا بھرم کھلا کرم اس رحیم و کریم کا تو رہین دستِ دعا نہیں مری خامشی کا بھی مدّعا بحضورِ ربِّ کرم کھلا ہوا رفتہ رفتہ یہی عیاں کہ بجا تھا غالبِ نکتہ داں رہی قید زندگی جب تلک نہ حصارِ فکرو الم کھلا جو بپا کئے تھا قیامتیں ، جو اُٹھائے رکھے تھا آفتیں کیا چاک سینہ جو ایک دن اسی فتنہ گر کا حُجم کھلا میں رہین منّت وقت ہوں کئی راز اس نے عیاں کئے مرے دشمنوں کی نوازشیں ، مرے دوستوں کا بھرم کھلا تھے جہاں کے درد میں مبتلا لگی آگ گھر میں تو چپ رہے پڑا وقت ہم پہ جو دوستو ، تو مزاج اہلِ قلم کھلا کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ232۔233 72۔ ہربستی سے ، ہر وادی سے، ہر بن سے شرارے اُڑتے ہیں ہربستی سے ، ہر وادی سے، ہر بن سے شرارے اُڑتے ہیں ہرصحن سے ، ہر روزن سے ، ہر آنگن سے شرارے اُڑتے ہیں ہر شاخِ نشیمن جھلسی ہے، ہر طائر سہما سہما ہے گل زخمی غنچے گھائل ہیں گلشن سے شرارے اُڑتے ہیں ہم امن و سکون کے متوالے کس محفل میں آنکلے ہیں ہر ذہن سُلگتی بھٹی ہے ہر من سے شرارے اُڑتے ہیں جذبات کی شدّت اُف توبہ لفظوں میں آگ لگاتی ہے ہو سوختہ دل فنکار اگر تو فن سے شرارے اُڑتے ہیں جب سوز کی شدّت بڑھتی ہے اشکوں سے چھالے پڑتے ہیں برکھا میں آگ برستی ہے ، ساون سے شرارے اُڑتے ہیں کافور کی ٹھنڈک بھی ان سے نہ سوز و حرارت چھین سکی سنتے ہیں کہ سوختہ جانوں کے مدفن سے شرارے اُڑتے ہیں اس شہر میں روپ کا کال نہیں تم کس کی کھوج میں نکلے ہو اس بستی کے تو ہر گھر کی چلمن سے شرارے اُڑتے ہیں آہو چشماں، غنچہ دہناں، وہ گل بدناں، خوش پیرہناں دیتے ہیں کلائی کو جنبش کنگن سے شرارے اُڑتے ہیں جب ناز سے عشق مچل جائے، جب حسن تجلّی فرمائے تب طور بھی لودے اُٹھتا ہے ، ایمن سے شرارے اُٹھتے ہیں کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ234۔235 73۔ شوقِ حصولِ منزل و تدبیر بھی تو ہو شوقِ حصولِ منزل و تدبیر بھی تو ہو پر اس کے ساتھ خُوبئ تقدیر بھی تو ہو رحمت تِری وہی مِرا دستِ طلب وہی پھر دیر کیوں ہے باعثِ تاخِیر بھی تو ہو کیا فردِ جرم مجھ پہ ہے کچھ تو ذرا کُھلے مجھ پہ عیاں مِری کوئی تقصیر بھی تو ہو مَیں مجرِم وفا ہوں مجھے اعتراف ہے لیکن یہ جُرم لائقِ تعزیر بھی تو ہو سمجھائے کوئی گِرتے مکاں کے مکین کو تخریب ہو چکی ہے اب تعمیر بھی تو ہو بَن باس کا جو حکم ہے مَیں کر تو لوں قبول یہ سر زمین آپ کی جاگیر بھی تو ہو ظلمت کدے میں دہر کے بھیجا گیا ہے گر راہوں میں لُطفِ یار کی تنویر بھی تو ہو تنہائی کے عذاب سے بچنے کے واسطے باہم تعلقات کی زنجیر بھی تو ہو اِس کائنات کی تو ہے بیحد وسیع بساط اِنساں کے پاس قوّتِ تسخیر بھی تو ہو کرب و بلا کا دَور سعادت تو ہے مگر پیدا دِلوں میں جذبۂ شبّیر بھی تو ہو ہونٹوں پہ دعویٰ ہائے محبّت رہے تو ہیں سینے پہ نقش یار کی تصویر بھی تو ہو گر پیار ہے تو پیار کا بھی چاہیئے ثبوت دِل پہ رقم وفاؤں کی تحریر بھی تو ہو خوابوں کے آسرے پہ گزاری ہے زندگی ظاہر اب اپنے خواب کی تعبیر بھی تو ہو اے حسنِ بے نیاز اِدھر بھی نِگاہِ لُطف قائم جہاں میں عِشق کی تَوقِیر بھی تو ہو آنسو بہے تو کیا مِرا سینہ جلا تو کیا پیدا مِری دُعاؤں میں تاثیر بھی تو ہو کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ236۔237 74۔ فلک پہ پہنچے جو دل کے نالے تو رحمتِ کردگار لائے فلک پہ پہنچے جو دل کے نالے تو رحمتِ کردگار لائے الم زدوں کے لئے ہمیشہ سکون لائے قرار لائے یہ بھولے انساں اسی میں خوش ہیں کہ دنیا ان کے لئے بنی ہے نہ روح کا ہے کوئی بھروسہ نہ جسم پر اختیار لائے یہ فخر کیسا ، غرور کیسا ، بھلا ہماری بساط کیا ہے ذرا سی اک جان لے کے آئے ستم ہے وہ بھی اُدھار لائے چمن کا در تو کھلا تھا سب پر نصیب لیکن ہے اپنا اپنا کچھ اپنے دامن میں پھول لائے کچھ اپنی جھولی میں خار لائے ہیں اُس کے جلوے تو آشکارا چمن چمن میں دمن دمن میں ہے جائے حیرت کہ اب بھی اس پر نہ کوئی گر اعتبار لائے مہک گلوں کی بتا رہی ہے کہ ہے گلستاں میں جلوہ آرا وہ حُسنِ خوبی جو اپنے ہمراہ سَیلِ رنگ و بہار لائے تھا اُس کی رحمت کا یہ تقاضا کہ اس کی بخشش رہے زیادہ فرشتے گرچہ میری خطا و گناہ بھی بے شمار لائے حسین تر ہے سرشت اس کی جو دوست داری کا مان رکھ لے نہ اپنے ہونٹوں پہ کوئی شکوہ نہ اپنے دل میں غبار لائے پکارتا ہے چمن مجھے ایسے باغباں کی ہے اب ضرورت روش روش کو جو حسن بخشے ، کلی کلی پہ نکھار لائے نہ ہو خزاں کا گزر یہاں سے سدا مہکتا رہے یہ گلشن خدا کرے کہ مِرا مقدر بہار اندر بہار لائے کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ238۔239 75۔ جس طرح دن کا تعلق ہے ہر اک رات کے ساتھ جس طرح دن کا تعلق ہے ہر اک رات کے ساتھ جیت بھی یونہی لگی رہتی ہے یاں مات کے ساتھ دیکھنا یہ ہے کہ ہم نے کسے رونق بخشی مسجدیں بنتی رہیں یوں تو خرابات کے ساتھ اشک آنکھوں سے بہے ، سینے   میں شعلے بھڑکے یاں الاؤ بھی دہک اٹھتے ہیں برسات کے ساتھ ہم نے ہر حال میں روشن کئے جذبوں کے چراغ عزم بھی بڑھتا رہا شورشِ حالات کے ساتھ میں ولی ہوں نہ مرا ظرف ہے ولیوں جیسا میں نے شکوے بھی کیے اُس سے مناجات کے ساتھ واعظا میں نے تو ہرپل میں اسے ہی پایا تو نے ڈھونڈا جسے پابندئِ اوقات کے ساتھ ''ہر مصیبت کا دیا ایک تبسّم سے جواب'' یوں بھی سمجھوتے کئے جاتے ہیں آفات کے ساتھ کبھی مجھ سے ''کبھی غیروں سے شناسائی ہے'' میری جاں یوں تو نہ کھیلو میرے جذبات کے ساتھ وصل کے لمحے بڑی دیر کے بعد آئے ہیں کتنے غم تازہ ہوئے ایک ملاقات کے ساتھ کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ240۔241 76۔ بر میں مرے موہن بھی ہووے چاندنی راتاں بھی ہوں بر میں مرے موہن بھی ہووے چاندنی راتاں بھی ہوں عشوے بھی ہوں ، غمزے بھی ہوں، رمزیں بھی ہوں، گھاتاں بھی ہوں نظریں اِدھر کو بھی ذری، دینے میں کیوں دیری کری اکھیاں ملاؤ مدھ بھری اور دان خیراتاں بھی ہوں چَھب دور سے دکھلائے ہے پھر اوٹ میں ہو جائے ہے جی بھر کے مکھڑا دیکھ لوں ایسے ملاقاتاں بھی ہوں نینوں کے درپن میں دِکھے، من کے گھروندے میں رہے بد رنگ ہاتھوں میں مرے وہ سوہنے ہاتھاں بھی ہوں سینہ تپے جو سوز سے تو ِنیر بھی جھرجھر بہیں اگنی بھی ہو، شعلے بھی ہوں، میگھا بھی، برساتاں بھی ہوں محفل سجائیں پیار کی کچھ تم کہو کچھ مَیں کہوں کچھ چونچلے چہلیں بھی ہوں، کچھ راز کی باتاں بھی ہوں اتنا نہ کھنچ ہم سے سجن، ٹوٹے نہ یہ آشا کا مَن تھوڑی مداراتاں بھی ہوں تھوڑی عنایاتاں بھی ہوں بس اپنے من ، بس اپنے تن، بس اپنے دھن کی سوچ ہے کیسے اسے دیکھے کوئی جو بیچ میں ذاتاں بھی ہوں کس بات پر اِترائے ہے مالک کو بُھولا جائے ہے اے کاش بندے کو کبھی یاد اپنی اوقاتاں بھی ہوں جینے کو بس وہ ہی جئے جو پریم کا مدھوا پئے من میں سجی ہو مورتی، لب پہ مناجاتاں بھی ہوں کیوں نہ رقیبوں کو مرے پھر مجھ سے چَوکھا بیر ہو جب اِس کنے جیتاں بھی ہوں اور اُس کنے ماتاں بھی ہوں اے اکبری! اے سروری! تجھ سے ہیں امیدیں بڑی دامن کی ہو بخیہ گری اور اس میں سوغاتاں بھی ہوں آنگن میں اترے چاندنی پھیلی ہوئی ہو روشنی چندا براجے تخت پر تاروں کی باراتاں بھی ہوں کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ242۔244 77۔ دلوں کو چھید کر رکھ دیں جو ان لفظوں سے خائف ہوں دلوں کو چھید کر رکھ دیں جو ان لفظوں سے خائف ہوں کسی معصوم پہ بنتی ہوئی باتوں سے خائف ہوں وہ جن کی آنچ سے دل کے کنول مرجھا کے رہ جائیں مَیں ایسے گرم جھلساتے ہُوئے لہجوں سے خائف ہوں کسی کو ذات سے میری کوئی تکلیف نہ پہنچے مجھے پیارے ہیں جو مَیں اُن سبھی رشتوں سے خائف ہوں اُنہیں ہر ایک سے ہر پَل گِلے ، شکوے ہی رہتے ہیں انا کے جال میں جکڑے ہُوئے لوگوں سے خائف ہوں کدورت دل میں ہَے تو پھر کسی پَل وار کر دیں گے نقابِ دوستی ڈالے ہُوئے چہروں سے خائف ہوں یہ مانا مَیں نے جذبہ ہائے دل انمول ہوتے ہیں مگر بے مول جو کر دیں مَیں اُن جذبوں سے خائف ہوں بکھر جائے کوئی تو پھر سمیٹا جا نہیں سکتا مجھے جو منتشر کر دیں مَیں ان سوچوں سے خائف ہوں زمانے بھر میں میرے درد کی تشہیر کر دیں گے مَیں غم خواروں سے ، ہمدردوں سے ، ہمرازوں سے خائف ہوں مجھے بے دست و پا کرکے کہیں آگے نہ بڑھ جائیں مَیں اپنی زندگی کے بھاگتے لمحوں سے خائف ہوں مجھے بے چارگی سے، بے بسی سے خوف آتا ہے سہارے کے لئے پھیلے ہوئے ہاتھوں سے خائف ہوں جو حسرت میں بدل کر زندگی کا روگ بن جائیں مَیں ایسی خواہشوں ایسی تمناؤں سے خائف ہوں یہ پنجے گاڑ دیں جس جا وہاں کچھ بھی نہیں رہتا مَیں اپنے چار سُو پھیلی ہوئی رسموں سے خائف ہوں کہیں پاسِ مروّت ہے، کہیں احساسِ غیرت ہے کبھی اپنوں سے خائف ہوں کبھی غیروں سے خائف ہوں یہ دیمک کی طرح سے آدمی کو چاٹ جاتے ہیں وساوس ، خوف ، ڈر ، افکار ، اندیشوں سے خائف ہوں جہاں نہ چَین دن کو ہو نہ راتیں پُرسکوں گزریں سبھی ایسے مکانوں، ان شبستانوں سے خائف ہوں خُدا حامی ہے اپنا یہ یقیں تو ہے مگر پھر بھی درونِ خانہ پلتے ہیں جو ان فِتنوں سے خائف ہوں سمجھتے ہیں جنہیں ناداں، بہت ادراک والے ہیں مَیں بچوں کے سوالوں، کھوجتی نظروں سے خائف ہوں نظر ہر گام پر دلکش مناظر سے الجھتی ہے جو منزل سے ہی بھٹکا دیں مَیں اُن راہوں سے خائف ہوں کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ245۔247 78۔ فُرقت کے پڑے ہم پہ جو اثرات نہ پوچھو فُرقت کے پڑے ہم پہ جو اثرات نہ پوچھو جو کہنے سے قاصر ہوں وہی بات نہ پوچھو لمحوں کا حساب اچّھا ہے گر ہم سے نہ مانگو کیسے ہیں کٹے ہجر کے لمحات نہ پوچھو دِل ماہیءِ بے آب سا تڑپے ہے شب و روز دِن کیسے کٹا، کیسے کٹی رات نہ پوچھو ہجراں کے شب و روز ہیں صدیوں کو سمیٹے اور اس پہ سوا یورشِ صدمات نہ پوچھو ملنے کا مزا تب ہے مری جان یہ کہدو جب چاہو مِلو وقتِ ملاقات نہ پوچھو کچھ رکھ لو بھرم میرا ندامت سے بچا لو یوں بزم میں مُجھ سے مری اوقات نہ پوچھو سننا ہے تو مجھ سے ہی سُنو میری کہانی غیروں سے مرے دِل کی حکایات نہ پوچھو وہ تو مجھے بدنام کریں گے ہی بہر طور تم میرے رقیبوں کے خیالات نہ پوچھو لفظوں میں ادا ہو نہیں سکتیں جو وقتِ ملاقات تھے جذبات نہ پوچھو یہ کب ہوا ، کیسے ہوا ، کیونکر ہوا لوگو اِس مرضِ محبّت کی شروعات نہ پوچھو ہر بات تو کہنے کی نہیں ہوتی ہے یارو وابستہ مری ذات سے ہر بات نہ پوچھو چھوٹی سی یہ اک چیز جو سینے میں دھری ہے آفت ہے یہ کیا ننّھی سی سوغات نہ پوچھو اے چارہ گرو چھوڑو جو ادراک نہ ہووے نہ تنگ کرو مجھ سے علامات نہ پوچھو اِک جرمِ محبّت کے عوض اہلِ جنوں نے آباد کئے کتنے حوالات نہ پوچھو مر جائیں گے توہینِ محبت نہ کریں گے کیا اہلِ وفا کی ہیں رسومات نہ پوچھو ہم درد نصیبوں نے رہِ عشق و وفا میں جھیلی ہے جو سنگینئ حالات نہ پوچھو اسلاف جو ورثے میں ہمیں سونپ گئے ہیں سب پیاری ہیں کیسی وہ روایات نہ پوچھو آنگن میں مرے ذہن کے جو آ کے ہے اُتری ہے کتنی حسیں یادوں کی بارات نہ پوچھو وہ چاہے تو بے ساغرو مینا ہی پِلادے یارو میرے ساقی کی کرامات نہ پوچھو مجھ سے فِرومایہ پہ نظر لطف و کرم کی اُس یارِ یگانہ کی عنایات نہ پوچھو ہر بات مری تم نے ہی لکّھی تھی فرشتو اب چھوڑ بھی دو اور حسابات نہ پوچھو آنکھوں کے تو ساون کو سبھی دیکھ رہے ہیں سینے میں ہے جو تندئ برسات نہ پوچھو ہم سوئے حرم چل تو پڑے لیک بہر گام رستے میں ملے کتنے خرابات نہ پوچھو کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ248۔249

