در عدن

درعدن ایڈیشن 2008صفحہi-iv 1۔ تعارف

حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ جن کا منظوم کلام الشرکۃ الاسلامیہ لمیٹڈ شائع کرنے کا فخر حاصل کر رہی ہے اللہ تعالیٰ کے زندہ نشانوں میں سے ایک نشان ہیں ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی کتاب حقیقۃ الوحی میں فرماتے ہیں: ''سینتیسواں(٣٧)نشان یہ ہے کہ بعد اس کے خدا تعالیٰ نے حمل کے ایام میں لڑکی کی بشارت دی اور اس کی نسبت فرمایا کہ'' تُنْشَأُ فِی الْحِلْیَۃِ''یعنی زیور میں نشوونما پائے گی ۔یعنی نہ خورد سالی میں فوت ہو گی اور نہ تنگی دیکھے گی ۔ چنانچہ بعد اس کے لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام مبارکہ بیگم رکھا گیا۔'' اسی طرح آپ سے متعلق اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ وحی کی : ''نواب مبارکہ بیگم''۔            ( الحکم جلد 5نمبر 44 صفحہ3)

اس طرح حضرت اقدس ان کے حق میں فرماتے ہیں : ہوا اک خواب میں مجھ پر یہ اظہر کہ اس کو بھی ملے گا بخت برتر لقب عزت کا پاوے وہ مقرر یہی روز ازل سے ہے مقدر خدا نے چار لڑکے اور یہ دختر عطا کی پس یہ احساں ہے سراسر

الہام ''نواب مبارکہ بیگم '' میں یہ اس پہلو کی طرف بھی اشارہ تھا کہ آپ نوابی خاندان میں بیاہی جائیں گی ۔چنانچہ 17فروری1908ء کو آپ غیر متوقع طور پر حضرت نواب محمد علی خان صاحب رضی اللہ عنہ رئیس مالیر کوٹلہ سے بیاہی گئیں٭ جنہیں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام میں ''حجۃ اللہ'' کے لقب سے نوازا تھااور جن کی پاکبازی اور تقویٰ شعاری کی تعریف خدا کے مقدس مسیح نے ان الفاظ میں کی تھی۔ ''مجھے ایسے شخص کی خوش قسمتی پر رشک ہے جس کا ایسا صالح بیٹا ہو کہ باوجود بہم پہنچنے تمام اسباب اور وسائل غفلت اور عیاشی کے اپنے عنفوان جوانی میں ایسا پرہیز گار ہو'' اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ رشک اللہ تعالیٰ کی جناب میں قبول ہوا اور اللہ تعالیٰ نے نواب صاحب موصوف کو آپؑ کا نسبتی بیٹا اور آپ کو ان کا نسبتی باپ بنا دیا۔ اسی طرح حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو ایک خواب میں دکھایا گیا کہ : ''مبارکہ پنجابی زبان میں بول رہی ہے ۔مینوں کوئی نہیں کہہ سکدا کہ میں ایسی آئی جس نے ایہہ مصیبت پائی'' یعنی آپ کا وجود نہایت خیر و برکت کا موجب ہو گا۔ آپ کے کلام کو پڑھنے سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا مقصود شعر گوئی نہیں بلکہ ضرورت پر اپنے جذبات کو نظم میں ظاہر کر دینا ہے ۔کیونکہ نظم اثر انداز ہونے میں نثر پر فوقیت رکھتی ہے ۔ آپ کے کلام میں تصنع بالکل نہیں جو خیالات دماغ میں آئے ہیں ان کو بے تکلف عام فہم سلیس زبان میں نظم کا جامہ پہنا دیا گیا ہے ۔ یہ ظاہر کر دینا بھی ضروری ہے کہ اشعار لکھنے والے اپنے اشعا ر پر استادوں سے اصلاح لیا کرتے ہیں اور عام طور پر یہی دستور چلا آتا ہے لیکن یہ مجموعۂ کلام کسی حک و اصلاح کا رہینِ منت نہیں ہے ۔ مسلم خواتین اور شعر آنحضرت ؐ کی صحابیات ؓ میں سے حضرت خنساء جو نہایت بلند پایہ شاعرہ تھیں اپنے دیوان کی وجہ سے مشہورو معروف ہیں۔ان کے علاوہ بعض اور صحابیات ؓ کا بھی منظوم کلام پایا جاتا ہے ۔مثلا ً فاطمہؓ بنت رسول اللہ ؐ اور حضرت اسماءؓ بنت ابی بکرؓ الصدیق اور حضرت عاتکہؓ وغیرہ رضی اللہ عنہن۔ لیکن ہماری جماعت میں شاذ نادر ہی کوئی خاتون ایسی ہو گی جو اپنے دلی خیالات اور جذبات کو منظوم کلام کی صورت میں بیان کرتی ہوں۔ اس کی اصل وجہ جو میں خیال کرتا ہوں کہ احمدی خواتین کی عدم توجہی ہے ورنہ تعلیم کے میدان میں تو وہ بفضلہ تعالیٰ دوسری خواتین سے سبقت لے گئی ہیں۔ حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے منظوم کلام کا مجموعہ شائع کرنے سے الشرکۃ الاسلامیہ کی ایک غرض یہ بھی ہے کہ احمدی خواتین اس طرف توجہ کریں تا وہ نثر کے علاوہ منظوم کلام میں بھی اسلام کی خوبیاں بیان کر سکیں اور قومی اور ملی ترقی میں اس جہت سے بھی حصہ لے سکیں۔ بعض اوقات منظوم کلام لوگوں کے دلوں پر وہ اثر ڈالتا ہے جو نثر نہیں ڈال سکتی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودں کو یہ توفیق بخشی کہ آپ اسلام کی سچائی کے دلائل اور قرآنی حقائق و معارف اور اپنا دعویٰ اور اس کی صحت کا ثبوت نظم و نثر دونوں ہی میں اکمل صورت میں بیان کر سکیں۔ مگر شعر کہنے سے وہی مقصود ہونا چاہئے جو ہمارے آقاو مولا حضرت مسیح موعود  علیہ السلام نے فرمایا ہے یعنی ؎

کچھ شعرو شاعری سے اپنا نہیں تعلق اس ڈھب سے کوئی سمجھے بس مدعا یہی ہے دسمبر1959ء                              خاکسار:جلال الدین شمس درعدن ایڈیشن 2008صفحہ1۔4 3۔ التجائے قادیاں

یہ نظم ''الفضل '' 29 جولائی 1924 ء میں شائع ہوئی تھی اور الحکم 7اگست 1924 ء میں میرے مندرجہ ذیل نوٹ کے ساتھ شائع ہوئی اور یہ نظم حضرت مصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی نظم'' یادِ قادیان ''کے جواب میں تھی جو آپ نے سفر یورپ میں کہی تھی جس کا پہلا شعر ہے ؎

ہے رضائے ذات باری اب رضائے قادیاں مدعائے حق تعالیٰ مدعائے قادیاں اور آخری شعر ہے جب کبھی تم کو ملے موقعہ دعائے خاص کا یاد کر لینا ہمیں اہل وفائے قادیاں

جناب بیگم صاحبہ نے مندرجہ ذیل نظم ایسی حالت میں کہی جب کہ آپ کی طبیعت علیل تھی۔ اس نظم میں آپ نے قلبی کیفیات کا اظہار کیا ہے اور جس سوزوگداز سے یہ نظم کہی گئی ہے او ر جس قسم کی اضطرابی اور بے قرارئ دل کا اور انتہائی درجہ کی محبت کا اس میں اظہار کیا گیا ہے وہ قارئین کرام پڑھ کر معلوم کر سکتے ہیں اور حقیقت میں یہ نظم تمام جماعت کے قلبی جذبات کا آئینہ ہے ۔خدا تعالیٰ ان الفاظ کو جلد سے جلد قبولیت کا جامہ پہنائے اور ہماری روح رواں کو مظفر اور منصور باصد کامیابی و کامرانی واپس دارالامان لائے۔شمس

سیّدا! ہے آپ کو شوقِ لقائے قادیاں ہجر میں خوں بار ہیں یاں چشمہائے قادیاں سب تڑپتے ہیں کہاں ہے زینتِ دارالاماں رو ِنق بستانِ احمد دل ربائے قادیاں جان پڑ جاتی تھی جن سے وہ قدم ملتے نہیں قالبِ بے روح سے ہیں کوچہ ہائے قادیاں فرقتِ مہ میں ستارے ماند کیسے پڑ گئے ہے نرالا رنگ میں اپنے سماءِ قادیاں وصل کے عادی سے گھڑیاں ہجر کی کٹتی نہیں بارِ فرقت آپ کا کیونکر اٹھائے قادیاں روح بھی پاتی نہیں کچھ چین قالب کے بغیر ان کے منہ سے بھی نکل جاتا ہے ہائے قادیاں ہو وفا کو ناز جس پر جب ملے ایسا مُطاع کیوں نہ ہو مشہورِ عالم پھر وفائے قادیاں کیوں نہ تڑپا دے وہ سب دنیا کو اپنے سوز سے درد میں ڈوبی نکلتی ہے صدائے قادیاں اس گلِ رعنا کو جب گلزار میں پاتی نہیں ڈھونڈنے جاتی ہے تب بادِ صبائے قادیاں یاد جو ہر دم رہے اس کو دعائے خاص میں کس طرح دیں گے بُھلا اہلِ وفائے قادیاں کشتی ء دین محمدؐ جس نے کی تیرے سپرد ہو تری کشتی کا حافظ وہ خدائے قادیاں منتظر ہیں آئیں گے کب حضرت فضلِ عمر سوئے رہ نگراں ہیں ہر دم دیدۂ ہائے قادیاں مانگتے ہیں سب دعا ہو کر سراپا آرزو جلد شاہِ قادیاں تشریف لائے قادیاں شمسِ ملت جلد فارغ دورۂ مغرب سے ہو مطلعء مشرق سے پھیلائے ضیائے قادیاں خیریت سے آپ کو اور ساتھ سب احباب کو جامع المتفرقین جلدی سے لائے قادیاں آئیں منصور و مظفر کامیاب و کامراں قصرِ تثلیثی پہ گاڑ آئیں لوائے قادیاں پیشوائی کے لئے نکلیں گھروں سے مرد و زن یہ خبر سن کر کہ آئے پیشوائے قادیاں ابرِ رحمت ہر طرف چھائے ،چلے بادِ کرم بارشِ انوار سے پُر ہو فضائے قادیاں گلشن احمد میں آ جائے بہار اندر بہار دل لبھائے عندلیبِ خوشنوائے قادیاں معرفت کے گل کھلیں تازہ بتازہ نو بہ نو جن کی خوشبو سے مہک اٹھے ہوائے قادیاں مانگتے ہیں ہم دعائیں آپ بھی مانگیں دعا حق سنے اپنے کرم سے التجائے قادیاں علم و توفیقِ بلاغِ دین ہو ان کو عطا قادیاں والوں کا ناصر ہو خدائے قادیاں راہِ حق میں جب قدم آگے بڑھا دے ایک بار سر بھی کٹ جائے نہ پھر پیچھے ہٹائے قادیاں خا ِلق ہر دو جہاں کی رحمتیں ہو ں آپ پر والسلام اے شاہِ دیں اے رہنمائے قادیاں الحکم 7اگست 1924ء درعدن ایڈیشن 2008صفحہ5۔6 4۔ صبح مسرّت حضرت مصلح موعودؓ کے سفر یورپ سے واپسی کے موقعہ پر آج ہر ذرہ سرِ ُطور نظر آتا ہے جس طرف دیکھو وہی نور نظر آتا ہے ہم نے ہر فضل کے پردے میں اسی کو پایا وہی جلوہ ہمیں مستور نظر آتا ہے کس کے محبوب کی آمد ہے کہ ہر خورد و کلاں نشہء عشق میں مخمور نظر آتا ہے شکر کرنے کی بھی طاقت نہیں پاتا جس دم کیا ہی نادم دلِ مجبور نظر آتا ہے للہ الحمد شنیدیم کہ آں می آید سوئے گلشن چہ عجب سرو رواں می آید آج ہر ایک ہے مشتاق لقائے شہ دیں گھر میں بیٹھا کوئی رہ جائے یہ ممکن ہی نہیں ایک پر ایک گرا پڑتا ہے اللہ رے شوق خو ف ہے اوروں سے پیچھے نہ میں رہ جاؤں کہیں سر اٹھانے کی نہ بستر سے جو ہمت پائے کیا کرے آہ! وہ مجبور وہ زار و غمگیں٭ رکھ تسلی دلِ بیمار! ابھی آتے ہیں دردِ مزمن کی دوا باعث راح و تسکیں مرہمِ زخمِ دل مادرِ مہجور و حزیں زینتِ پہلوئے ما جانِ جہاں می آید گلشنِ حضرت احمد میں چلی باد بہار ابر رحمت سے برسنے لگے پیہم انوار بچے ہنستے ہیں خوشی سے تو بڑے ہیں دلشاد جذبۂ شوق کے ظاہر ہیں جبیں پر آثار تازگی آ گئی چہروں پہ کھلے جاتے ہیں دل کی حالت کا زباں کر نہیں سکتی اظہار مژدۂ وصل لئے صبحِ مسرت آئی فضلِ مولا سے ہوئی دور اداسی یک بار نور می بارد و شاداں در و سقف و دیوار اے خوشا وقت! مکیں سوئے مکاں می آید ٭ مراد امۃ الحی بیگم مرحومہ جو علیل تھیں۔''مبارکہ'' ''الفضل''25نومبر1924ء درعدن ایڈیشن 2008صفحہ7۔9 5۔ ناز ِ محبت دنیا میں حاکموں کو حکومت پہ ناز ہے جو ہیں شریف ان کو شرافت پہ ناز ہے عابد کو اپنے زہدوعبادت پہ ناز ہے اور عالموں کو علم کی دولت پہ ناز ہے حُسنِ رقم پہ ناز ہے مضموں نگار کو پھر کاتبوں کو حُسنِ کتابت پہ ناز ہے ماہر کو ہے یہ ناز کہ حاصل ہے تَجرِبہ عاقل کو اپنے فہم و فراست پہ ناز ہے جن کی بہادری کی بندھی دھاک ہر طرف تن تن کے چل رہے ہیں شجاعت پہ ناز ہے صنعت پہ اپنی ناز ہے ّصناع کو اگر مو جِد کو اپنی طبع کی جودَت پہ ناز ہے ماہر ہے سرجری میں تو ہے ڈاکٹر کو ناز حاذِق ہے گر طبیب، طبابت پہ ناز ہے بیمار کو ہے ناز کہ ''نازک مزاج ہوں'' جو تندرست ہیں انہیں صحت پہ ناز ہے منعم کو ہے یہ ناز کہ قبضہ میں مال ہے عزت خدا نے دی ہے تو عزت پہ ناز ہے ''ہیں مال مست امیر تو ہم کھال مست ہیں'' اس رنگ میں غریب کو غربت پہ ناز ہے مانا کہ انکسار بھی داخل ہےخُلق میں پر کچھ نہ کچھ خلیق کو سیرت پہ ناز ہے گوشہ نشیں کو ناز ہے یہ ''بے ریا ہوں میں'' جو نامور ہوئے انہیں شہرت پہ ناز ہے نازاں ہے اس پہ جس کو فصاحت عطا ہوئی جادو بیاں کو اپنی طلاقت پہ ناز ہے پایا جنہوں نے حسن وہ اس مے سے مست ہیں ہر اک سے بے نیاز ہیں صورت پہ ناز ہے اُڑ کر کہاں کہاں نہ گیا طائرِ خیال شاعر کو اپنے زورِ طبیعت پہ ناز ہے دیکھو جسے غرض کہ وہی مستِ ناز ہے وحشی بھی ہے اگر اسے وحشت پہ ناز ہے فانی تمام ناز ہیں باقی ہے اس کا ناز جس کو بقا پہ ناز ہے وحدت پہ ناز ہے جانِ جہاں! تجھی پہ تو زیبا ہے ناز بھی یہ کیا کہ چند روز کی حالت پہ ناز ہے کیونکر کہوں کہ ناز سے خالی ہے میرا دل پیارے مجھے بھی تیری ''محبت پہ ناز'' ہے

حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی یہ نظم اخبار ''الفضل''21اکتوبر1924ء میں ''مستورہ'' کے نام سے شائع ہوئی

درعدن ایڈیشن 2008صفحہ10۔13 6۔ صَلِّ عَلی نَبِیِّنَا۔صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ (1) میرے آقا مرے نبیء کریم بانئ پاک باز دینِ قویم شان تیری گمان سے بڑھ کر حسن و احسان میں نظیرِ عدیم تیری تعریف اور میں ناچیز گنگ ہوتی ہے یاں زبانِ کلیم تیرا رتبہ ہے فہم سے بالا سرنگوں ہو رہی ہے عقلِ سلیم مدح تیری ہے زندگی تیری تیری تعریف ہے تری تعلیم ساری دنیا کے حق میں رحمت ہے سب پہ جاری ہے تیرا فیضِ عمیم بند کر کے نہ آنکھ منہ کھولے کاش سوچے ذرا عدوِ لئیم حق نے بندوں پہ رحم فرمایا اک نمونہ بنا کے دکھلایا اسوۂ پاک خلق ربانی منتہائے کمال انسانی صَلِّ عَلٰی نَبِیِّنَا صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ (2) کیا کہیں ہم کہ کیا دیا تُونے ہر بلا سے چھڑا دیا تُو نے آدمی میں نہ آدمیت تھی اس کو انساں بنا دیا تُو نے لے کے آب حیات تو آیا مر رہے تھےجِلا دیا تُو نے سخت گردابِ گمرہی میں تھے پار ہم کو لگا دیا تُو نے ہو کے اندھے پڑے بھٹکتے تھے ہم کو بینا بنا دیا تُو نے تا بہ مقصود جو کہ پہنچائے وہی رستہ بتا دیا تُو نے روح جس کے لئے تڑپتی تھی اس کا جلوہ دکھا دیا تُو نے تیرا پایہ تو بس یہی پایا تیرے پانے سے ہی خدا پایا مصحف دید عکسِ یزدانی منتہائے کمالِ انسانی صَلِّ عَلٰی نَبِیِّنَا صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ (3) بخدا بے عدیل ہے احمدؐ شان رب جلیل ہے احمدؐ کیوں نہ پھر ہو جمال میں کامل جب کہ نورِ جمیل ہے احمدؐ با ِعث نازِ حضرتِ آدم عزّ و فخرِ خلیل ہے احمدؐ اس سے بڑھ کر ہزار شان میں ہے جس نبی کا مثیل ہے احمدؐ خُلق میں آپ ہے مثال اپنی آپ اپنی دلیل ہے احمدؐ وجہِ تسکینِ قلبِ مضطر ہے راحِ روح علیل ہے احمدؐ ''زندگی بخش جامِ احمدؐ ہے'' چشمۂ سلسبیل ہے احمدؐ بحرِ رحمت نے جوش فرمایا بن کے ابرِ کرم جو تُو آیا منبع جود وفضل رحمانی منتہائے کمالِ انسانی صَلِّ عَلٰی نَبِیِّنَا صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ (4) السّلام اے نبیؐ ء والا شان والصَّلٰوۃ اے مؤسسِ ایمان حضرت ذوالجلال کے محبوب جس کی خاطر ہوئی بنائے جہان تو مدینہ ہے علم اکمل کا تیرا سینہ ہے مہبطِ قرآن سارے جھگڑے چُکا دئیے تو نے اے شہ عدل صاحبِ فرقان پاک اسمائے انبیاء کردی ہمہ بودند زیر صد بہتان منہزم ہو چکی تھی جب توحید غالب آیا تھا لشکرِ شیطان جب زمانہ میں دورِ ظلمت تھا حق وباطل میں کچھ نہ تھی پہچان اے سراجِ منیر تو آیا ساری دنیا میں نور پھیلایا مہر عالم طبیبِ روحانی منتہائے کمالِ انسانی صَلِّ عَلٰی نَبِیِّنَا صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ ''الفضل''30اگست 1927ء درعدن ایڈیشن 2008صفحہ14۔19 7۔ پاک محمدصلی اللہ علہ وسلم مصطفی نبیوں کا سردار (1)

ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک تعلیم کا ایک بیش بہا ثمرہ اور آپ کا ایک بڑا احسان (منجملہ بے شمار احسانات کے)یہ بھی ہے کہ آپ پر سچا ایمان لانے والا کبھی رنج و غم یاس وناامیدی کا شکار ہو کر نہیں مرتا۔کیابلحاظ اس کے کہ ایک مسلمان کا مقصد اصلی دنیوی اغراض یا تعلقات سے بہت اعلی اور برتر ہے اور کیا اس لئے کہ مسلمان کا خدا حی و قیوم و قادر و توانا ہے اور اس کے ایمان کا درجہ بلند۔مبارکہ

جب وقت مصائب کی صورت اک بندے کو دکھلاتا ہے جب تاریکی چھا جاتی ہے غم کا بادل ِگھر آتا ہے ہر گام پہ پاؤں پھسلتے ہیں آفات کے جھکڑ چلتے ہیں جب صبر کا دامن ہاتھوں سے رہ رہ کر چھوٹا جاتا ہے جب آنکھیں بھر بھر آتی ہیں اُمیدیں ڈوبی جاتی ہیں جب یاس کا دریا چڑھتا ہے دل اس میں غوطے کھاتا ہے جب ناؤ بھنْور میں گھرتی ہے جب موت نظر میں پھرتی ہے جب حیلے سب ہو چکتے ہیں انساں بے بس ہو جاتا ہے جب دم سینے میں گھُٹتا ہے جب دل میں ہوکیں اٹھتی ہیں جب ''جینا'' کڑوا لگتا ہے،جب ''مرنا'' دل کو بھاتا ہے جب بڑے بڑے جی چھوڑتے ہیں جاں دینے کوسرپھوڑتے ہیں اس وقت بس ایک ''مسلماں'' ہے جو صبر کی شان دکھاتاہے یہ برکت سب ''اسلام'' کی ہے تعلیم اس رحمتِ عام کی ہے جو ''نسخۂ تسکیں'' وہ لایا دل مسلم کا ٹھیراتا ہے بے آس کی آس بن جاتا ہے بھیج درود اس محسن پر تو دن میں سو سو بار پاک محمدؐ مصطفی نبیوں کا سردار (2)