79۔ ایک روشن اُجالا جلو میں لئے آرہی ہے سحر یہ تسلّی تو ہے ایک روشن اُجالا جلو میں لئے آرہی ہے سحر یہ تسلّی تو ہے تیرگی مستقل رہنے والی نہیں رات ہے مختصر یہ تسلّی تو ہے چھوڑ کے جس کو سرگرداں پھرتی رہی ایک دن لَوٹ کر پھر وہیں جائے گی بہرِ ذہنِ بشر سانحہ ہی سہی بہرِ رُوحِ بشر یہ تسلّی تو ہے میرے رب کی یہ دُنیا ہے کتنی حسیں چھوڑنا اس کو بے حد کٹھن کام ہے پر وہاں بھی تو جنت کی رعنائیاں ہیں مِری منتظر یہ تسلّی تو ہے راہ کھونے کا کھٹکا نہ رہزن کا ڈر ، اپنی منزل کی جانب بڑھیں بے خطر وہ کہ ہر شئے پہ رکھتا ہے گہری نظر ، ہے وہی راہبر یہ تسلّی تو ہے بے بہا مال و زر دولتیں بھی نہیں کوئی بھر پور آسائشیں بھی نہیں پر سکون و محبت کا مسکن تو ہے میرا پیارا سا گھر یہ تسلّی تو ہے ایسا انسان جس میں نہیں ہے ریا ، مجھ سے وابستہ رکھی ہے جس نے وفا ذات کو میری جس نے تحفّظ دیا ہے مرا ہم سفر یہ تسلّی تو ہے اُس کی باتوں پہ کیسے نہ آئے یقیں ایک مدّت ہوئی ہے پرکھتے ہوئے ذات بھی محترم یہ بھروسہ تو ہے بات بھی معتبر یہ تسلی تو ہے مجھ پہ برہم ہؤا ہے اگر وہ کبھی اُس کی باتیں گِراں بھی ہیں گذری مگر برہمی بھی تو اُس کی ہے ظاہر ہوئی پیار کے مان پر یہ تسلّی تو ہے اتنے رشتوں میں محصور ہو کے یہاں تلخیاں بھی ہوئیں، رنجشیں بھی ہوئیں پر مَیں تنہا نہیں میری تکلیف میں جاگتا ہے شہر یہ تسلّی تو ہے مجھ پہ سو سو فسانے بنائیں مگر میری شادی غمی میں یہی آئیں گے میرے ماحول میں میرے اپنے ہیں سب قصّۂ مختصر یہ تسلّی تو ہے

کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ250۔252 80۔ خرد کی میزان پہ تلیں جو وہ چاہتیں کیا وہ پیار کیسا خرد کی میزان پہ تلیں جو وہ چاہتیں کیا وہ پیار کیسا دلوں کے ہوتے ہیں نقد سودے محبتوں میں ادھار کیسا اے کور چشمو ذرا تو دیکھو وہ اپنے جلوے دکھا رہا ہے دمک رہا ہے چمک رہا ہے یہ آج روئے نگار کیسا نگاہ اُن سے ملی ہے جب سے عجیب کیف و سرور سا ہے یہ دل بھی حیران ہو رہا ہے کہ بن پئے ہی خمار کیسا یہ کس کی آمد کے تذکرے ہیں کہ باغ سارا مہک اُٹھا ہے کلی کلی میں چٹک ہے کیسی روش روش پہ نکھار کیسا ہے وقت کی بات زاوئیے جو نگاہ و دل کے بدل رہے ہیں جو آج نظریں چُرا رہا ہے وہ ہو رہا تھا نثار کیسا قناعتوں کا اصول یہ ہے جو نہ ملے اُس کو بھول جاؤ جو حد نہیں آرزو کی کوئی تو حسرتوں کا شمار کیسا گلی گلی میں ہر اک زباں اک نئی کہانی سُنا رہی ہے یہ میرے رازوں کا رازداں نے لگا دیا اشتہار کیسا بہت سے پیچیدہ موڑ آئیں گے ہمتوں کو جوان رکھنا اگر مسائل کی ہے یہ دنیا تو مسئلوں سے فرار کیسا یہ کیسا سوزِجگر ہے سینہ دہک رہا ہے سلگ رہا ہے لہو میں مل کے رگوں میں گردش یہ کر رہا ہے شرار کیسا تڑپ تڑپ کے مچل مچل کے مجھے ہراساں کئے ہے دیتا ہے جب تلک بر میں دل سافتنہ، سکون کیسا قرار کیسا ہو رابطہ درمیاں میں کوئی تو لوٹ آنے کی آس بھی ہو جو سب تعلق ہی توڑ ڈالے تو اُس کا پھر انتظار کیسا تمہاری ہر اک ادا سے کیسی خود اعتمادی جھلک رہی ہے یہ چاہتوں کی عطا نے بخشا ہے ذات کا اعتبار کیسا ہے بیعتِ دل کا یہ تقاضا کہ نفس کو خاک میں ملا دیں جو ذات ہی اپنی بیچ دی تو خیال عزّووقار کیسا وہ جن کو چاہیں پیا اُنہی کو سہاگنوں کی سند ملی ہے نہ پی کی نظروں میں جو سمائے وہ روپ کیسا سنگھارکیسا چلو یہ مانا کہ اہلِ دنیا بہت بُرے ہیں مگر بتاؤ تمہارے ہاتھوں میں پھول کیوں ہیں تمہاری گردن میں ہار کیسا وہ بیٹھ کے مجلسوں میں اپنی ہر اک پہ باتیں بنا رہا تھا جو روبرو آئینے کے آیا تو ہو گیا شرمسار کیسا لرزتی گردن ، خمیدہ شانے، بدن تھکن سے ٹسک رہا ہے اٹھائے پھرتے رہے ہیں آخر ہم اپنے کاندھوں پہ بار کیسا خود اپنے جذبوں کے سنگ ریزوں سے چھلنی چھلنی ہوا ہے سینہ یہ میرے اپنے ہی دل نے ہے کر دیا مجھے سنگسار کیسا اگر کوئی غیر اس میں آ کے نقب لگائے تو خود ہی سوچو کہ پیار کی یہ فصیل کیسی ہے چاہتوں کا حصار کیسا یہ ترش باتیں یہ تلخ لہجے اور اس پہ دعوے محبتوں کے یہ دوستی کے چلن ہیں کیسے یہ دلبری کا شعار کیسا چلی نہیں گر اَنا کی آندھی تمہی کہو پھر کہ بات کیا ہے یہ میرے چہرے پہ گرد کیسی تمہارے دل میں غبار کیسا کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ253۔254 81۔ کہہ رہی ہے شمع سے یہ سوختہ جانوں کی راکھ کہہ رہی ہے شمع سے یہ سوختہ جانوں کی راکھ اُڑتی ہے کوئے وفا میں تیرے پروانوں کی راکھ ابن آدم کی ترقی ہو رہی ہے اس طرح ہر طرف بکھری ہوئی ہے قیمتی جانوں کی راکھ کیا تمہی ہو اشرف المخلوق کہتے ہیں جسے پوچھتی ہے آج انسانوں سے انسانوں کی راکھ اہلِ سطوت کے غرور و جاہ حشمت کیا ہوئے درسِ عبرت دے رہی ہے اُن کے ایوانوں کی راکھ روزوشب تھیں گونجتیں جن میں کبھی شہنائیاں آج نوحے کر رہی ہے اُن طرب خانوں کی راکھ شان و شوکت مٹ گئی اور جسم مٹی ہو گئے ریگِ صحرا میں ملی کتنے ہی خاقانوں کی راکھ خامہ ہائے ظلم سے تحریر جو ہوتے رہے ہم نے تو اُڑتے ہی دیکھی ایسے فرمانوںکی راکھ باغبانوں پہ ہے حیرت گلستاں لوٹا کیے کتنے گل مسلے، اڑائی کتنے کاشانوں کی راکھ ''آبلہ پائی مری سیراب کس کس کو کرے'' میرے پاؤں سے لپٹتی کیوں ہے دیوانوں کی راکھ واعظا! تو نے جو میخانہ جلا ڈالا تو کیا ہے مئے دو آتشہ سے بڑھ کے پیمانوں کی راکھ اُس کی درگہ میں جو نہ کوئی رسائی پا سکے! دل کے شیشے پہ جمی ہے ایسے ارمانوں کی راکھ کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ255۔256 82۔ انساں کی زندگی ہے یا بلّور کا ایاغ انساں کی زندگی ہے یا بلّور کا ایاغ یا آندھیوں کی زد میں ہے رکھا ہوا چراغ روحِ ازل کے راز کی تحقیق کیا کرے خود اپنی ذات کا جسے ملتا نہ ہو سراغ رنگین پیرہن میں چھپائے تو کیا کِیا مٹتے نہیں مٹائے سے محرومیوں کے داغ اہلِ چمن کو سود و زیاں کا نہیں خیال نہ باغباں کو فکر کہ مرجھا رہا ہے باغ گلشن کو اپنی مِلک تصور کئے ہوئے چوٹی پہ ایک سرو کی بیٹھا ہوا ہے زاغ ہو کس کا اعتبار کہ سوداگرانِ وقت دیتے ہیں برگ خشک دکھاتے ہیں سبز باغ وہ آپ اپنے راز کی تشہیر بن گئے پیشانیوں پہ ثبت ہیں رسوائیوں کے داغ دونوں ہی ایک تیز سفر کر رہے ہیں طے نہ وقت کو قرار نہ انساں کو ہے فراغ اہلِ وفا کے گِرد اُجالے رہے محیط لو دے اُٹھے ہیں دل جہاں بجھنے لگے دماغ یاروں نے اتنی دور بسالی ہیں بستیاں اب اُن کے نقشِ پا کا بھی ملتا نہیں سراغ کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ257۔258 83۔ بے دردی سے ربط ہی سارے توڑ لئے متوالوں نے بے دردی سے ربط ہی سارے توڑ لئے متوالوں نے ہجر کی کالی چادر تانی بیچ میں نین اُجالوں نے ہم کتنوں کی دید شنید کی لذت سے محروم ہوئے ''بستی کتنی دور بسالی دل میں رہنے والوں نے'' ہاتھ اٹھا کے مانگ ہی لیں کچھ اس کی بھی توفیق نہیں ایسا چور کیا ہے اپنے خود پالے جنجالوں نے دنیا کا ہر ربط، تعلق پاؤں کی زنجیر بنا چاہیں بھی تو چھوٹ نہ پائیں یوں جکڑا ان جالوں نے مان بہت تھا خود پہ پر بچوں کے آگے ہار گئے اپنا تو منہ بند کیا ان کے معصوم سوالوں نے یہ دھرتی تو اُن کو بھی احساسِ تحفظ نہ دے سکی اپنے خون سے سینچا اِس کو جن ماؤں کے لالوں نے میرے دیس کے باسی کس کے آگے جا فریاد کریں اِس کو تو لوٹا ہے اِس کے اپنے ہی رکھوالوں نے شوخ امنگیں، جذبے، ہمت، روپ، جوانی، دل کی متاع کیا بتلائیں کیا کچھ چھینا ہم سےبیتے سالوں نے آندھی، بارش، دھوپ، کڑی کٹھنائی سے محفوظ رہے جن لوگوں کو ڈھانپ لیا ہے رحمت کے ترپالوں نے کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ259۔261 84۔ مری جاں آزمانا گو تمہیں کیا کیا نہ آتا ہے مری جاں آزمانا گو تمہیں کیا کیا نہ آتا ہے ہمیں بھی پیش کرنا نفس کا نذرانہ آتا ہے خرد مندوں کے ہاتھوں میں نظر آنے لگے پتھر اِدھر پھر جھومتا گاتا کوئی دیوانہ آتا ہے عجب کہرام مچ جاتا ہے اہل دل کی محفل میں شمع کی لَو پہ رقصاں جب کوئی پروانہ آتا ہے جو  پائے تو اس کو روک لے تو واعظا بڑھ کے وہ آتا ہے مرے گھر اور بے باکانہ آتا ہے رقیبوں کو مرے میری وجہ سے مل گئی شہرت کہ میری داستاں میں اُن کا بھی افسانہ آتا ہے وہ نظریں پاؤں میں میرے سلاسل ڈال دیتی ہیں مجھے جب بھی خیالِ جرأتِ رندانہ آتا ہے ذرا سوچو ہماری محفلوں کا رنگ کیا ہو گا تڑپنا جانتے ہیں ہم اُسے تڑپانا آتا ہے اُٹھاتا ناز ہے کہ خود بھی مردِ عشق پیشہ ہے وہ دلبر بھی ہے اُس کو ناز بھی فرمانا آتا ہے اُسے مل کر نئے جذبے جنم لیتے ہیں سینے میں کہ جنبش سے لبوں کی اُس کو دل گرمانا آتا ہے یہ کیا ممکن نہیں کہ دل کو ہی کعبہ بنا ڈالیں حرم کی رہ میں تو ہر گام پہ   بت خانہ آتا ہے نہ میری خامیوں کا تم مجھے احساس دلواؤ مجھے کرنی پہ اپنی آپ بھی شرمانا آتا ہے جو نادم ہو اُسی پہ تو نگاہِ لطف پڑتی ہے وہی یاں فیض پاتا ہے جسے پچھتانا آتا ہے چلے گا دورِ ساغر جامِ مَے گردش میں آئے گا خوشا! یارانِ محفل ساقی میخانہ آتا ہے مجھے کیا کجکلاہوں سے کہ ہے شاہِ دل و جانم جو اپنائے ہوئے اندازِ درویشانہ آتا ہے مجھے اب بادہ و جام و سُبو کی کیا ضرورت ہے مِرا محبوب آنکھوں میں لئے خمخانہ آتا ہے عجب رندوں کی محفل ہے خوشی سے جھوم جاتے ہیں کسی نوآمدہ کے ہاتھ جب پیمانہ آتا ہے یہ دنیا جال سے اپنے نکلنے ہی نہیں دیتی خیالِ بے ثباتی تو ہمیں روزانہ آتا ہے کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ262۔263 85۔ کوئی پکارتا ہے یہ بوجھ تلے دبا ہوا کوئی پکارتا ہے یہ بوجھ تلے دبا ہوا میرا خدا کہاں گیا میرے خدا کو کیا ہوا خستگی کا یہ حال ہے سبکی نظر میں آ گیا دامن بھی ہے جو تار تار چاک بھی یہ پھٹا ہوا میرے سمندِ شوق کی کھینچی گئی زمام بھی میرے محلِ فکر پہ پہرہ بھی ہے لگا ہوا ایسی چلی ہوا کہ یہ حالت انتشار ہے نفس کہیں، نظر کہیں، دل ہے کہیں پڑا ہوا کیسی عجیب بات ہے چرکے لگا کے آپ ہی دل کو تڑپتا دیکھ کے پوچھتے ہیں کہ کیا ہوا پوچھ رہا ہے آئینہ چہرہ یہ کیوں بدل گیا بگڑے ہوئے ہیں نقش بھی رنگ بھی ہے جلا ہوا وقت کے چکّروں میں تو گھوم گیا دماغ بھی نظریں بھی مضحل سی ہیں جسم بھی ہے تھکا ہوا تلخی گھلے کلام میں کوئی بعید تو نہیں سینہ بھی ہے سلگ رہا ، ذہن بھی ہے تپا ہوا کس کو خبر کہ کون کون اس سے ہوا ہے فیضیاب دیمک زدہ سا پیڑ جو تنہا ہے اب کھڑا ہوا پنکھ پکھیرو اُڑ گئے زرد رُتوں کو دیکھ کے وہ جو کبھی تھا سَرو سا کیسا ہے اب جُھکا ہوا ٹیڑھی نظر سے دیکھتا غیر کی کیا مجال تھی تیری نظر کو دیکھ کے اُس کو بھی حوصلہ ہوا اُس سے کبھی ہمارے بھی گہرے تعلقات تھے گذرا ہے جو ابھی ابھی اجنبی سا بنا ہوا کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ264۔265 86۔ مرے مولا ، مرے آقا ، کرم مجھ پہ یہ فرمائیں مرے مولا ، مرے آقا ، کرم مجھ پہ یہ فرمائیں فرشتوں سے کہیں میرے لئے خیرات لے آئیں ترے دَر کے سوا کوئی ٹھکانہ ہی نہیں اپنا ترا در چھوڑ کے تُو ہی بتا پھر ہم کہاں جائیں تمہارے لُطف نے ہی میری یہ عادت بنا دی ہے کہ مَیں مانوں نہ مانوں آپ میری مانتے جائیں عطا ہوتی رہی مجھ پہ مگر پردے کے پیچھے سے کبھی دیدار کروائیں، کبھی تو چہرہ دکھلائیں تپکتے گھاؤ لے کر آپ کے در پہ مَیں آئی ہوں کریں چارہ گری میری، مرے زخموں کو سہلائیں مِرا دل لُوٹ لینے کے سبھی ساماں بہم کر دیں کبھی اَبرو کو حرکت دیں، کبھی زلفوں کو لہرائیں مسائل زندگی کے مجھ کو عاجز کرتے جاتے ہیں مِری ہستی کی اُلجھی گُتھیوں کو آ کے سلجھائیں جو دل ہو گا تو اس میں آرزؤیں بھی جنم لیں گی عجب کیا ہے جو پیدا ہوں مرے دل میں تمنائیں مَیں ہو ں محتاج ہر اک خیر کی ، سب کچھ عطا کر دیں کھلونے دے کے بس چند ایک ہی مجھ کو نہ بہلائیں ''شبِ تاریک، بیمِ موج و گردابِ چنیں حائل'' ١؎ پکڑ لیں ہاتھ میرا، خود مجھے ساحل پہ پہنچائیں تقاضہ حُسن کا ہے ناز فرمانا، مگر جاناں بٹھالیں پہلے پہلو میں مجھے پھر ناز فرمائیں کہیں نہ لَن ترانی دید کی طاقت ادا کر دیں شبستاں میں مرے بھی چاندنی بن کے اُتر آئیں نظر بے تاب ، دل بے چین ہے، جذبے مچلتے ہیں چلے آئیں، چلے آئیں، چلے آئیں، چلے آئیں وساوس ، خوف ، اندیشے مجھے پَل پَل ڈراتے ہیں میرے دل کو تسلّی دیں ، مری ڈھارس بندھا جائیں ١؎ یہ مصرع حافظ ؔکا ہے۔ کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ266۔267 87۔ کون سمجھائے کسی کو کیا ہے دردِ بے بسی کون سمجھائے کسی کو کیا ہے دردِ بے بسی وہ ہی جانے جو کہ خود سہتا ہے دردِ بے بسی ہے یہی انسان کی اوقات اس کے ہاتھ میں ہے اگر کچھ تو فقط تنہا ہے دردِ بے بسی زندگانی کے سفر میں ساتھ کوئی دے نہ دے ہمسفر اس راہ میں رہتا ہے دردِ بے بسی ذہن کی اونچی اڑانیں اور بے بال و پری کیسے کیسے دل کو تڑپاتا ہے دردِ بے بسی دن کو تو اک حبس کا عالم رہا دل پہ مگر رات کی تنہائی میں برسا ہے دردِ بے بسی بے بسی کی کیفیت اپنی کروں میں کیا بیاں بے بسوں کو دیکھ کے تڑپا ہے دردِ بے بسی اُس کے دل کی کرچیاں میرے بھی دل میں چُبھ گئیں جسکی آنکھوں میں نظر آیا ہے دردِ بے بسی درد سب جاتے رہے سینے سے جب یہ آ لگا چارۂ دردِ دگر حقّا ہے دردِ بے بسی ایک اعلیٰ ذات کے در کا بتاتا ہے نشاں بے وسیلہ جب مجھے پاتا ہے دردِ بے بسی جب لپک کے اُس نے مجھ کو لے لیا آغوش میں میں نے جانا نعمتِ عظمیٰ ہے دردِ بے بسی کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ268۔270 88۔ کاش اب تو زندگی میں ابتلاء کوئی نہ ہو کاش اب تو زندگی میں ابتلاء کوئی نہ ہو آزمائش کا کٹھن اب مرحلہ کوئی نہ ہو چاہتا ہے دل مرا کہ پُر سکوں ہو زندگی رنج و غم، یاس و الم میں مبتلا کوئی نہ ہو رقص فرما ہوں بہاریں گلستاں میں چار سُو سب ہوں آسودہ گرفتارِ بلا کوئی نہ ہو راستے ہموار ہوں اور منزلیں آسان ہوں الجھنیں، پیچیدہ فکریں، مسئلہ کوئی نہ ہو سوچتی ہوں مَیں کہ کیا ایسا کبھی ممکن بھی ہے زندگی بھرپور ہو اس میں خلا کوئی نہ ہو ہو پرکھ اہلِ وفا کی کس طرح سے پھر اگر راہِ ہستی میں جو دشتِ کربلا کوئی نہ ہو ہے فقط اہلِ وفا کو تو وفاؤں سے غرض گرچہ یاں اُن کی وفاؤں کا صلہ کوئی نہ ہو ایسا دل کس کام کا احساس سے عاری ہو جو خواہشیں، جذبے، امنگیں، ولولہ کوئی نہ ہو اُس کو پانا ہے اگر تو اپنی ہستی کو مٹا بیچ میں تیری اَنا کا سِلسلہ کوئی نہ ہو خواہ ٹوٹے مان یا کہ چوٹ بھی دل پر پڑے پھر بھی بہتر ہے یہی لب پہ گلہ کوئی نہ ہو آہ بھی نِکلے تو پڑجائیں ہوا میں آبلے اس طرح سے بھی جہاں میں دل جلا کوئی نہ ہو رات دن تپتا ہو جو سِینہ وفورِ سوز سے کیسے ہو سکتا ہے اس میں آبلہ کوئی نہ ہو آؤ دیوانوں کی اک بستی بسائیں ہم جہاں سب گریباں چاک ہوں دامن سِلا کوئی نہ ہو ہے تباہی کا سبب کچھ تو کہ ممکن ہی نہیں زلزلہ تو ہو مقامِ زلزلہ کوئی نہ ہو دل ملیں ایسے کہ پھر فرقِ من و تُو نہ رہے فرقتیں بھی ہوں اگر تو فاصلہ کوئی نہ ہو مَیں تو کٹھ پتلی ہوں جو بھی اُس نے چاہا ہو گیا کیا کروں گر اختیارِ فیصلہ کوئی نہ ہو قطعہ مرے حبیب دیکھ تو تیرے یہ جانثار کس درجہ دل گرفتہ ہیں کتنے ہیں بے قرار ہر دل ہے مثلِ ماہی ء بے آب آج کل سینے تپک رہے ہیں تو آنکھیں ہیں اشکبار کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ271۔272 89۔ باوجود اس کے کہ ہیں میری خطائیں بے شمار باوجود اس کے کہ ہیں میری خطائیں بے شمار میرے مولیٰ کی رہیں مجھ پہ عطائیں بے شمار حسن کے جلوے فقط بہرِ نکوکاراں نہیں عاصیوں نے بھی تو دیکھی ہیں ادائیں بے شمار آزمائش کی گھڑی، کرب و بلا کے امتحاں سب بجا، پر رد ہوئی بھی ہیں بلائیں بے شمار ہم رہِ جاناں کے راہی دار پر کھینچے گئے عشق میں اُن کے سہیں ہم نے جفائیں بے شمار اِک ذرا سی بات پہ وہ کیوں خفا ہونے لگے یاد کیا انکو نہیں میری وفائیں بے شمار ناتوان و مضمحل ہیں ہجر کے مارے ہوئے اب نہیں طاقت کہ ہم صدمے اٹھائیں بے شمار ذکر کیا غیروں کا وہ تو غیر ہیں پر میری جاں آپ تو نہ اسطرح چَرکے لگائیں بے شمار میرے عیبوں کی نہ کرنا مالِکا پردہ دری ڈال دینا مُجھ پہ غفراں کی ردائیں بے شمار داغ ہائے معصّیت دِل سے مٹانے کےلئے عاصیوآؤ کہ ہم آنسو بہائیں بے شمار آؤ پھر مِل کے کریں تجدید ذوق ِعشق کی چاند پھر عہدِ وفا کے جگمگائیں بے شمار میں بھی اُن کی ہوں مجھے بھی اُن سے کچھ حصّہ ملے میرے آقا نے جو مانگی ہیں دعائیں بے شمار دیکھئے کب لوٹ کے آتی ہیں جھولی کو بھرے عرش پر پہنچی ہیں جو مضطر صدائیں بے شمار کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ273۔275 90۔ رحمت کی آس میں مِرا دستِ دُعا دراز رحمت کی آس میں مِرا دستِ دُعا دراز اِک نظرِ التفات سے مولا مُجھے نواز ہر آن ہے لپیٹ میں اپنی لئے ہوئے احساس کی تپش مجھے افکار کا گداز لمحے جُدائیوں کے بہت ہوگئے طویل فُرقت کی لَے میں ڈوبی ہوئی ہے نوائے ساز خُدّام کے فراق میں محمود بے قرار شہرِ وفا میں مضطرب محمود کے ایاز ربِّ کریم! شانِ کریمی کا واسطہ پہلی سی ڈال پھر وہی اک نِگہِ نیم باز یہ ابتلا کا دَور بھی ہم کو قبول ہے آقا مرے بخیر رہیں عمر ہو دراز اَب تابِ ضبط و صبر و تحمل نہیں رہی اَے ذوالجلال! آئینِ رحمت کا ہو نفاذ میری مجال کیا ہے کہ شکوہ کروں ترا گستاخیاں نہیں ہیں محبت کے ہیں یہ ناز تیرے سوا ہے کون؟ تری ذات ہی تو ہے مشکل کُشا، مجیبِ دُعا، ربِّ کارساز تیرے ہی پاس ہے مرے ہر کرب کا علاج چارہ گری کا کوئی کرشمہ! اے چارہ ساز بے پایاں تیری نعمتیں، رحمت ہے بے کراں انساں کی پستیوں کو بھی بخشا گیا فراز مالک ہے تُو کریم ہے تُو، بے نیاز ہے نے حاجتِ عمل تجھے، نے حاجتِ جواز ہاں مردِ فارسی سے تعلّق مرا بھی ہے تیری عنایتوں کے تصدّق مجھے نواز اَب جلد آ کہ سنگِ عداوت کی زد میں ہے میری اذان، میری عبادت، مری نماز تدبیر کوئی کر تری تدبیر چاہئے۔۔۔۔! میں سادہ و غریب ہوں دشمن زمانہ ساز لَا تَقْنَطُواکا قول ہے ڈھارس دئیے ہوئے تیری گرفت سخت ہے، پر ڈھیل ہے دراز تشنہ لبانِ مشرق و مغرب کو ہو نوید بٹتی ہے آج پھر مئے خُم خانۂ حجاز کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ276۔277 91۔ لو جگ والوں کی بات سُنو سب کہتے ہیں یہ بھٹک گیا لو جگ والوں کی بات سُنو سب کہتے ہیں یہ بھٹک گیا پر اس میں ہمارا دوش ہی کیا من کانٹا لوبھ میں اٹک گیا اِک جا پہ نہیں بسرام اسے، من تیرا بالک گیند ہوا اب اِس چلمن سے ٹکرایا اب اُس آنگن میں سَٹک گیا اس پاپی کا وشواس ہی کیا جسے پل دو پل بھی چین نہیں کبھی اِن نینوں پہ ریجھ گیا کبھی اُن زلفوں میں اٹک گیا اب نگری نگری بھٹکے گا یہ پگ پگ ٹھوکر کھائے گا جس ہاتھ میں اس کی ریکھا تھی وہ ہاتھ ہی پاپی جھٹک گیا ہے اپنی اپنی سوجھ سکھی تو یہ تو پہیلی بوجھ سکھی جس بول نے تجھ کو پرچایا مجھ من میں کاہے کھٹک گیا سب افسانوں کی باتیں ہیں یا جگ میں ایسی نار بھی ہے جو ہنسی تو موتی بکھر گئے بولی تو غنچہ چٹک گیا کوئی اونچا ہو کوئی نیچا ہو کوئی کنکر ہو کہ موتی ہو یہ وقت کا برتن تو سب کو بس ایک طرح سے پھٹک گیا کیا کشٹ اٹھانے پڑتے ہیں من مندر سُتھرا رکھنے کو سوچوں پہ ذرا سی گرد پڑی تو اس میں جالا لٹک گیا یہ وقت کا پنچھی تو آگے سے آگے اُڑتا جائے ہے ہاں اِک پل کو دیوار پہ آکے ٹھہرا، ٹھٹھکا، مٹک گیا کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ278۔279 92۔ جگمگ جگمگ چمکا تارا چاند اُفق میں ڈوب گیا جگمگ جگمگ چمکا تارا چاند اُفق میں ڈوب گیا اُجلا اُجلا، پیارا پیارا چاند اُفق میں ڈوب گیا آنکھیں موندے سوچوں میں مَیں چاند سے باتیں کرتی ہوں ایک منادی آن پکارا چاند اُفق میں ڈوب گیا کرنوں کی بارات سجی تھی ڈالی ڈالی جوبن تھا گلشن گلشن رنگ نیارا، چاند اُفق میں ڈوب گیا سورج، چاند، ستارے، سب کا اپنا اپنا سندر روپ ٹھنڈی کرنوں کا گہوارہ چاند اُفق میں ڈوب گیا ہر شے فانی، آنی جانی پل دو پل کا کھیل ہوئی گاتا جائے یہ بنجارا چاند اُفق میں ڈوب گیا جو آئے وہ جائے اک دن جو اُبھرے وہ ڈوبے ہُو جگ کو کر کے یہی اشارہ چاند اُفق میں ڈوب گیا ڈاکو، چور لٹیرے سارے میرے گھر پر ٹوٹ پڑے ظلمت میں اُن کا ہی اجارہ چاند اُفق میں ڈوب گیا ایک بروگن تڑپے، مچلے رو رو کے فریاد کرے اس کی تو قسمت کا تارا چاند اُفق میں ڈوب گیا دو دن کی ہے بپتا، دھیرج، من سرگوشی کرتا ہے چمکے گا یہ پھر دوبارہ چاند اُفق میں ڈوب گیا پل دو پل کو ٹھٹھکا، ٹھہرا پھر ویسے ہی رواں دواں بہتا جائے وقت کا دھارا، چاند اُفق میں ڈوب گیا کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ280۔282 93۔ کُل سے اپنی ذات کے جُز کو جدا کیسے کروں کُل سے اپنی ذات کے جُز کو جدا کیسے کروں خود کشی کرنے کا اپنی حوصلہ کیسے کروں اپنے گرد و پیش میں محسوس کرتی ہوں تجھے پھر تیرا انکار اے میرے خدا کیسے کروں دید پہ مچلے ہوئے دل کی یہ ضد بھی خوب ہے جس کو دیکھا ہی نہیں اُس سے وفا کیسے کروں حسن کے جلوے تو ہیں اتنے حجابوں میں نہاں پیار کا اظہار پھر میں برملا کیسے کروں زنگ آلودہ جو دل ہے کس طرح صیقل ہو وہ صاف کرنے کی اسے میں ابتداء کیسے کروں ہوں بہت کمزور میں کیسے نبھاؤں عہد کو آپ بتلائیں کہ تجدیدِ وفا کیسے کروں بے نوائی، بے بسی، بے مائیگی، درماندگی مالکا میں بندگی کا حق ادا کیسے کروں ذہن و دل جکڑے ہوئے ہیں نفس کی زنجیر میں قید سے اپنی ہی میں خود کو رہا کیسے کروں میں شکستہ پَر یہاں اور آپ کی اونچی اُڑان خود بتائیں طے میں اتنا فاصلہ کیسے کروں کچھ نہ کچھ تو بے نیازی کا مری ہوگا قصور دوستوں کی سرد مِہری کا گلہ کیسے کروں جن کے دم سے زندگی کی محفلیں آباد ہیں اُن سے ترکِ دوستی کا فیصلہ کیسے کروں ''زندگی نکلی مسلسل امتحاں در امتحاں'' سہل اس کی مشکلوں کا مرحلہ کیسے کروں مجھ کو سجدے میں گرا دیتا ہے میرا اضطراب مطمئن ہو جاؤں گر میں تو دعا کیسے کروں کیا کروں چارہ کہ کھل جائے تیرا بابِ کرم اپنے دردِ نارسائی کو رسا کیسے کروں کتنے ہی کشکول اپنے سامنے رکھے ہوئے سوچتی رہتی ہوں عرض مدعا کیسے کروں سوزِ دل سے آخرش کیسے ہلاؤں عرش کو خوں فشانی کس طرح، آہ و بکا کیسے کروں کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ283۔284 94۔ ہم نے بھی جب پیار کیا تھا آئے تھے سمجھانے لوگ ہم نے بھی جب پیار کیا تھا آئے تھے سمجھانے لوگ دیکھے دیکھے چہروں والے، بیگانے بیگانے لوگ اپنے ہاتھوں سے وہ اس میں اور بھی گانٹھیں ڈال گئے جب بھی آئے یارو اُلجھے رشتوں کو سلجھانے لوگ سچ ہے کتنا جھوٹ ہے کیا یہ کچھ بھی تو معلوم نہیں ایک ذرا سی بات کو لے کر بُنتے ہیں افسانے لوگ آنسو، آہیں، سوز، جلن سب اس محفل کا تحفہ ہیں جس محفل میں جا بیٹھے تھے اپنا جی بہلانے لوگ کیسی توبہ کس کی توبہ دِل کیا اپنے بس میں ہے یہ سنبھلے تو آجاتے ہیں پھر اِس کو بہکانے لوگ بیتی باتیں، بسرے قصے، گذری خوشیاں، بھولے لوگ مل بیٹھیں تو لگتے ہیں پھر جی کا روگ جگانے لوگ کس کے دِل میں سانپ چھپا ہے اتنا تو معلوم نہیں موقع ملتے لگ جاتے ہیں من کا زہر دِکھانے لوگ ہاتھ میں مشعل، دِل میں نفرت، ہونٹوں پر مسکان لئے پیار کے خرمن میں آتے ہیں یوں بھی آگ لگانے لوگ اوروں کے ایوان سجائے اتنی فرصت کس کو ہے اپنے ہی آباد نہیں کر پاتے ہیں ویرانے لوگ کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ285۔286 95۔ دکھ درد سے ہی زندگی پاتی رہی جِلا دکھ درد سے ہی زندگی پاتی رہی جِلا ''پُرنم ہوئی جو آنکھ نگاہیں سنور گئیں'' جب تیرا قرب بھی مجھے تسکیں نہ دے سکا مجھ پہ تو وہ بھی حشر کی گھڑیاں گزر گئیں اپنی ہی ذات کا ہمیں عرفاں نہ ہو سکا کیفیتیں شعور کی گرچہ نکھر گئیں ہر سمت اُس کے حسن کے جلوے نظر پڑے دیکھا اُسی کو میری نگاہیں جدھر گئیں میری خطائیں جب تیرے غفراں نے ڈھانپ لیں میری حیات کی سبھی راہیں سنور گئیں یہ یک بہ یک نگاہ کرم کس طرح ہوئی اُن کی نوازشیں مجھے حیران کر گئیں یوں محفل سخن میں غزل خواں ہؤا کوئی رعنائیاں خیال کی ہر سُو بکھر گئیں اِک دوسرے کا ہم نے سہارا کیا قبول یوں مشکلاتِ زیست کی گھڑیاں گذر گئیں اُس رحمت اَتم کا درِ مغفرت کھلا آہیں جو عرش پر مری شام و سحر گئیں کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ287۔288 96۔ یاں کوئی کسی کا مِیت نہیں دنیا کا یہی دستور ہوا یاں کوئی کسی کا مِیت نہیں دنیا کا یہی دستور ہوا پھر دل کیوں روگ لگا بیٹھا اِس کارن کیوں رنجور ہوا نہ موت تِری نہ زیست تِری نہ ہار تِری نہ جیت تِری ماٹی کے پُتلے بول ذرا کس بات پہ تو مغرور ہوا تاریکی تھی اندھیارا تھا اِک دُھند سی چھائی رہتی تھی اُس نے جو جلوہ دکھلایا تو ہر سُو نور ظہور ہوا سب اُس کے رہین منت ہیں یہ جام یہ صہبا کیا کرتے ساقی نے نظر کو جنبش دی نہ رند کوئی مخمور ہوا کس کس کا سوگ منائے گی کس کس کا روگ لگائے گی اِس جگ کی یہی ہے ریت سکھی یہ پاس آیا وہ دور ہوا دیکھا نہ کبھی ہوگا تم نے یارو کوئی ہم سا دیوانہ کہنے کو تو ویسے مجنوں کا قصہ بھی بڑا مشہور ہوا جلنے کو تو دونوں جلتے ہیں تقدیر کا چکر دیکھو تو ''پروانے جلے تو خاک ہوئے اور شمع جلی تو نور ہوا''١؎ ہونٹوں پہ مدھر مسکان لئے اک شخص تھا بزمِ یاراں میں دکھ کا نہ کسی کو بھید دیا، اندر سے چکنا چور ہوا بس اہلِ بصیرت ہی اس کے جلووں کا نظارا کر پائیں ہر چیز کو اپنا عکس دیا، خود پردے میں مستور ہوا شیشے کی طرح سے رکھا تھا پر دل کا مقدر کیا کہیے جو چوٹ لگی گہری ہی لگی جو وار ہوا بھرپور ہوا ١؎ یہ مصرع نظر امروہوی کا ہے۔ کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ289 97۔ شروع جنت سے ہو کے اس جہاں تک بات پہنچی ہے شروع جنت سے ہو کے اس جہاں تک بات پہنچی ہے کہاں سے بات نکلی تھی، کہاں تک بات پہنچی ہے خطا کرتے نہ گر آدم تو نقشہ اور ہی ہوتا ذرا سی ایک لغزش سے کہاں تک بات پہنچی ہے یہ نسلِ آدمِ خاکی کی نکتہ دانیاں توبہ نکل کے اب مکاں سے لا مکاں تک بات پہنچی ہے کہیں ایسا نہ ہو یہ زندگی کا روگ بن جائے وہیں پہ ختم کر دیجے جہاں تک بات پہنچی ہے زمانے بھر میں میرے راز کی تشہیر اب ہوگی الٰہی خیر میرے راز داں تک بات پہنچی ہے کسی محفل میں جب بھی تذکرہ ہو جورِ اعدا کا تو رفتہ رفتہ لطفِ دوستاں تک بات پہنچی ہے سرِ مقتل نظر آنے لگی ہے خون کی سرخی کہ جب بھی اہل دل کی داستاں تک بات پہنچی ہے کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ290۔291 98۔ دلِ میرا مدتوں کا پیاسا دکھائی دے دلِ میرا مدتوں کا پیاسا دکھائی دے دریا بھی سامنے ہو تو قطرہ دکھائی دے دیکھوں اسے تو برف کی سِل سی نظر پڑے چُھو لوں اسے تو آگ کا دریا دکھائی دے سب کہہ رہے ہیں، اپنی ہی سُنتا نہیں کوئی ہر شخص ہی مجھے یہاں بہرہ دکھائی دے پیری کی پارسائی کے قصے فضول ہیں اس عمر میں تو باغ بھی صحرا دکھائی دے وہ جانچنے پہ کنکر و پتھر نظر پڑے جو دیکھنے میں چاند کا ٹکڑا دکھائی دے نازاں ہے دیکھ آئینہ پگلی کو کیا کہوں اس دَور میں تو ہر کوئی اچھا دکھائی دے تیری یہ چاہ، میری محبت فریب ہے ہر شخص اپنی ذات کا شیدا دکھائی دے گر دیکھئے تو ہر قدم انبوہِ دوستاں اور سوچئے تو ہر کوئی تنہا دکھائی دے آنکھیں کھلیں تو ایک ہی منظر ہے سامنے آنکھیں کروں جو بند تو کیا کیا دکھائی دے ممکن ہے یہ بھی میری نظر کا قصور ہو جلوے ہزار ہیں ولے پردہ دکھائی دے کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ292۔293 99۔ اَنا کو مارنے کا جب ارادہ کر لیا میں نے اَنا کو مارنے کا جب ارادہ کر لیا میں نے تو فہم ذات کو صیقل زیادہ کر لیا میں نے کسی کی تنگ نظری نے مجھے یہ فیض پہنچایا کہ اوروں کیلئے دل کو کشادہ کر لیا میں نے وفا کا لفظ ان کے لب سے کچھ ِاس شان سے نکلا کہ حرزِ جان پھر یہ حرف سادا کر لیا میں نے میری نادانیاں کہ بے نیازی دیکھ کر اُس کی بتوں کو اپنے دل میں ایستادہ کر لیا میں نے جھکاؤ دیکھ کر دنیا کی جانب سب یہی سمجھے قطع اُن سے تعلق ہی مبادا کر لیا میں نے تغافل لاکھ وہ برتے نہ یہ دہلیز چھوٹے گی بس اپنے آپ سے یہ اب تو وعدہ کر لیا میں نے شرابِ درد کی لذت بھی کیا ہے جب نشہ ٹوٹا تو پھر سے اہتمامِ جام و بادہ کر لیا میں نے اُتر آئے ہیں جب بھی زندگی میں میری سناٹے تو پھر عہدِ محبت کا اعادہ کر لیا میں نے ''اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جائے'' یہی سب سوچ کے آسان جادہ کر لیا میں نے کبھی خود کو سنبھالا کھا کے ٹھوکر تو کبھی لوگو! تمہاری لغزشوں سے استفادہ کر لیا میں نے جگر کے خون کے دھارے مری آنکھوں سے بہہ نکلے لہو سے اپنے ہی رنگیں لبادہ کر لیا میں نے کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ294۔295 100۔ دوہے گدلے پانی میں تو چاند، ہی صاف دِکھے نہ پھول ساجن درشن چاہے تو کر صاف تُو مَن کی دھول بندہ، بندہ نہ رہے گر جو چاہے سو پائے مالک، ہی وہ کاہے کا گَر اپنی نہ منوائے کون کسی کا درد بٹائے لاکھ ہوں سجّن، مِیت جس تَن لاگے سو تَن جانے جگ کی یوہی رِیت مورکھ تو نے کاہے کو اپنوں سے باندھا بَیر تجھ سے اچھا پیڑ کہ جس کی چھایا لیویں غیر چاروں کُھونٹ ہے پھیلی لالی، خون کی آوے باس جگ جنگل میں مانس نوچیں اک دُوجے کا ماس بیٹھ کے لوگوں میں نہ چھیڑ تُو اپنے دُکھ کے راگ ایسا نہ ہو ڈس لیں تجھ کو تنہائی کے ناگ رُوپ جوانی لُوٹ کے لے گئے وقت سمے کے چور بانکی نار بنی ہے پگلی دیکھ تو اپنی اور منگتی در پہ آ بیٹھی ہے جھولی کو پھیلائے اس آشا میں اس در سے کوئی خالی ہاتھ نہ جائے کنگلے سے کوئی مانگے تو لاج سے لے منہ موڑ اَن داتا کیوں مکھ موڑے اس کو کس شے کی تھوڑ تو داتا تو اَن داتا تو ایشر تو بھگوان ہر مورکھ پاپی کو بھی دیتا ہے تو ہی دان کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ''جو دل پہ گذرتی ہے رقم کرتے رہیں گے'' ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ299۔302 101۔ بعض لوگ دنیا و مافیہا سے ناراض رہتے ہیں ایسے لوگوں کی خدمت میں فرض کیجیے عرصۂ کون و مکاں اچھا نہ ہو یہ زمیں اچھی نہ ہو یہ آسماں اچھا نہ ہو فرض کر لیجئے کہ پھولوں ہی میں نہ ہو رنگ و بو فرض کر لیجئے نظامِ گلستاں اچھا نہ ہو فرض کر لیجئے چمن برقِ تپاں کی زد میں ہو شاخِ گل جھلسی ہوئی ہو آشیاں اچھا نہ ہو فرض کر لیجئے کہ مٹی میں ہی زرخیزی نہ ہو فرض کر لیجئے چمن کا باغباں اچھا نہ ہو فرض کر لیجئے کہ ہوں سب کے ہی گھر ٹوٹے ہوئے فرض کر لیں آپکا ہی بس مکاں اچھا نہ ہو فرض کر لیجئے کہ اہلِ کارواں ہوں بے شعور فرض کر لیجئے کہ میرِ کارواں اچھا نہ ہو فرض کر لیجئے شرابِ ناب ہی بے کیف ہو فرض کر لیجئے کہ خود پیرِ مغاں اچھا نہ ہو فرض کر لیجئے خلوصِ دوستاں میں ہو کمی فرض کر لیجئے سلوکِ دوستاں اچھا نہ ہو فرض کر لیجئے کہ ہوں الفاظ کے نشتر ہی تیز فرض کر لیجئے کہ اندازِ بیاں اچھا نہ ہو فرض کر لیجئے نہ ہو ہمدرد دنیا میں کوئی فرض کر لیجئے کہ کوئی رازداں اچھا نہ ہو تیری نظروں سے اگر دیکھوں تو اے کوتاہ چشم یہ بھی ممکن ہے کہ کُل کارِ جہاں اچھا نہ ہو تیرے تو نزدیک دنیا میں کوئی خوبی نہیں خوبرویوں میں کوئی اندازِ محبوبی نہیں اے گرفتہ دِل مجھے بس آج تو اتنا بتا کیا بھری دنیا میں نہ کوئی بھی شے بھائی تجھے چہچہے بھی کیا عنادل کے سنائی نہ دیئے کیا نظر آئی نہ پھولوں میں بھی رعنائی تجھے کیا شریکِ عیش بھی اس نے کبھی تجھ کو کیا یا زمانے نے فقط تکلیف پہنچائی تجھے دوستوں سے کیا تجھے دردِ تغافل ہی مِلا یا ملی بھی ہے کبھی اُن سے پذیرائی تجھے کیا تیرے در پر کبھی خوشیوں نے دستک ہی نہ دی یا غمِ ہستی کی دنیا ہی پسند آئی تجھے اے گلہ مندِ زمانہ کیا کبھی سوچا بھی ہے سرد ِمہری خود تیری اِس موڑ پر لائی تجھے دوستوں کو ہر جگہ بدنام تو کرتا رہا بھولنے پاتی نہیں پر اپنی رسوائی تجھے بھول جاتا ہے گھنے پیڑوں کی چھاؤں تو مگر یاد رہ جاتی ہے اپنی آبلہ پائی تجھے تیری پیشانی کی شکنوں سے یہ ہوتا ہے عیاں محفلِ یاراں کی رونق راس نہ آئی تجھے آپ ہی اپنا تماشا تو نے دِکھلایا اگر تو نظر آئے گی دنیا بھی تماشائی تجھے اے اسیرِ ذات اپنے نفس کا بندہ ہے تو ڈس رہی ہے اِس لئے یہ تیری تنہائی تجھے کھول کر آنکھیں کبھی روشن اجالوں کو بھی دیکھ تب نظر آئے گی اس دنیا کی زیبائی تجھے ذات سے باہر نکل کے ماورائے ذات دیکھ نغمۂ کُن کی صدائیں سُن حسیں آیات دیکھ کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ303۔304 102۔ پردہ ایک امریکی خاتون کی نظر میں