ہمارے پیارے مقدس نبی ؐ کی تعلیم ہم کو قطعی ترکِ دنیا پر مجبور نہیں کرتی اسلام ہم کو خالق و مخلوق ہر دو کے حقوق کی الگ الگ بجا آوری کا حکم دیتا ہے اور دنیا میں رہ کر پھر دنیا سے الگ رہنا سکھاتا ہے۔ یہی مذہب ہے جو فطرت کے مطابق ہے اور ہم کوکبھی بھی فطرت کے خلاف مجبور نہیں کرتا ۔بشر بن کر ہی خدا کو ڈھونڈنا یہی نمونہ بانیؐ اسلام نے دکھایا ہے جس نے سب ناقابل عمل سختیوں سے ہم کو بچا لیا ۔نیز مسلمان دنیوی امور سے متعلقہ انعامات سے ہر جائز نفع اٹھانے کے ویسے ہی حقدار ہوتے ہیں جیسا کہ دوسری قومیں مگر مقصود اصلی کو نہیں ضائع ہونے دیتے۔مبارکہ

جب دنیا میں بیداری والے دین سے غافل سوتے ہیں جب اس کے پیچھے پڑتے ہیں تو اُس کو بالکل کھوتے ہیں پر شاہِ دوعالم کے پیرو کونین کے وارث بنتے ہیں موجود ہے جو ''مقصود'' ہے جو دونوں ہی حاصل ہوتے ہیں جاری سب کاروبارِ جہاں، پر دل میں خیالِ یار نہاں دن کاموں میں کٹ جاتا ہے راتوں کو اُٹھ کر روتے ہیں دنیا سے الگ دنیا کے مکیں ملتے ہیں مگر گھلتے یہ نہیں دنیا تو ان کی ہوتی ہے یہ آپ خدا کے ہوتے ہیں سامانِ معیشت بھی کرنا پھر جیتے جی اس پر مرنا حق نفس کا بھی کرتے ہیں ادا ، بیج الفت کے بھی بوتے ہیں خالق مٹی سے گھڑتا ہے، مٹی میں رہنا پڑتا ہے یہ خاک ہی کرتی پاک بھی ہے مل مل کے یہیں دل دھوتے ہیں لاثانی اُسوہ احمد کا یہ سیدھی راہ دکھاتا ہے بے دنیا چھوڑے مسلم کو دنیا میں خدا مل جاتا ہے ہر طرح کرم فرماتا ہے بھیج درود اس محسن پر تو دن میں سو سو بار ''پاک محمد ؐمصطفی نبیوں کا سردار'' (3)

مندرجہ بالا ہر دو بند تو عام احسانوں کے ذکر پر مشتمل تھے جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم سے ہر ایک حقیقی فیض یاب ہونے والا اور آپ کا سچا پیرو حاصل اور محسوس کرتا ہے مگر ذیل کا بند محض رحمۃ للعالمین کے'' عورت کی ہستی ''پر گراں بار احسان کی یاد دہانی کے لئے ہے اور صرف ہماری صنف سے متعلق ہے۔مبارکہ

رکھ پیش نظر وہ وقت بہن، جب زندہ گاڑی جاتی تھی گھر کی دیواریں روتی تھیں ، جب دنیا میں تو آتی تھی جب باپ کی جھوٹی غیرت کا، خوں جوش میں آنے لگتا تھا جس طرح جنا ہے سانپ کوئی، یوں ماں تیری گھبراتی تھی یہ خونِ جگر سے پالنے والے تیرا خون بہاتے تھے جو نفرت تیری ذات سے تھی فطرت پر غالب آتی تھی کیا تیری قدروقیمت تھی! کچھ سوچ تری کیا عزت تھی! تھا موت سے بد تر وہ جینا قسمت سے اگر بچ جاتی تھی عورت ہونا تھی سخت خطا، تھے تجھ پر سارے جبر روا یہ جرم نہ بخشا جاتا تھا، تا مرگ سزائیں پاتی تھی گویا تو کنکر پتھر تھی، احساس نہ تھا جذبات نہ تھے توہین وہ اپنی یاد تو کر! ، ترکہ میں بانٹی جاتی تھی وہ رحمت عالم آتا ہے' تیرا حامی ہو جاتا ہے تو بھی انساں کہلاتی ہے، سب حق تیرے دلواتا ہے ان ظلموں سے چھڑواتا ہے بھیج درود اس مُحسن پر تو دن میں سو سو بار پاک محمدؐ مصطفی نبیوں کا سردار صلِّ علٰی محمَّدٍ الفضل ''خاتم النبیین نمبر مورخہ12جون 1928ء صفحہ 71۔72 درعدن ایڈیشن 2008صفحہ20-21 8۔ نعت خیر البشرصلی اللہ علیہ وسلم السّلام ! اے ہادئ راہِ ہدیٰ جانِ جہاں والصّلٰوۃ ! اے خیر مطلق اے شہِ کون و مکاں تیرے ملنے سے ملا ہم کو وہ ''مقصودِحیات'' تجھ کو پا کر ہم نے پایا ''کامِ دل'' آرامِ جاں آپ چل کر تو نے دکھلا دی رہِ وصلِ حبیب تو نے بتلایا کہ یوں ملتا ہے یارِ بے نشاں ہے کشادہ آپ کا بابِ سخا سب کے لئے زیرِ احساں کیوں نہ ہوں پھر مرد و زن پیر و جواں تشنہ روحیں ہو گئیں سیراب تیرے فیض سے علم و عرفانِ خداوندی کے بحرِ بیکراں! ایک ہی زینہ ہے اب بامِ مرادِ وصل کا بے ملے تیرے ملے ممکن نہیں وہ دل ستاں تو وہ آئینہ ہے جس نے منہ دکھایا یار کا جسمِ خاکی کو عطا کی روح اے جانِ جہاں! تا قیامت جو رہے تازہ تری تعلیم ہے تو ہے روحانی مریضوں کا طبیبِ جاوداں ہے یہی ماہِ مبیں جس پر زوال آتا نہیں ہے یہی گلشن جسے چھوتی نہیں بادِ خزاں ''کوئی راہ نزدیک تر راہِ محبت سے نہیں'' خوب فرمایا یہ نکتہ مہدئِ آخر زماں یہ دعا ہے میرا دل ہو اور تیرا پیار ہو میرا سر ہو اور تیرا پاک سنگِ آستاں یہ نظم ''جموں کاسل'' شملہ میں کہی گئی تھی۔ (روزنامہ الفضل قادیان 25 اکتوبر 1930ء) درعدن ایڈیشن 2008صفحہ22 9۔ برتر گمان و وہم سے احمد کی شان ہے بزبان حضرت اقدس مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام خوشازمان! کہ سِرِّ دلم زماں گوید ثنائے دلبرم امروز ہر زباں گوید ہمیں مراد مرا بود''کل جہاں گوید'' چہ تاب است زباں را کہ مدح آں گوید بیا نگر کہ سراپا ثنائے یار منم جدا ز یار عزیزم مدان عزتِ من رسیدہ نور ز آں آفتاب طلعتِ من بیافتم بہ طفیلِ حبیب ِجنت من زگوش ہوش بکن گوش ہر شہادتِ من ''شہید عشق'' ز خدامِ جاں نثار منم الا دلا! کہ نہ شنوی صدائے احمد را کہ تو ہنوز نہ دیدی ضیائے احمد را غذائے روح بدانم لقاء احمد را مپرس ایں کہ چہ حاصل دلائے احمد را؟ نگر بمن کہ فدائے رخِ نگار منم ''الفضل''25اکتوبر1930ء درعدن ایڈیشن 2008صفحہ23 10۔ صاحبزاد ہ مرزا ناصر احمد صاحب کے متعلق الوداعی نظم برموقع سفر انگلستان بغرض تعلیم جاتے ہو مری جان خدا حافظ و ناصر اللہ نگہبان خدا حافظ و ناصر ہر گام پہ ہمراہ رہے نصرتِ باری ہر لمحہ و ہر آن خدا حافظ و ناصر والی بنو امصارِ علومِ دوجہاں کے اے ''یوسفِ کنعان''! خدا حافظ و ناصر ہر علم سے حاصل کرو عرفانِ الٰہی بڑھتا رہے ایمان خدا حافظ و ناصر پہرہ ہو فرشتوں کا قریب آنے نہ پائے ڈرتا رہے شیطان خدا حافظ و ناصر ہر بحر کے غواص بنو لیک بایں شرط بھیگے نہیں دامان خدا حافظ و ناصر سر پاک ہو اغیار سے، دل پاک نظر پاک اے بندۂ سبحان خدا حافظ و ناصر محبوبِ حقیقی کی ''امانت'' سے خبردار اے حافظِ قرآن خدا حافظ و ناصر ''الفضل''11ستمبر1934ء درعدن ایڈیشن 2008صفحہ24۔27 11۔ گلزار محبت (1) آثارِ محبت دل جس کا ہوا حامل اسرارِ محبت چہرہ پہ برسنے لگے انوارِ محبت لائے نہ اگر لب پہ بھی گفتارِ محبت آنکھوں سے عیاں ہوتے ہیں آثارِ محبت یہ جوش دبانے سے ابھرتا ہے زیادہ مجبور ہے مجبور ہے سرشارِ محبت یہ درد کبھی رازِ نہاں رہ نہیں سکتا گو ضبط بھی کرتا رہے بیمارِ محبت پوچھے دلِ عُشّاق سے کوئی کہ یہ کیا ہے کس لُطف کی دیتا ہے کھٹک خارِ محبت اس صا ِحب آزار کی راحت ہے اسی میں بن جائے ہر اک زخم نمک خوارِ محبت ہر دم دلِ بیمار کو رہتی ہے تمنّا کچھ اور بڑھے شدّت آزارِ محبت (2) اسرارِ محبت جو کود پڑا اس میں کھلا بھید یہ اس پر پوشیدہ ہے فردوس تہِ غارِ محبت ہر بندِ غلامی سے وہ ہو جاتا ہے آزاد کہتے ہیں جسے ''بندۂِ سرکارِ محبت'' صد کوہِ مصائب کی بھی پروا نہیں کرتا وہ سر کہ اٹھا جس نے لیا بارِ محبت مطعونِ خلائق ہو تو ڈرتا نہیں اس سے ''دیوانہ'' ، پہ عاقل برہِ کارِ محبت ''اربابِ محبت'' پہ یہ کیوں طعنہ زنی ہے اے بے خبر لذتِ آزارِ محبت گھرتے ہیں اسی دائرہ میں پانچوں حواس٭ آہ جب قلب پہ پھر جاتی ہے پرکارِ محبت رہتا نہیں پھر کوئی دل و عقل میں جھگڑا ہو جاتے ہیں دونوں ہی گرفتارِ محبت ٭ پانچ حواس باطنی اور پانچ ظاہری (3) معیارِ محبت جو عشق میں کامل تھے ہوئے یار پہ قرباں تکمیل ہوئی بن گئے ''معیارِ محبت'' مالک ہوئے مر مر کے حیاتِ ابدی کے کھینچے گئے سو بار سرِ دارِ محبت کیا دیکھ لیا پھر جو پلٹ کر نہیں دیکھا کھوئے گئے دنیا سے پرستارِ محبت محبوب کو دل دے کے بنے ''دلبرِ عالم '' سر دے دئے کہلا گئے ''سردارِ محبت'' اسباق محبت کے زمانے کو پڑھائے خود ہو گئے وہ نخل ثمر بارِ محبت (4) دعا بحضور سرکارِ محبت اے شاہِ زماں! خالقِ انوارِ محبت اے جانِ جہاں! رونقِ گلزارِ محبت کوچہ میں ترے گرم ہے بازارِ محبت ''سر بیچتے پھرتے ہیں خریدارِ محبت'' ہم کو بھی عطا ہو کہ تری عام ہے رحمت اک سوزِ دروں خلعتِ دربارِ محبت شعلہ سا ترے حکم سے سینوں میں بھڑک جائے پھر بجھ نہ سکے تا بہ ابد نارِ محبت ہاتھوں میں لئے کاسۂِ دل آئے ہیں مولا خالی نہ پھریں تیرے طلبگارِ محبت آمین ''الفضل''14نومبر1936ء درعدن ایڈیشن 2008صفحہ28۔29 12۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی ایک فارسی نظم کامنظوم اُردو ترجمہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک فارسی نظم جس کا مطلع ہے ؎ ''اے محبت! عجب آثار نمایاں کردی زخم و مرہم برہِ یار تو یکساں کردی'' کا ترجمہ اردو نظم میں پیش کیا جاتا ہے( مبارکہ) اے محبت کیا اثر تو نے نمایاں کر دیا زخم و مرہم کو رہِ جاناں میں یکساں کر دیا تو نے ''مجموعِ دو عالم'' کو پریشاں کر دیا عاشقوں کو تو نے سرگرداں و حیراں کر دیا تیرے جلووں نے بہت ذرے کئے خورشید وار خاک کی چٹکی کو مثلِ ماہِ تاباں کر دیا تیرے زائر ہیں ترے اعجاز کے منت پذیر واپسی کے چُن دئے در ، دخل آساں کر دیا ہوش مندانِ جہاں کو تو نے دیوانہ کیا ''خانۂ فطنت'' بسا اوقات ویراں کر دیا کون دیتا جان دنیا میں کسی کے واسطے تو نے اس جنسِ گراں مایہ کو ارزاں کر دیا ختم ہیں تجھ پر جہاں کی شوخیاں عیّاریاں کیسے کیسے تو نے عیّاروں کو نالاں کر دیا آگرا جو آگ میں تیری وہ بھُن کر رہ گیا جانتے تھے جو نہ رونا ان کو گریاں کر دیا اے جنوں! دیوانہ ہو کر ہوش آیا ہے مجھے میں ترے قربان! تو نے یہ تو احساں کر دیا تیری خوں خواری مسلّم ہے تپِ عشقِ شدید خود تو ہے کافر مگر ہم کو مسلماں کر دیا ہر جگہ ہے شور تیرا کیا حقیقت کیا مجاز مشرک و مسلم سبھی کو ''سینہ بریاں'' کر دیا وہ مسیحا جس کو سنتے تھے ''فلک پر ہے مقیم '' لطف ہے اس خاک سے تو نے نمایاں کر دیا الفضل2مارچ1940ء درعدن ایڈیشن 2008صفحہ30۔31 13۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کےچند فارسی اشعار کا ترجمہ کلام مسیح موعود علیہ السلام اے خداوند من گناہم بخش سوئے درگاہ خویش راہم بخش روشنی بخش در دل و جانم پاک کن از گناہ پنہانم دلستانی و دلربائی کن بہ نگاہے گرہ کشائی کن در دو عالم مرا عزیز توئی وانچہ می خواہم از تو نیز توئی ترجمہ مولا مرے قدیر مرے کبریا مرے پیارے مرے حبیب مرے دلربا مرے بارِ گنہ بلا ہے مرے سر سے ٹال دو جس رہ سے تم ملو مجھے اس رہ پہ ڈال دو اک نورِ خاص مرے دل و جاں کو بخش دو میرے گناہِ ظاہر و پنہاں کو بخش دو بس اک نظر سے عقدۂ دل کھول جائیے دل لیجئے مرا مجھے اپنا بنائیے ہے قابل طلب کوئی دنیا میں اور چیز؟ تم جانتے ہو تم سے سوا کون ہے عزیز دونوں جہاں میں مایۂ راحت تمہیں تو ہو جو تم سے مانگتا ہوں وہ دولت تمہیں تو ہو الفضل9مارچ1940ء درعدن ایڈیشن 2008صفحہ32 14۔ خدا تعالیٰ کے حضوردردمندانہ التجا

حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی فرمائش پر چندفارسی اور اردو اشعار کہے جن میں خدا تعالیٰ کے حضور نہایت اعلی پیرایہ میں دردمندانہ التجا کی گئی ہے۔