ایک امریکن احمدی نژادخاتون کی نظر میں پردہ کی جو اہمیت ہے اُسے انہوں نے نظم میں پیش کیا ہے۔ جو امریکہ کی لجنہ اماء اللہ کے سرکلر Lajna News کے جنوری 1980ء کے شمارہ نمبر12 میں شائع ہوئی ہے۔ اس نظم کا آزاد اُردو ترجمہ پیش ہے! جو احمدی بہنیں اس معاملہ میں پوری احتیاط نہیں کرتیں اُن کے لئے لمحہ فکریہ ہے!

جب گھر سے نکلتی ہے باہر اِک مسلم عورت پردے میں بُرقعے سے چُھپائے زینت کو، تسکین نظر کو ملتی ہے یہ عورت ایسی عورت ہے جو اپنے رب کے ہر فرمان کو جان سے زیادہ جانتی ہے جو اُس کی خوشی کو دنیا کی ہر شے سے سواگردانتی ہے یہ عورت ایسی عورت ہے ایمان بھی جس کا پختہ ہے وہ جانتی ہے کہ اُس کے لئے بس اس کے سوا چارہ ہی نہیں ہر حکم پہ اپنے مولا کے چُپ چاپ جُھکا دے گردن کو وہ اُس کی رضا میں راضی ہے یہ عورت ایسی عورت ہے جو شرم و حیا کا پیکر ہے اِس عورت کی ہر اک نیکی دنیا کو راہ دکھائے گی کہ روشنی کا مینار ہے یہ یہ عورت ایسی عورت ہے جو ایسا کپڑا اوڑھتی ہے جو اِس عورت کی عزت کی جو اِس عورت کی عصمت کی کیا خوب حفاظت کرتا ہے یہ پردہ ایسا پردہ ہے جو اللہ کی اِس بَندی کو مذہب کے قریں لے آتا ہے یہ عورت اپنے مولا کے فرمان کو پُورا کرتی ہے اور اپنے آقا سے باندھے پیمان کو پُورا کرتی ہے کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ305۔306 103۔ مجھے سکون چاہئے نہ مال و دولت جہان بے شمار چاہئے کہ دل کا چین اور ذہن کا نکھار چاہئے تری رضا ہی چاہیئے ترا ہی پیار چاہئے مجھے سکون چاہئے، مجھے قرار چاہئے الٰہی! وہ جو سب ہیں میرے پیارے اُن کی خیر ہو جو میری زندگی کے ہیں سہارے اُن کی خیر ہو تری ہی رحمتوں کا بس ہمیں حصار چاہئے مجھے سکون چاہئے، مجھے قرار چاہئے عطا ہے تیری جو مجھے وہ زندگی عزیز ہے کہ گلستان کی مجھے ہراک کلی عزیز ہے خزاں کبھی نہ جس پہ آئے وہ بہار چاہئے مجھے سکون چاہئے، مجھے قرار چاہئے میں بے عمل ہوں کوئی بھی عمل نہیں ہے ہاتھ میں ہیں عیب جُو بہت کہ جو لگے ہوئے ہیں گھات میں تیرا ہی لُطف پَردہ پوش، پردہ دار چاہئے مجھے سکون چاہئے، مجھے قرار چاہئے الٰہی تو مری خطاؤں کی پکڑ نہ کیجیؤ! ردائے لطف سے میرے گناہ ڈھانپ دیجیؤ تیرے کرم کی یہ نظر تو بار بار چاہئے مجھے سکون چاہئے، مجھے قرار چاہئے ہے التجا ہمیں تو پُر سکون سی حیات دے ہر اک طرح کی قیدِ فکر سے ہمیں نجات دے تجھے تو لفظِ کُن ہی میرے کردگار چاہئے مجھے سکون چاہئے، مجھے قرار چاہئے کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ307۔310 104۔ گھر کچھ آج بزمِ دوستاں میں ایک گھر کی بات ہو چمن کے رنگ و بُو، حسین بام و دَر کی بات ہو خلوصِ دل کی بات، خُوبیئ نظر کی بات ہو وہ قصر ہو، محل ہو یا بڑا سا اک مکان ہو ہے بات سب کی ایک ہی یہ سب تو خشتِ مرمریں کا بس حسین ڈھیر ہیں ہاں گھر کی بات اَور ہے گو چھوٹا سا مکان ہو پہ موسموں کے گرم و سرد سے مجھے بچا سکے وہ میرا سائبان ہو مری نظر میں گھر ہے وہ میرے عزیز دوستو جہاں محبتیں بھی ہوں جہاں رفاقتیں بھی ہوں جہاں خلوصِ دل بھی ہو جہاں صداقتیں بھی ہوں جہاں ہو احترام بھی جہاں عقیدتیں بھی ہوں جہاں ہو کچھ لحاظ بھی جہاں مروّتیں بھی ہوں جہاں نوازشیں بھی ہوں جہاں عنائتیں بھی ہوں جہاں ہو ذکرِ یار بھی جہاں عبادتیں بھی ہوں کسی حسین، دلنواز کی حکائتیں بھی ہوں جہاں نہ ہوں کدورتیں جہاں نہ ہوں عداوتیں دل و نگاہ و فکر کی جہاں نہ ہوں کثافتیں یہ ایسی اک جگہ ہے کہ جسے مَیں اپنا کہہ سکوں جہاں میں سُکھ سے جی سکوںجہاں سکوں سے رَہ سکوں جہاں کے رہنے والے ایک دوسرے پہ جان دیں بَھرم محبتوں کا اور عزتوں کا مَان دیں وہ جن کے سینے چاہت و خلوص کا جہان ہوں جبیں پہ جن کی ثبت پیار کے حسیں نشان ہوں جہاں نہ بد لحاظ ہو کوئی نہ بد زبان ہو جہاں نہ بدسرشت ہو کوئی نہ بدگمان ہو جہاں بڑوں کی شفقتوں کا میرے سر پہ ہاتھ ہو تو دوستوں کی چاہتوں کا بھی حسین ساتھ ہو نہ جس جگہ دکھائی دیں اَنا کی کج ادائیاں گو خامیاں ہزار ہوں پہ ہوں نہ جگ ہنسائیاں جہاں بسر ہو زندگی محبتوں کی چھاؤں میں ہو باس پیار کی جہاں رچی ہوئی فضاؤں میں دمک رہے ہوں بام و دَر بھی روشنی سے پیار کی ہو جس چمن کی ہر کلی پِیامبر بہار کی ہوں جسم گو تھکے ہوئے پہ رُوح نہ ملول ہو کسی کے دل میں کھوٹ نہ کسی کے مَن پہ دھول ہو مِری یہ آرزو ہے جو بھی میرے گھر کا فرد ہو نہ اس کا لہجہ گرم ہو نہ اس کا سینہ سَرد ہو مِرے عزیز دوستو! یہ گھر تو وہ مقام ہے جہاں سکون مِل سکے جہاں قرار تو ملے جہاں محبتیں ملیں جہاں سے پیار تو ملے جہاں تحفظ و خلوص و اختیار تو ملے جہاں دلوں کو چین ذہن کو نکھار تو ملے جہاں سے احترامِ ذات کا وقار تو ملے کسی کی ذاتِ معتبر کا اعتبار تو ملے یہ افتخار تو ملے یہی تو وہ مقام ہے کہ جو مجھے عزیز ہے یہ گھر عجیب چیز ہے مجھے بہت عزیز ہے مجھے بہت عزیز ہے کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ311۔312 105۔ میری ماں ماں کی ممتا، چاند کی ٹھنڈک، شیتل شیتل نُور اس کی چھایا میں تو جلتی دھوپ بھی ہو کافور بچپن سے یہ درس دیئے کہ دُکھ نہ کسی کو دو اپنا درد چھپائے اس کا درد نہ جانے کو سُچی، صاف، کھری اور سچی اس کی ہر اک بات رہ میں   بکھیرے اس کی اُجلی اُجلی ذات وِیروں پہ قربان یہ اپنی بہنوں کی غمخوار کوئی کرے یا نہ پر اس کے دل میں گہرا پیار فرض کا ہے احساس اسے تو رشتوں کی پہچان اپنے بَنس کی لاج نبھائے ہر لحظ ہر آن غم کی آندھی آئے یا ہو مشکل کا طوفان ہر بپتا کو ایسے جھیلے جیسے ایک چٹان اس میں اَنا کا رُوپ بھی ہے خودداری کی بھی شان سر نہ جھکے بندے کے آگے اس کا ہے ایمان یہ چاہے کہ اس کے دُکھ کو دوجا جان نہ پائے سب سو جائیں رات سمے یہ چُھپ چُھپ نِیر بہائے چہرہ ساکن سینے میں پر اٹھیں لاکھ اُبال جانے والے چلے گئے پتھر میں دراڑیں ڈال مالک اس چھتناور پیٹر کی سدا رہے ہریالی اس بَگیا کی خیر ہو داتا تو ہی اس کا والی کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ313۔314 106۔ آزمائش ہے غلامانِ محمدّ مصطفےٰؐ کی آزمائش ہے میانِ کربلا، کرب و بلا کی آزمائش ہے دِلا یہ ابتلا کا دور ہے پر سوچ لے اتنا برائے مصطفےٰؐ تیری وفا کی آزمائش ہے بہت ممکن ہے یہ بھی آج جھولی بھر کے لے آؤں میرے سوزِ جگر میری دُعا کی آزمائش ہے یہ وقتِ بے نوائی ہے یہ دورِ نارسائی ہے میرے مولا میری آہِ رسا کی آزمائش ہے مسافر مطمئن ہیں کھیل طوفانوں کا ہے جاری ہے ساتھ اس کے خدا جس ناخدا کی آزمائش ہے خدا جس بات میں خوش ہے اسی میں ہم بھی ہیں راضی یہ میرے جذبہئ صبرو رضا کی آزمائش ہے عمل پر میرے پہرے ہیں میرے ہونٹوں پہ قدغن ہے یہی   نبیؐ   خدا کی آزمائش ہے صداقت کے مقابل آ گیا ہے آج وہ کھل کر عدو کے مکروفن جور و جفا کی آزمائش ہے میرے جذبے سلامت ہیں میری امید زندہ ہے میرے اخلاص کی ذوقِ لقا کی آزمائش ہے عدو کی فتنہ سامانی سے میں ہرگز نہیں ترساں یہ میری تو نہیںمیرے خدا کی آزمائش ہے میں تیرا نام بھی اپنے لبوں پر لا نہیں سکتی خداوندا یہ شوقِ برملا کی آزمائش ہے کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ315۔318 107۔ اے وطن اے وطن تیری قسمت کہاں کھو گئی تیری تقدیر مُنہ ڈھانپ کر سو گئی کاش کوئی تو ہو جو جگائے اسے سوچتی ہوں یہی کیا یہی دیس ہے کیا اسی کے لئے اتنی جانیں  خوں کی ندیاں بہیں عصمتیں لُٹ گئیں ، عزتیں لٹ گئیں دولتیں ، ثروتیں ، شوکتیں لُٹ گئیں گردنیں کٹ گئیں قربتیں بَٹ گئیں کیا اِسی کے لئے ؟ اب بھی کیا حال ہے عصمتیں ، عزتیں ، دولتیں ، ثروتیں دین و مذہب کی تقدیس اور عظمتیں کچھ بھی محفوظ ہے ؟ کچھ بھی محفوظ ہے؟ یاں زباں پہ ، عقائد پہ پہرے لگیں دشمنوں کے مظالم کا کیا تذکرہ زخم اپنوں کے ہاتھوں ہی گہرے لگیں اے وطن تیرے کھیتوں کی ہریالیاں تیری فصلوں کی یہ جُھومتی بالیاں تیرے دریاؤں میں گو روانی بھی ہے صاف و شفاف گو اِن کا پانی بھی ہے تیرے کوہسار ہیں سر بُلند و حسیں جگمگاتی تری وادیوں کی جبیں میرے اہلِ وطن نے مگر اے وطن تیرے چہرے پہ کیسی سیاہی ملی دلکشی تیری سب خاک میں مل گئی تیری آغوش میں جو پلے اور بڑھے تیرے دُشمن ہوئے تیرے درپے ہوئے کھوکھلے نعرے اِن کا وطیرہ رہا اور ترا صحن تاریک و تیرہ رہا درد کس کو ترا فکر کس کو تری منتشر کارواں بے عمل رہبری ہاں یہی تو ہیں جنکی عنایات سے اور کرامات سے جسم پہ تیرے ناسور بڑھتے رہے تیرے چہرے پہ بھی داغ پڑتے رہے اور یہ عیش پر عیش کرتے رہے یا پھر آپس میں لڑتے جھگڑتے رہے کون اِن سے کہے کون ہے جو سُنے اونچی اونچی عمارات ہی کچھ نہیں لمبے چوڑے خطابات ہی کچھ نہیں ِعظمت قوم ہے ُحسنِ کردار میں حُسنِ اخلاق کی طرزِ اظہار میں صرف باتوں ہی باتوں سے کیا فائدہ کچھ عمل بھی تو ہو سوکھی شاخوں سے پتوں سے حاصل ہے کیا کوئی پھل بھی تو ہو اے نگارِ وطن تیرا سیمیں بدن دلکشی ، بانکپن جامہ زیبی پھبن کچھ بھی باقی نہیں سب کہاں کھو گیا نقش اب بھی ہیں گو خوبصورت مگر روپ چہرے کا چیچک زدہ ہو گیا کون ہے اب جو تیرا مسیحا بنے کون ہے؟ کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ319۔321 108۔ میں سوچتی ہوں ، میں کُڑھ رہی ہوں