مدد کن ہادیا! گم کردہ راہم گنہگارم غفورا! عفو خواہم ستم کش ام زدست خویش یارب قلم کش از کرم بر ہر گناہم ֍ الٰہی فضل سے دل شاد کر دے بنائے رنج و غم برباد کردے گرفتارِ بلا ہوں اپنے ہاتھوں بڑھا د ِست کرم آزاد کر دے الفضل15مارچ1940ء درعدن ایڈیشن 2008صفحہ33 15۔ فضلِ خدا کا سایہ ہم پر رہے ہمیشہ

مندرجہ ذیل شعر میرے میاں نواب صاحب مرحوم کی فرمائش پر ان کے کیلنڈر پر لکھنے کے لئے جن کو وہ ہمیشہ نئے سال کے کیلنڈر کے سر ورق پر لکھتے تھے۔( مبارکہ)

فضلِ خدا کا سایہ ہم پر رہے ہمیشہ ہر دن چڑھے مبارک ہر شب بخیر گزرے درعدن ایڈیشن 2008صفحہ34 16۔ اپنی مریم کا جنازہ دیکھ کر الٰہی کس دلہن کی پالکی ہے ملائک جس کو آئے ہیں اٹھانے بصد تکریم جاتے ہیں جلو میں فرشتے چادرِ انوار تانے ہزاروں رحمتوں کے زیرِ سایہ دعاؤں کے لئے بھاری خزانے ہمارے گھر کی زینت جا رہی ہے بساطِ گلشنِ جنت سجانے ''دلہن'' دولہا سے رخصت ہو رہی ہے بلا بھیجا ہے ربِّ دو سرا نے ''محبت'' تھی مجسم میری مریم چلی ہے پیار خالق سے بڑھانے دل مہجور راضی ہو رضا پر ترا چاہا نہیں چاہا خدا نے ''الفضل''10مارچ1944ء درعدن ایڈیشن 2008صفحہ35۔36 17۔ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا خدا برائے حامد احمد خان سلمہ ''محمدؐ پر ہماری جاں فدا ہے کہ وہ کوئے صنم کا رہنما ہے'' کوئی ''ہمسر نہیں جس کا نہ ثانی'' پتہ ''اس'' یار کا اس نے دیا ہے ودیعت کر کے انعام محبت محبت سے جو اپنی کھینچتا ہے کوئی اس کو نہ جب تک آپ چھوڑے کسی کو خود نہیں وہ چھوڑتا ہے نہ کیوں سو جاں سے دل اس پر فدا ہو کہ وہ محبوب ہی جان وفا ہے وہ سچا اور سچے عہد والا جو منہ سے کہہ چکا وہ کر رہا ہے نبھا دی اس نے جس سے دوستی کی پھرا ہے جب بھی بندہ ہی پھرا ہے گنہگاروں پہ وہ ''پیاروں'' کی خاطر کرم کیا کیا نہیں فرما رہا ہے دھلے جاتے ہیں دھبے دامنوں کے برابر رحمتیں برسا رہا ہے نہیں کچھ اس کے احسانوں کا بدلہ کسی نے جان بھی دے دی تو کیا ہے بڑا بدبخت ہے ظالم ہے بندہ جو اس سے عہد کرکے توڑتا ہے ذرا آگے بڑھے اور ہم نے دیکھا وہ خود ملنے کو بڑھتا آ رہا ہے محمدؐ کا خدا ہے پیار والا محمدؐ کا جہاں میں بول بالا ''الفضل''8اگست1945ء درعدن ایڈیشن 2008صفحہ37۔38 18۔ مبارک باد دعا برختم قرآن مجید

میری بھانجی آمنہ طیبہ سلمہا( بیگم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد)نے جب قرآن شریف ختم کیاتویہ چند اشعار اس وقت ان کے لئے کہے گئے تھے۔مبارکہ

مبارک تمہیں ِختم قرآن طیّب خدا کا ہوا فضل و احسان طیّب مبارک تمہیں علم کا سر پہ جھومر گلے کا بنے ہار ایمان طیّب خدا کے کرم سے پھٹکنے نہ پائے رہے دور ہی تم سے شیطان طیّب اسی سے منور ہو سینہ تمہارا کرے دل میں گھر نورِ قرآن طیّب الٰہی یہی نور چھا جائے اتنا کہ بن جائے شمعِ شبستان طیّب سبق سارے بھولیں نہ بھولے یہ ہرگز سکھاتا ہے جو تم کو قرآن طیّب بٹھا دے گا دل میں محبت خدا کی تمہیں یہ بنا دے گا انسان طیّب ملا دے گا یہ تم کو آخر خدا سے نکل جائیں گے دل کے ارمان طیّب اسی راستہ پر چلو میری پیاری یہی راہ ہے سب میں آسان طیّب مقابل میں اسلام کے سارے مذہب یہ مردے ہیں، لاشیں ہیں بے جان طیّب رہو دل سے تم دین کی اپنے شیدا کرو جان تک اس پہ قربان طیّب جہاں کام دے گی نہ اے بی نہ سی ڈی٭ وہاں کام آئے گا قرآن طیّب مسلمان بن کر دکھانا جہاں کو بنانا بہت سے مسلمان طیّب خدا سے دعا ہے کہ بن جائے اس کی مری پیاری طیب مری جان طیّب (آمین)

٭اس زمانہ میں عزیزہ کو انگریزی کا بہت شوق تھا اور انگریزی سکول میں جانے کا ارمان۔مبارکہ'' نوٹ :۔یہ بہت پرانی نظم ہے لیکن چھپی ''مصباح''1947ء میں ہے۔

درعدن ایڈیشن 2008صفحہ39۔40 19۔ اہلِ قادیاں کے نام پیغام

یہ نظم امیرصاحب جماعت احمدیہ قادیان کی درخواست اور صاحبزادہ حضرت میاں بشیر احمد صاحب سلمہ، اللہ کی تحریک پر کہی گئی تھی۔

خوشا نصیب کہ تم قادیاں میں رہتے ہو دیارِ مہدئ آخر زماں میں رہتے ہو قدم مسیح کے جس کو بنا چکے ہیں ''حرم'' تم اس زمینِ کرامت نشاں میں رہتے ہو خدا نے بخشی ہے ''الدّار'' کی نگہبانی اسی کے حفظ اسی کی اماں میں رہتے ہو فرشتے ناز کریں جس کی پہرہ داری پر ہم اس سے دور ہیں تم اس مکاں میں رہتے ہو فضا ہے جس کی معطّر نفوسِ عیسیٰ سے اسی مقامِ فلک آستاں میں رہتے ہو نہ کیوں دلوں کو سکون و سرور ہو حاصل کہ قربِ خطۂِ رشکِ جناں میں رہتے ہو تمہیں سلام و دعا ہے نصیب صبح و مسا جوارِ مرقدِ شاہِ زماں میں رہتے ہو شبیں جہاں کی ''شب قدر'' اور دن عیدیں جو ہم سے چھوٹ گیا اس جہاں میں رہتے ہو کچھ ایسے گل ہیں جو پژمردہ ہیں جدا ہو کر انہیں بھی یاد رکھو ''گلستاں'' میں رہتے ہو تمہارے دم سے ہمارے گھروں کی آبادی تمہاری قید پہ صدقے ہزار آزادی ''بلبل ہوں صحن باغ سے دور اور شکستہ پر پروانہ ہوں چراغ سے دور اور شکستہ پر'' الفضل۔5جنوری 1940ء درعدن ایڈیشن 2008صفحہ41 20۔ دعا