اخبار میں شائع ہونے والی ایک خبر کہ ساحل کراچی پر چند اوباشوں نے سیر کے لئے آنے والی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اے ماں میری مادرِ وطن تجھ سے تیرے بیٹوں نے کیا کِیا ہے میں سوچتی ہوں میں کُڑھ رہی ہوں یہ تیرے بیٹے کہ خود ہی دشمن بنے ہیں تیرے یہ اپنی دھرتی کو رَوندتے ہیں یہ بیٹیاں اپنی بیچتے ہیں یہ اپنی بہنوںکی آبرو لے کے اُن کے لاشوں پہ ناچتے ہیں نہیں ہے غیرت کا نام ان میں یہ بے حسی کے مجسمّے ہیں یہ اپنے بھائیوں کا خون پی پی کے جی رہے ہیں اے ماںمیری مادرِ وطن تجھ سے تیرے بیٹوں نے کیا کیا ہے میں سوچتی ہوں میں کُڑھ رہی ہوں یہ آج اہل جہاں کی نظروں میں ہدف تضحیک بن گئے ہیں ہرالٹی تدبیر کر رہے ہیں یہ تیری تحقیر کر رہے ہیں تجھے ضرورت کہاں ہے ان کی تجھے ضرورت ہے ابن قاسم کی جو چلا تھا عرب سے اپنی بس اک بہن کی پکار سُن کر وہ جس نے توڑا غرور داہر کا اُس کی ہی سرزمیں میں آ کر تجھے ضرورت ہے طارق و خالدؓ جری کی تجھے ہی ایوبی کی ضرورت تجھے ضرورت ہے غزنوی کی ہاں ایسے ہی ایک غزنوی کی جو نفسِ بد کا ہر ایک بُت پاش پاش کر دے تجھے ضرورت ہے ایسے بیٹوں کی بوبکرؓ کا خلوص و صدق و صفا ہو جن میں عمرؓکی جرأت ہو، چشمِ بینا ہو، عزم و فہم و ذکا ہو جن میں وہ بیٹے، عثمانؓ کی شرافت ہو اور حلم و حیا ہو جن میں علیؓ کی ہیبت ہو اور شجاعت حسینؓ کا ذوقِ جاں نثاری حسنؓ کی بے نفس خاکساری تجھے ضرورت ہے ایسے بیٹوں کی جو کہ تجھ کو وقار بخشیں جو زندگی کو نکھار بخشیں جو اِس چمن کو بہار بخشیں جو بہن کو بھائی کا تحفظ، جو ماں کوبیٹوں کا پیار بخشیں جو ماؤں بہنوں کو، بیٹیوں کو سکون بخشیں قرار بخشیں جو ملک کو سر بلند کر دیں جو قوم کو افتخار بخشیں اے ماں میری مادرِ وطن اب تیرے اُفق پر مگر یہ صبح وفا نمودار ہو گی کب تک میں سوچتی ہوں میں کُڑھ رہی ہوں کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ322۔324 109۔ سقوطِ ڈھاکہ واقعہ کیسا ہے یہ اسلام کی تاریخ کا ذہن ہے ماؤف اے مالک یہ سب کیا ہو گیا کافروں کے سامنے ہتھیار ڈالے برملا قومِ مسلم کو بھری دنیا میں رسوا کر دیا ''آگ ہے اولادِ ابراہیم ہے نمرود ہے کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے'' چیخ اُٹھی قوم دو اب اِن سوالوں کا جواب بولو کیا دیکھا یہی تھا قائداعظم نے خواب تم اگر نااہل تھے تو کیوں کیا ہم کو خراب تم سے ہم لیں گے شہیدوں کے لہو کا اب حساب بات جب حد سے بڑھی تو پھر بصد عجز و نیاز لاش دے کر ملک کی بولے کہ لے اس کو سنبھال قوم کو لیڈر ملے ہیں کس قدر ملت فروش اب بھی کیوں آتا نہیں ہے اپنی بے ہوشی کو ہوش دل کے ہنگامے مئے مغرب نے کر ڈالے خموش قوم کو ملتا نہیں اب کوئی پیغام سروش ''اب نوا پیرا ہے کیا گلشن ہوا برہم تیرا بے محل تیرا ترنم نغمہ بے موسم تیرا'' سوٹ امریکہ کا ہے اور بوٹ ہے جاپان کا جرمنی کی ٹائی ہے رومال ہے ایران کا روح ان کی روس کی ہے ذہن انگلستان کا رہ گیا اک جسدِ خاکی سو ہے پاکستان کا ہم یونہی سوتے رہے تو گورکن تہران سے آئیں گے غسال کابل سے کفن جاپان سے بن گیا ہے پاک کا بازار میڈ ان چائنا سرحدوں پہ دمدمے ہتھیار میڈ ان چائنا چیز جو لینے کی تھی ان سے وہ ہم نے لی نہیں لیڈروں کا آہنی کردار میڈ ان چائنا ''وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا'' خودبخود بھی ٹوٹ کر گرتی ہیں زنجیریں کہیں اِس طرح قوموں کی بھی بدلی ہیں تقدیریں کہیں ہو نہ یک جہتی تو کام آتی ہیں تدبیریں کہیں ہاتھ سے تخریب کے ممکن ہے تعمیریں کہیں ''فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں'' کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ325 110۔ ''باجی قدیر'' ''سختی سہی نہیں کہ اُٹھائی کڑی نہیں'' مشکل وہ کونسی ہے جو تجھ پہ پڑی نہیں اِک کانچ کا کھلونا تیرے ہاتھ میں دیا بَہلا کے تجھ کو یوں تِرا ساتھی بھی چل دیا پھر حوصلہ تِرا ہؤا دنیا پہ آشکار کتنا کڑا تھا وقت جو تنہا دیا گذار پھر بھی شگفتہ چہرہ شگفتہ خصال ہے کم ہمتوں کے واسطے روشن مثال ہے ہر غم کو چٹکیوں میں ہی تو نے اڑا دیا ہنس ہنس کے زندگی کو تماشہ بنا دیا باحوصلہ وجود چٹانوں سے کم نہیں ان کو مٹا سکے یہ زمانے میں دَم نہیں اَب یہ دعا ہے تجھ پہ ہوں مولا کی رحمتیں حاصل ہوں تجھ کو دین کی، دنیا کی نعمتیں کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ے دراز دستِ دعا مرا صفحہ326۔330 111۔ بجلی نہ امریکہ، نہ افریقہ، نہ انگلستان کی بجلی بلادِ عربیہ کی ہے نہ ترکستان کی بجلی نہ ایسی جرمنی، ہسپانیہ، ایران کی بجلی نہ ایسی چین کی نہ روس نہ جاپان کی بجلی زمانے نے نہ دیکھی ہو گی ایسی شان کی بجلی ہے جیسی میرے پیارے مُلک پاکستان کی بجلی یہ اکثر بند رہتی ہے، یہ اکثر بند ہوتی ہے یہ پبلک کو جگا کے چین سے دن رات سوتی ہے اندھیرے میں ڈراتی ہے، پسینے میں بھگوتی ہے جو ملتا ہے مقّدر سے یہ وہ نایاب موتی ہے بہت ہی شاذ ملتی ہے یہ شاہی آن کی بجلی کہ یہ ہے میرے پیارے مُلک پاکستان کی بجلی بہت یاروں نے پھیرے بھی لگائے واپڈا گھر کے مگر درشن نہ ہوپائے ۔کبھی رُوئے منوّر کے سُنا ہے سخت آرڈر آئے ہیں اُوپر سے افسر کے مَرے مرتی ہے پبلک کھیل ہیں اس کے مقّدر کے پہ، بند ہونے نہ پائے والا و ذیشان کی بجلی کہ یہ ہے میرے پیارے مُلک پاکستان کی بجلی مِلا جو فون قسمت سے تو پھر یہ ہی جواب آیا کریں کیا ہم کہ دُنیا میں ہے موسم ہی خراب آیا ہؤا ہے ضُعف بجلی کو جو گرمی پہ شباب آیا مگر ہر ماہ بِل بجلی کا بن کر اک عذاب آیا کَٹی جاتی ہَے جس سے ذہن کی وِجدان کی بجلی ہے ایسی میرے پیارے مُلک پاکستان کی بجلی اگر بجلی میّسر ہو کبھی ٹی-وی نظر آئے تو اس کو دیکھ کر ہو درد دِل میں آنکھ بھر آئے کوئی اچھا ڈرامہ نہ کوئی اچھی خبر آئے نظر حکّام کی صورت سے نہ کوئی مفر آئے چمکتی ہے ہر اک لحظہ نئے فرمان کی بجلی کہ یہ ہے میرے پیارے مُلک پاکستان کی بجلی نمازی مسجدوں میں کس قدر حیران بیٹھے ہیں یہ روزہ دار بیچارے بہت ہلکان بیٹھے ہیں بہت بہیوش لیٹے ہیں بہت بے جان بیٹھے ہیں لئے ہاتھوں میں بس اک دولتِ ایمان بیٹھے ہیں ہمیں ہر سال سہماتی ہے ہر رمضان کی بجلی ہے ایسی میرے پیارے ُملک پاکستان کی بجلی بہت سے لوگ اپنی جان سے بیزار بیٹھے ہیں نہیں ہلنے کی طاقت کیا کریں بیکار بیٹھے ہیں یہ سارے واپڈا کے سامنے لاچار بیٹھے ہیں ''بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں'' ہے اَب خطرے کی زد میں ہستی ء انسان کی بجلی ہے ایسی میرے پیارے مُلک پاکستان کی بجلی میری بچیّ یہ کہتی تھی کہ امریکہ ہی چلتے ہیں یہ سُنتے ہیں وہاں بجلی بھی ہے اے۔ سی بھی چلتے ہیں یہاں تو حال سے بے حال ہیں ، گرمی میں جلتے ہیں جو تپ جاتا ہے یہ پہلو تو وہ پہلو بدلتے ہیں میری جاں چُپ رہو یہ ہے انوکھی شان کی بجلی کہ یہ ہے میرے پیارے مُلک پاکستان کی بجلی بہت ہی لرزہ خیز و دُکھ بھری اپنی کہانی ہے رَواں ہو آبشار ایسے پسینے کی روانی ہے بہت نایاب بجلی ہے، بہت کمیاب پانی ہے بہت بد حال پیری ہے، بہت خستہ جوانی ہے بہت فقدان پانی کا، بہت بحران کی بجلی کہ یہ ہے میرے پیارے مُلک پاکستان کی بجلی یہاں کے پول ناقص ہیں، یہاں کا تار ناقص ہے یہاں کا آلۂ ترسیل ہے بیکار ناقص ہے یہاں چھوٹی، بڑی جتنی بھی ہے سرکار ناقص ہے کریں کیا ہم ہمارا سارا کاروبار ناقص ہے ہے میرے شہر کی تو شہر نا پُرسان کی بجلی کہ یہ ہے میرے پیارے مُلک پاکستان کی بجلی ٭٭٭٭

یہ مزاحیہ نظم اس خیال سے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں بھجوائی تھی کہ حضور اس سے لطف اندوز ہونگے لیکن ربوہ سے دوری اس رنگ میں حضور پر اثر انداز ہوئی تھی کہ حضور نے اپنے خط میں تحریر فرمایا:

میری سادگی دیکھو کہ تمہاری بجلی والی نظم کو مزاحیہ سمجھ کر دفتر میں بیٹھے ہوئے بعض ملاقاتیوں کو بلند آواز سے مزے لے لے کر سنانے لگا کہ اچانک وہ بند آ گیا جس کا پہلا مصرعہ ہے۔ ''نمازی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں کس قدر حیران بیٹھے ہیں''

مجھے تو یوں لگا جیسے کسی نے میرے دل پر بجلی گرا دی ہو۔ میری آواز جیسے کسی نے گلے ہی میں گھونٹ دی ہو۔ کپکپاتے ہوئے ہونٹوں سے بقیہ بند میں نے بمشکل زیر لب ہی پڑھا۔

یہ روزہ دار بے چارے بہت ہلکان بیٹھے ہیں بہت بے ہوش لیٹے ہیں بہت بے جان بیٹھے ہیں لئے ہاتھوں میں اپنے دولتِ ایمان بیٹھے ہیں ہمیں تا عمر یاد آئے گی اس رمضان کی بجلی ربوہ کے درویشوں کی تکلیف نے مجھے سخت تڑپایا۔

اگر میں بھی ربوہ کی کسی ۔۔۔۔۔۔کی صف میں بے حال لیٹا ہوتا تو مجھے اتنی تکلیف تو نہ ہوتی۔