منصورہ بیگم سلمہا کی مسلسل بیماری بڑی ہی پریشان کن تھی کہ اس میں عزیز عبداللہ خان کی ناگہانی شدید علالت سے دل سخت اضطراب میں مبتلا ہو گیاتھا اسی سلسلہ میں رات کو دعا کرتے کرتے کچھ دعائیہ اشعار سے موزوں ہو گئے ہیں جو شائع کرنے کے لئے محض اس لئے ارسال ہیں کہ شاید کسی اور کو بھی عالم درد کی نسبتاً پرسکون گھڑیوں میں ان کا پڑھنا اچھا معلوم ہو۔''مبارکہ''

مرے مولا مرے ولی و نصیر مرے آقا مرے عزیز و قدیر اے مجیب الدعاء سمیع و بصیر قادر و مقتدر علیم و خبیر دل کی حالت کو جاننے والے اپنے بندوں کی ماننے والے اے ودود و رؤف ربِّ رحیم اے غفور! اے میرے عفو و حلیم لطف کر بخش دے خطاؤں کو ٹال دے دور کر بلاؤں کو شافی و کافی و حفیظ و سلام مالک و ذوالجلال و الاکرام خالق الخلق ربی الاعلیٰ حی و قیوم ، محیی الموتی واسطہ تجھ کو تیری قدرت کا واسطہ تجھ کو تیری رحمت کا اپنے نامِ کریم کا صدقہ اپنے فضلِ عظیم کا صدقہ تجھ کو تیرا ہی واسطہ پیارے میرے پیاروں کو دے شفا پیارے (آمین) ''الفضل''24فروری1949ء درعدن ایڈیشن 2008صفحہ42۔43 21۔ بسم اللّہ السمیع الدعاء

حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب پر بیماری کے دوبارہ حملہ پر نیز منصورہ بیگم کی علالت مسلسل پر یہ دعائیہ نظم لکھی گئی۔مندرجہ بالا دعا کا ایک شعر یہ بھی تھا جو ایک سے دو ہوجانے کی وجہ سے اس وقت میں نے نکال دیا تھا ؎

تو چاہے اگر خاک کی چٹکی میں شفا دے ہر ذرۂ ناچیز کو اکسیر بنا دے مبارکہ اے محسن و محبوب خدا اے مرے پیارے اے قوت جاں اے دلِ محزوں کے سہارے اے شاہِ جہاں! نورِ زماں، خالق و باری ہر نعمت کونین ترے نام پہ واری یارا نہیں پاتی ہے زباں شکر و ثنا کا احساں سے بندوں کو دیا اذن دعا کا کیا کرتے جو حاصل یہ وسیلہ بھی نہ ہوتا یہ آپ سے دو باتوں کا حیلہ بھی نہ ہوتا تسکینِ دل و راحتِ جاں مل ہی نہ سکتی آلامِ زمانہ سے اماں مل ہی نہ سکتی پروا نہیں باقی نہ ہو بے شک کوئی چارا کافی ہے ترے دامنِ رحمت کا سہارا مایوس کبھی تیرے سوالی نہیں پھرتے بندے تری درگاہ سے خالی نہیں پھرتے مالک ہے جو تُو چاہے تو مردوں کو جلا دے اے قادرِ مطلق! مرے پیاروں کو شفا دے ہر آن ترا حکم تو چل سکتا ہے مولیٰ وقت آبھی گیا ہو تو وہ ٹل سکتا ہے مولیٰ تقدیر یہی ہے تو یہ تقدیر بدل دے تو مالکِ تحریر ہے ''تحریر'' بدل دے آمین ''الفضل''3مارچ1949ء درعدن ایڈیشن 2008صفحہ44 22۔ قطعہ چند ہی دن کی جدائی ہے یہ مانا لیکن بدمزہ ہو گئے یہ دن بخدا تیرے بعد یہ دعا ہے کہ جدا ہو کے بھی خدمت میں رہوں زندگی میری رہے وقف دعا تیرے بعد ''الفضل''8نومبر1950ء درعدن ایڈیشن 2008صفحہ45۔46 23۔ فغان درویش در فراق حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ و دیگر بزرگان قادیان جو دور ہیں وہ پاس ہمارے کب آئیں گے دل جن کو ڈھونڈتا ہے وہ پیارے کب آئیں گے ہر دم لگی ہوئی ہے سرِراہ پر نظر آخر ہماری آنکھوں کے تارے کب آئیں گے یاربّ ہمارے ''شاہ'' کی بستی اداس ہے اس تخت گاہ کے راج دلارے کب آئیں گے لب پر دعا ہے تیرے کرم پر نگاہ ہے عاشق ترے ''حبیب'' ہمارے کب آئیں گے جو سر کو خم کئے تری تقدیر کے حضور تیری ''رضا' کو پا کے سدھارے کب آئیں گے کب راہ ان کی تیرے فرشتے کریں گے صاف کب ہوں گے واپسی کے اشارے؟ کب آئیں گے جو ٹوٹ کر گئے ہیں اسی آسمان سے پھر لوٹ کر ادھر وہ ستارے کب آئیں گے صحن چمن سے ''گل'' جو گئے مثلِ ''بوئے گل'' رحمت کی بارشوں سے نکھارے کب آئیں گے زخم جگر کو مرہمِ وصلت ملے گا کب ٹوٹے ہوئے دلوں کے سہارے کب آئیں گے دیکھیں گے کب وہ محفل کَالْبَدْرِ فِیْ النُّجُوْمِ وہ ''چاند'' کب ملے گا وہ تارے کب آئیں گے کب پھر ''منارِشرق'' پہ چمکے گا آفتاب ''شب'' کب کٹے گی ''دن'' کے نظارے کب آئیں گے کہتا ہے رو کے دل شبِ تاریکِ ہجرمیں وہ ''مہر و ماہتاب'' تمہارے کب آئیں گے؟ ماہنامہ''درویش'' قادیان ستمبر1951ء درعدن ایڈیشن 2008صفحہ47۔49 24۔ فی امان اللّٰہ اپنی محمودہ کے نام یہ نظم صاحبزادی محمودہ بیگم ص احبہ کی تقریب رخصتانہ پرکہی گئی تھی لو جاؤ تم کو سایۂ رحمت نصیب ہو بڑھتی ہوئی خدا کی عنایت نصیب ہو ہر ایک زندگی کی حلاوت نصیب ہو ہر ایک دو جہاں کی نعمت نصیب ہو علم و عمل نصیب ہو، عرفان ہو نصیب ذوقِ دعاوحسنِ عبادت نصیب ہو محمود عاقبت ہو ، رہے زیست بامراد خوشیاں نصیب، عزت و دولت نصیب ہو ہو ر ِشک آفتاب، ستارہ نصیب ہو آپ اپنی ہو مثال، وہ قسمت نصیب ہو نور و جمیل! ''نور'' دل و جاں میں بخش دے اس کے کرم سے چاند سی طلعت نصیب ہو ہر ایک دکھ سے تم کو بچائے مرا خدا ہر ہر قدم پہ اس کی اعانت نصیب ہو بس ایک درد ہو کہ رہو جس سے آشنا محبوب جاوداں کی محبت نصیب ہو ہر وقت دل میں پیار سے یادِ خدا رہے یہ ّلذت و سرور یہ ّجنت نصیب ہو تسخیرِ خَلق خُلق و محبت سے تم کرو ہر ایک سے خلوص و محبت نصیب ہو اقبال ''تاجِ سر '' ہو ترے '' سر کے تاج'' کا اس کو خدا و خلق کی خدمت نصیب ہو نکلیں تمہاری گود سے پل کر وہ حق پرست ہاتھوں سے جن کے دین کو نصرت نصیب ہو ایسی تمہاری گھر کے چراغوں کی ہو ضیاء عالَم کو جن سے نور ِہدایت نصیب ہو راضی ہوں تم سے میں۔میرا اللہ بھی رہے اس کی رضا کی تم کو مسرت نصیب ہو افضل ہمارے حکم کو تم جانتی رہیں دنیا و دیں میں تم کو فضیلت نصیب ہو راحت ہی میں نے تم سے بہر طور پائی ہے تم کو بھی دو جہان کی راحت نصیب ہو گھر تھا صدف تو تم دُرِّ خوش آب و بے بہا اس سے بھی بڑھ کے دو ِلت عصمت نصیب ہو کھٹکا نہ کوئی فعل تمہارا مجھے ، تمہیں آرامِ قلب و جان و سکینت نصیب ہو حافظ خدا رہا میں رہی آج تک امیں جس کی تھی اب اسے یہ امانت نصیب ہو ''مصباح'' مارچ1952ء بحوالہ ''الفضل'' 1941ء درعدن ایڈیشن 2008صفحہ50۔51 25۔ رخصتانہ