والسلام خاکسار مرزا طاہر احمد کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ331۔333 112۔ تاج محل ''اک شنہشاہ نے دولت کا سہارا لے کر ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق''  ساحر لدھیانوی ٭٭٭٭ اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر کون کہتا ہے غریبوں کا اڑایا ہے مذاق وہ کسی اور کی تضحیک کرے گا کیسے جو کہ بے چارا ہو خود کشتِئ پیکانِ فراق جس کے ارمان لٹے ، جس کی امیدیں ٹوٹیں جس کے گلشن کا حسیں پھول اجل نے توڑا موت کے سامنے جو بے بس و لاچار ہوا جس کے ساتھی نے بھری دنیا میں تنہا چھوڑا جس کا ہمدرد نہ مونس نہ کوئی ہمدم تھا ایسے بے مایہ تہی دست سے جلتے کیوں ہو اُس کی ہستی تو کسی رشک کے قابل ہی نہ تھی یونہی ان کانٹوں بھری راہوں پہ چلتے کیوں ہو عمر بھر اُس کو تو تسکین کی دولت نہ ملی یوں تو کہنے کو اسے کہتے ہیں سب شاہِ جہاں اُس کے اندر بھی کبھی جھانک کے دیکھا تم نے اُس کی دنیا تھی کہ رِستے ہوئے زخموں کا جہاں جب زمانے میں نہ اُس کو کوئی غمخوار ملا اُس نے مرمر کو ہی ہمراز بنانا چاہا اہلِ دنیا سے نہ جب اُس نے محبت پائی اُس نے پھر گمشدہ چاہت کو ہی پانا چاہا تھا یہ تنہائی کا احساس ہی اُس کے جس نے سنگِ مرمر کا حسیں ڈھیر لگا ڈالا تھا ناگ تنہائی کے ڈستے رہے اُس کو آ کر وہ کہ جو پیار کا شیدائی تھا دِل والا تھا اصل شے جذبہ ہے ، گو وہ کسی سانچے میں ڈھلے تاج کیا ہے؟ یہ فقط پیار کا اظہار تو ہے سنگِ مرمر کی زباں میں یہ کہا تھا اُس نے تو نہیں آج مگر زندہ تیرا پیار تو ہے تاج اِک جذبہ ہے پھر جذبے سے نفرت کیسی یاں تو ہر دل میں کئی تاج محل ہیں موجود تاج اِک سوئے ہوئے پیار کا ہی نام نہیں یہ وہ دنیا ہے نہیں جس کی فضائیں محدود تاج اِک ماں کی محبت ہے بہن کا دل بھی باپ کا بیٹے کا، بھائی کا حسیں پیار بھی ہے تاج اک دوست کا بے لوث پیامِ اخلاص تاج عاشق بھی ہے، معشوق بھی دلدار بھی ہے اس سے بڑھ کر بھی حسیں ہوتے ہیں شہکار یہاں تاج کو دیکھ کے تو اے دِل مضطر نہ مچل ماں کے دل سے تو ہمیشہ یہ صدا آتی ہے میرے بچے پہ ہوں قربان کئی تاج محل کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ334۔336 113۔ ''ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں'' مکرم منیر نیازی صاحب کی ایک خوبصورت نظم ''ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں'' اس نظم کا محرک بنی ہمیشہ دیر کر دیتی ہوں میں اُس کو بلانے میں وہ ہستی جو کہ رحمن و رحیم و کبریا بھی ہے مجیب و کارساز و قادر و مشکل کشا بھی ہے مجھے ہے علم اس کے بِن میں کچھ بھی کر نہیں سکتی تہی داماں ہوں خود جھولی کسی کی بھر نہیں سکتی نکل جاتا ہے وقت ہاتھوں سے پچھتاوے ہیں رہ جاتے مگر میں کیا کروں غفلت کے بادل چھٹ نہیں پاتے ہمیشہ دیر کر دیتی ہوں میں اُس کو بلانے میں کسی کی زندگی کی چاہ ہو اس کو بچانا ہو کسی آفت زدہ کو قیدِ آفت سے چھڑانا ہو کسی کی سونی سونی مانگ میں افشاں سجانا ہو کسی کے ہاتھ پر ارمان کی مہندی رچانا ہو ہمیشہ دیر کر دیتی ہوں میں اُس کو بلانے میں کسی کی بے بسی کو دور کرنے کی تمنّا ہو کسی ویرانے کو معمور کرنے کی تمنّا ہو کوئی ظُلمت کدہ پُر نور کرنے کی تمنّا ہو کسی ناشاد کو مسرور کرنے کی تمنّا ہو ہمیشہ دیر کر دیتی ہوں میں اُس کو بلانے میں کسی آغوش کو پھولوں سے بھرنے کی تمنّا ہو کوئی بنجر زمیں آباد کرنے کی تمنّا ہو کسی الجھے مقدر کے سنورنے کی تمنّا ہو کہیں خوشیوں کی رنگت کے نکھرنے کی تمنّا ہو ہمیشہ دیر کر دیتی ہوں اُس کے در پہ جانے میں کہیں سے ابرِ فکر و رنج چھٹنے کی تمنّا ہو کسی کے غنچہئ دِل کے چٹکنے کی تمنّا ہو کسی گل کے بہاروں میں مہکنے کی تمنّا ہو کسی خاموش بلبل کے چہکنے کی تمنّا ہو ہمیشہ دیر کر دیتی ہوں میں اُس کو بلانے میں کہیں چہروں پہ مسکانیں سجانے کی تمنّا ہو کہیں پژمردگی دِل کی مٹانے کی تمنّا ہو کہیں راہوں میں قندیلیں جلانے کی تمنّا ہو کسی گمراہ کو رستہ دکھانے کی تمنّا ہو ہمیشہ دیر کر دیتی ہوں اُس کے در پہ جانے میں اگر غفلت کے پردوں کو ہٹا دیتی تو اچھا تھا دعاؤں سے کوئی بگڑی بنا دیتی تو اچھا تھا طلب کو رنگِ عرضِ مدّعا دیتی تو اچھا تھا اگر بروقت میں اس کو صدا دیتی تو اچھا تھا ہمیشہ دیر کر دیتی ہوں میں اُس کو بلانے میں ہمیشہ دیر کر دیتی ہوں اس کے در پہ جانے میں ''یہ بزمِ مے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی'' ہمیشہ دیر کر دیتی ہوں پیمانہ اُٹھانے میں کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ337۔340 114۔ نفس پہ قابو رکھنا ہو گا جوں دانتوں میں جِیب رہے ہے ایسے جگ میں رہنا ہو گا اونچے نیچے سب رستوں پر ندیا جیسے بہنا ہو گا ہنستے ہی گھر بستے ہیں سو سب کچھ ہنس کر سہنا ہو گا پھر ماتھے پر جھومر ہو گا پھر ہاتھوں میں گہنا ہو گا من کی میل چکٹ کو مل کر پیار کے جل سے دھونا ہو گا ہنسو گے ساتھ ہنسے گی دنیا بیٹھ اکیلے رونا ہو گا سب کی اپنی اپنی چنتا کون سُنے افکار کی باتیں ہونٹوں پر مسکان سجا کر سب سے کرو بس پیار کی باتیں من میں پھول کھلاتی جائیں دلبر کی دلدار کی باتیں خوشبو کی مہکار کی باتیں پر اس سچائی کو سمجھو جیون کی اس دوڑ میں تم کو کچھ پانا کچھ کھونا ہو گا ہنسو گے ساتھ ہنسے گی دنیا بیٹھ اکیلے رونا ہو گا نفس پہ قابو رکھنا ہو گا دل کو بھی سمجھانا ہو گا اپنے روگ چھپانے ہوں گے دوجوں کو بہلانا ہو گا کتنے دکھیارے لوگوں کے زخموں کو سہلانا ہو گا سب کا درد بٹانا ہوگا اچھی فصلیں چاہتے ہو تو اچھے بیج ہی بونا ہو گا ہنسو گے ساتھ ہنسے گی دنیا بیٹھ اکیلے رونا ہو گا بندے خوش تو ایشر خوش ہے ظاہر خوش ہے بھیتر خوش ہے اک دوجے کا دھیان کریں تو ہر بستی خوش ہر گھر خوش ہے جیون کا ہر منظر خوش ہے گر یہ ہو تو پھر یہ جانو اُوپر سکھ کی چادر ہو گی نیچے چَین بچھونا ہو گا ہنسو گے ساتھ ہنسے گی دنیا بیٹھ اکیلے رونا ہو گا اُس کی درگہ پہ جا بیٹھو جتنا چاہو تڑپو، مچلو اُس بِن داتا کون ملے گا جو بھی مانگو اُس سے مانگو اُس کے پیار کی خواہش ہے تو اپنے دل کے دھبے دھو لو اِس کے لئے پر اتنا جانو آنسو خوب بہانے ہوں گے دامن خوب بھگونا ہو گا ہنسو گے ساتھ ہنسے گی دنیا بیٹھ اکیلے رونا ہو گا اللہ بھی بھگوان بھی وہ ہے اپنی تو پہچان بھی وہ ہے روح بھی وہ جند جان بھی وہ ہے دین ، دھرم ، ایمان بھی وہ ہے شوق بھی وہ وجدان بھی وہ ہے بات یہ سمجھو اُس کے چرنوں میں دھرنے کو آنسو ہار پرونا ہو گا ہنسو گے ساتھ ہنسے گی دنیا بیٹھ اکیلے رونا ہو گا اچھے جذبے دان کرو تو خیر کی ہی خیرات ملے گی بگیا کی رکھوالی کر کے پھولوں کی سوغات ملے گی اپنی اَنا کو مار کے دیکھو اُجلی نکھری ذات ملے گی رحمت کی برسات ملے گی بھٹی میں تپ جائے گا تو پھر کندن وہ سونا ہو گا ہنسو گے ساتھ ہنسے گی دنیا بیٹھ اکیلے رونا ہو گا اپنی ذات کو اُونچا کر کے اپنوں سے منہ تو نے موڑا پیار وفا کی قدر نہ کی گر چاہت کے رشتوں کو توڑا توبچھتاوے رہ جائیں گے بیتا وقت نہیں پھر آتا پھولوںکی گر سیج کو چھوڑا کانٹوں پہ ہی سونا ہو گا ہنسو گے ساتھ ہنسے گی دنیا بیٹھ اکیلے رونا ہو گا کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ341۔343 115۔ اسیران کی رہائی جب ملی تم کو رہائی کی خبر کیسا لگا؟ لے کے پروانہ جو آیا نامہ بَر کیسا لگا؟ ملنا پھر احباب کا باچشمِ تر کیسا لگا؟ دیکھ کر اپنے مکاں کے بام و در کیسا لگا؟ اتنی مدّت بعد آئے ہو تو گھر کیسا لگا؟ کتنے گھاؤ کھائے ہیں کتنی مداراتیں ہوئیں دَورِ تنہائی میں کتنی یار سے باتیں ہوئیں جب کسک پیدا ہوئی کتنی مناجاتیں ہوئیں سوزِ دل کیسا لگا، سوزِ جگر کیسا لگا؟ اتنی مدّت بعد آئے ہو تو گھر کیسا لگا؟ امتحاں کا وقت، دورِ ابتلاء کیسا لگا؟ عشق کی منزل کا یہ جادہ نیا کیسا لگا؟ یہ وفاؤں کی بقا کا مرحلہ کیسا لگا؟ کچھ کہو اہلِ وفا، اہلِ نظر کیسا لگا؟ اتنی مدّت بعد آئے ہو تو گھر کیسا لگا؟ قربتیں کیسی لگیں اور فاصلے کیسے لگے؟ جن میں الجھائے گئے وہ مسئلے کیسے لگے؟ کرب اور تسکین کے یہ سلسلے کیسے لگے؟ جو پسِ زنداں کیا کسبِ ہنر کیسا لگا؟ اتنی مدّت بعد آئے ہو تو گھر کیسا لگا؟ جو سلاسل میں کٹی وہ زندگی کیسی لگی؟ بِندی خانے میں خدا کی بندگی کیسی لگی؟ تیرگی میں روح کی تابندگی کیسی لگی جو وہاں دیکھا ہے وہ رنگِ بشر کیسا لگا؟ اتنی مدّت بعد آئے ہو تو گھر کیسا لگا؟ مُضطرب ہو کے جو اُٹھی تھی صدائے اہلِ دل درد کا درماں بنی وہ التجائے اہلِ دل اے خوشا کہ رنگ لے آئی دعائے اہلِ دل لَوٹ کے آنا یہاں بارِ دِگر کیسا لگا؟ اتنی مدّت بعد آئے ہو تو گھر کیسا لگا؟ یوں قفس کی تیلیوں کا ٹوٹنا کیسا لگا؟ بندِ آہن سے یکایک چھوٹنا کیسا لگا؟ صبح کا جلوہ، یہ پَو کا پھوٹنا کیسا لگا؟ چاندنی کیسی لگی، نورِ سحر کیسا لگا؟ اتنی مدّت بعد آئے ہو تو گھر کیسا لگا؟ یہ زمیں کیسی لگی، یہ آسماں کیسا لگا؟ سانس آزادی کی لی تو یہ جہاں کیسا لگا؟ طے ہوئی جو یہ مسافت، آشیاں کیسا لگا؟ جس سے تم بچھڑے رہے وہ ہمسفر کیسا لگا؟ اتنی مدّت بعد آئے ہو تو گھر کیسا لگا؟ کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ344۔345 116۔ بہت ہو چکی اے زمانے کے مالک، بس اب اپنے لطف و کرم کی نظر کر بہت ہو چکی اے زمانے کے مالک، بس اب اپنے لطف و کرم کی نظر کر ترے عرش کو جو ہلا دے الٰہی، دعاؤں میں اب تُو وہ پیدا اثر کر ہمیں اپنی رحمت کے سائے میں لے لے، ہمارے گناہوں سے تُو درگزر کر بہت ہو چکی اے زمانے کے مالک، بس اب اپنے لطف و کرم کی نظر کر نہیں آسرا کوئی تیرے سوا بس، تجھی پہ جمی ہیں ہماری نگاہیں بجز تیرے در کے کہیں میرے مَولا، کسی کو بھی ملتی نہیں ہیں پناہیں کرم کر الٰہی تُو اب تو کرم کر، کہ اشکوں سے تر ہوگئیں سجدہ گاہیں بہت ہو چکی اے زمانے کے مالک، بس اب اپنے لطف و کرم کی نظر کر الٰہی دعاؤں کی توفیق دے دے، کہ سجدوں میں یہ گِڑگڑانے کے دن ہیں ہمارے قدم ڈگمگانے نہ پائیں، یہ ایمان کے آزمانے کے دن ہیں خُدا وندا بندے خُدا بن گئے ہیں، یہی تیری قدرت دکھانے کے دن ہیں بہت ہو چکی اے زمانے کے مالک، بس اب اپنے لطف و کرم کی نظر کر جو   نے اُتارا تھا اُس دین سے اب، جُدا اک نرالا نصاب آگیا ہے عمل جو بھی احکام پہ کر رہا ہے، وہی شخص زیرِ عتاب آگیا ہے ترے نام پر ہو رہی ہیں وہ باتیں، کہ انسانیت کو حجاب آگیا ہے بہت ہو چکی اے زمانے کے مالک، بس اب اپنے لطف و کرم کی نظر کر الاؤ دہکتے ہیں نفرت کے ایسے، خلوص و محبت کے گھر جل رہے ہیں وہ احساسِ تقدیس مذہب ہے جاگا، مساجد کے دیوار و در جل رہے ہیں زبانوں سے شعلے نِکلتے ہیں ایسے، شرافت کے قلب و جگر جل رہے ہیں بہت ہو چکی اے زمانے کے مالک، بس اب اپنے لطف و کرم کی نظر کر یہی التجا تجھ سے ہے میرے مولا، کہیں کوئی انسان ٹھوکر نہ کھائے مصائب کی ان یورشوں میں بھٹک کر کہیں کوئی نادان ٹھوکر نہ کھائے کسی کے قدم ڈگمگانے نہ پائیں، کسی کا بھی ایمان ٹھوکر نہ کھائے بہت ہو چکی اے زمانے کے مالک، بس اب اپنے لطف و کرم کی نظر کر یہ ناموسِ اسلام کے پاسباں، جو سمجھتے ہیں خود کو یہودی چلن ہیں یہ اسلام کے نام سے کھیلتے ہیں، پراگندہ فطرت دریدہ دہن ہیں نہیں ان کو اسلاف سے کوئی نسبت کہ وہ بت شکن تھے یہ مسجد شکن ہیں بہت ہو چکی اے زمانے کے مالک، بس اب اپنے لطف و کرم کی نظر کر کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ346۔347 117۔ ایک خطرناک حادثے سے بچنے کے بعد آئے ہیں ہم اس کی قدرت کے نظارے دیکھ کر موت کے اور زندگی کے رنگ سارے دیکھ کر ایک لمحہ کا تغافل اور بے پایاں کرم گُنگ تھے سب اُس کی چتون کے اشارے دیکھ کر لُجّہ و موجِ حوادث سٹپٹا کے رہ گئے ناخدا کے ہاتھ میں پتوار سارے دیکھ کر اہلِ ساحل جن کی نظروں میں تھا طوفانوں کا زور محوِ حیرت تھے مِری کشتی کنارے دیکھ کر تیرگی چھٹتی گئی آنکھوں میں نُور آتا گیا اپنے آنگن میں دمکتے چاند تارے دیکھ کر کرب کے ہم کن مراحل سے گزر کے آئے ہیں کون پا سکتا ہے یہ چہرے ہمارے دیکھ کر اُس کی رحمت نے لپک کے گود میں اپنی لیا بے بسوں کو چند تنکوں کے سہارے دیکھ کر دوستو تم ہی کہو جذبات کا عالم تھا کیا سامنے نظروں کے پھر اپنے پیارے دیکھ کر میرے آقا کی دُعائیں کام میرے آ گئیں روح سجدے میں گِری اونچے منارے دیکھ کر ہر قدم پر اک تجلّی اک نئی ہی شان ہے کون چھوڑے گا تمہیں جلوے تمہارے دیکھ کر ذہن و دل ، فکر و نظر میں تازگی سی آ گئی سایۂ ابرِ کرم ، فضلوں کے دھارے دیکھ کر کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ348۔350 118۔ قطعات

1 ایک بار خواب میں دیکھا کہ ایک جلسہ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ؓ کی صدارت میں ہو رہا ہے اس میں یہ شعر پڑھ رہی ہوں:

کب تک لگائے گا کوئی میرے چمن میں آگ گلزارِ ہست میں کُھلے سرو وسمن میں آگ تن میں لگی جو آگ تو پانی سے بُجھ گئی بُجھتی نہیں ہے وہ جو سلگتی ہے من میں آگ 2

خواب میں دیکھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ تشریف رکھتے ہیں کچھ فاصلے پر مکرم مرزا غلام احمد صاحب کھڑے ہیں۔ حضورمسکرا کے اشارے سے انہیں اپنے قریب بلاتے ہیں اور ایک نظم دکھاتے ہیں ''احمد مرزا یہ دیکھو۔۔۔۔۔۔؟اس کا ایک شعر یاد رہ گیا۔

تم وہ رہرو ہو کہ شوقِ راہِ منزل ہی نہیں کر بھی لو اب قافلہ سالارِ منزل کی تلاش 3 میرے ہمدم، میرے مونس، میرے ساتھی، میرے دوست دل کہ پا سکتا نہیں ہے تیری یادوں سے فرار ہاں یہی یادیں کہ جو بے چین رکھتی ہیں مجھے اور یہ یادیں ہی بن جاتی ہیں میری غمگسار 4 اتنے پیارے، اتنے رشتے، اتنی رونق، اتنے لوگ پھر بھی گھلتی جا رہی ہیں روح میں تنہائیاں تیری ہمراہی میسر ہو تو ہے کانٹا بھی پھول ہیں وگرنہ کربِ پیہم راہ کی کھٹنائیاں 5 اب تو ان تنہائیوں میں روح گھبرانے لگی ''کاش کوئی غمگسار آئے مداراتیں کرے'' زندگی پہ چھائے سناٹے کا جادو توڑ دے پیار کے نغمے سنائے مدھ بھری باتیں کرے 6 وہ نگارِ حسن و خوبی چشم و دِل کی آرزو دِل کہ جس کے واسطے حیراں بھی سرگرداں بھی ہے شامِ فرقت ڈھل رہی روزِ وصل آنے کو ہے سرخوشی کی لہر میری روح میں پنہاں بھی ہے 7 ''رات کی رانی کی خوشبو نم فضاؤں کا سکوت'' میرے آنگن میں اُتر آئی ہے یادوں کی برات پیار کی سرگوشیاں مدھم سُروں میں چار سو تیری فرقت میں کبھی یوں بھی گذر جاتی ہے رات 8 ہے وہ خوش قسمت بہت جس کو کھرا ساتھی ملا دوست ورنہ مخلص و غمخوار ملتا ہے کِسے دوستی پر بھی ملمع، پیار میں بھی ہے ریا آج کی دنیا میں سچا پیار ملتا ہے کِسے کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ351۔353 119۔ آگے بڑھتے رہو آگے بڑھتے رہو دمبدم دوستو دیکھو رکنے نہ پائیں قدم دوستو ناخدا گر خدا کو بناتے رہے ساحلوں پہ سفینہ بھی آ جائے گا اُس کے حکموں پہ سر جو جھکاتے رہے زندگی کا قرینہ بھی آ جائے گا ساتھ وہ ہے تو پھر کیسا غم دوستو آگے بڑھتے رہو دمبدم دوستو جو خلافت کے دامن کو تھامے رہے رحمتوں کی قبائیں بھی پا جائیں گے اُس کی رسی کو مضبوط پکڑیں گے جو نصرتوں کی ردائیں بھی پا جائیں گے دیکھ لیں گے یہ اہل ستم دوستو آگے بڑھتے رہو دمبدم دوستو کوئی سالار جب چھوڑ کے چل دیا مضطرب کس قدر کارواں ہوگیا جذبہ ہائے جنوں پر سلامت رہے پل کو ٹھٹکا پھر آگے رواں ہوگیا ہے اُسی کا یہ فضل و کرم دوستو آگے بڑھتے رہو دمبدم دوستو ماں کی آغوش میں جیسے بچہ رہے یوں خدا نے ہمیں گود میں لے لیا اُس نے بے سائباں ہم کو چھوڑا نہیں گر لیا ایک تو دوسرا دے دیا اُس نے رکھا ہمارا بھرم دوستو آگے بڑھتے رہو دمبدم دوستو اک خدا کا چنیدہ کڑے وقت میں دلفگاروں کو پھر تھامنے آگیا روپ جس کا نگاہوں سے اوجھل رہا اک نئے روپ میں سامنے آ گیا اب ہے سب میں وہی محترم دوستو آگے بڑھتے رہو دمبدم دوستو لے کے نام خدا، لے کے نام نبی اپنے جذبوں کو مہمیز کرتے چلو راستے میں وفا کے جلاؤ دیئے اور قدم تیز سے تیز کرتے چلو ہیچ ہیں راہ کے پیچ و خم دوستو آگے بڑھتے رہو دمبدم دوستو کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