مندرجہ ذیل چند اشعار میری بھتیجی عزیزہ امۃالنصیر سلمہا اللہ (جو سارہ بیگم مرحومہ کے بطن سے ہیں) کی رخصتی کے دن قدرتی دردمندانہ جذبات کے ماتحت کہے گئے جو ربوہ میں شادی کی محفل میں پڑھے گئے۔ (مبارکہ بیگم 29جنوری1952ء)

(1) بزبان حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ یہ راحتِ جاں نورِ نظر تیرے حوالے یاربّ میرے گلشن کا شجر تیرے حوالے اک روٹھنے والی کی امانت تھی میرے پاس اب لختِ دل خستہ جگر تیرے حوالے ظاہر میں اسے غیر کو میں سونپ رہا ہوں کرتا ہوں حقیقت میں مگر تیرے حوالے پہنے ہے یہ ایمان کا ، اخلاق کا زیور یہ لعل یہ الماس و گہر تیرے حوالے یہ شاخ قلم کرتا ہوں پیوند کی خاطر اتنا تھا مرا کام ''ثمر'' تیرے حوالے سنت تیرے مرسل کی ادا کرتا ہوں پیارے دلبند کو سینہ سے جدا کرتا ہوں پیارے (2) بزبان عزیزہ امۃ النصیر بیگم یہ نازش صد شمس و قمر تیرے حوالے مولا میرا نایاب پدر تیرے حوالے اس گھر میں پلی، بڑھ کے جواں ہو کے چلی میں پیارے تیرے محبوب کا گھر تیرے حوالے سب چھٹتے ہیں ماں باپ بہن بھائی بھتیجے یہ باغ یہ بوٹے یہ ثمر تیرے حوالے گھروالے تو یاد آئیں گے یاد آئے گا گھر بھی یہ صحن یہ دیوار یہ در تیرے حوالے جب مجھ کو نہ پائیں گے تو گھبرائیں گے دونوں یارب میری امی کے پسر تیرے حوالے مجبور ہوں مجبور ہوں منہ موڑ رہی ہوں چھوڑا نہیں جاتا ہے مگر چھوڑ رہی ہوں ''الفضل''31جنوری 1952ء صفحہ2 درعدن ایڈیشن 2008صفحہ52۔54 26۔ '' ہو گیا آخر نمایاں فرق نورو نار کا'' جب دل صافی میں دیکھا عکس روئے یار کا بن گیا وہ بہرِ عالم آئینہ ابصار کا جس نے دیکھا اس کو اپنی ہی جھلک آئی نظر مدتوں جھگڑا چلا دنیا میں ''نور و نار '' کا خوب بھڑکی آگ عالَم بن گیا '' دارالفساد'' ابتداء سے کام ہے '' ہیزم کشی'' کفار کا پر خدا سے ڈرنے والے کب ڈرے اغیار سے بڑھ کے کب آگے قدم پیچھے ہٹا اخیار کا سب سے افضل تھے مگر اصحابِ ختم المرسلین خلق میں کامل نمونہ عشق کے کردار کا نرغہء اعداء میں گِھرکر بھی نہ ''ڈر'' جانا کبھی خواہشِ اعلائے حق تھی، شوق تھا دیدار کا کر دئیے سینے سپر مرتے گئے بڑھتے گئے منہ پھرایا کفر کے ہر لشکر جرار کا آسماں شاہد ہے ہاں اب تک زمیں کو یاد ہے کانپ جانا نعرۂ تکبیر سے کفار کا عشق میں تحلیل روحیں چُور زخموں سے بدن سایۂ شمشیر میں پیغام دینا یار کا ابر رحمت ہو کے جب سارے جہاں پر چھا چکے کہہ دیا شیطاں نے ہنس کر ''زور تھا تلوار کا'' پھر نئی صورت میں ظاہر جلوۂ جاناں ہوا نور پھر اترا جہاں میں ''مبدءُ الانوار'' کا چن لیا اک عاشق خیر الرُسل شیدائے دیں جس کی رگ رگ میں بھرا تھا عشق اپنے یار کا حکم فرمایا ''قلم تھامے ہوئے میداں میں آ'' صفحۂ قرطاس سے ردّ کر عدو کے وار کا پھینک کر شمشیر و خنجر آج دنیا کو دکھا جذبِ صادق، ر عبِ ایماں عاشقان زار کا ''گالیاں کھا کر دعا دو ، پا کے دکھ آرام دو'' روز دل پر تیر کھاؤ، حکم ہے دلدار کا نوکِ خامہ سے سلجھتی گتھیاں دیکھا کئے خوب تار و پود بگڑا دجل کی سرکار کا جھوٹ کے منہ سے اترنے جب لگی پھٹ کر نقاب ہو گیا دشوار سینا اس کے اک اک تار کا سانپ کی مانند بل کھاتا ہے ا بلیسِ لعین دیکھ کر رنگ جمالی احمدِ مختار کا حق و باطل میں کرے گی چشمِ بینا امتیاز ہو گیا آخر نمایاں فرق '' نور و نار'' کا ''الفضل''27جولائی 1952ء درعدن ایڈیشن 2008صفحہ55 27۔ ایک دعا

کافی عرصہ ہوا کسی موقعہ پر یہ دو شعر زبان و قلم سے نکلے تھے پڑھے،اب یہ یاد نہیں کہ کس وقت کس کےلئے کہے تھے مگر اب عزیزہ امۃ الرشید سلمہا کی فرمائش پر ان کی بچی کی شادی پر عزیزہ کے لے تحفہ دے دیا۔مبارکہ

یاربّ یہی دعا ہے کہ ہر کام ہو بخیر اکرام لازوال ہو انعام ہو بخیر ہر وقت عافیت رہے ہر گام ہو بخیر آغاز بھی بخیر ہو انجام بھی بخیر درعدن ایڈیشن 2008صفحہ56۔57 28۔ فحش گوئی اور نعرۂ تکبیر ایک چشم دید وگوش شنیدہ منظر سے متأثر ہو کر ہماری جان فدا سید الوراءؐ کے لئے سبھی نثار ہیں اس شاہِ دو سراؐ کے لئے بروئے کار ہے شیطاں نقاب برانداز ''بدی'' کو '' خوب ہے '' ہم کیوں کہیں ریا کے لئے طریق شرع نہیں اسوۂ رسولؐ نہیں مقام شرم ہے یہ ''غول'' اتقیا کےلئے نبیؐ کے نام مقدس کی آڑ لے لے کر وفا کی شان دکھانے چلے جفا کے لئے جو رہن ہو چکی ابلیس کے خزانے میں وہ''روح'' نذرِ شہنشاہِ انبیاءؐ کے لئے؟ دہان کھلتے ہی اڑتی ہے بوئے طاغوتی نہیں! یہ لب نہ ہلیں ذکرِ مصطفیؐ کے لئے یزیدی فعل زبانوں پہ '' یا علی '' توبہ یہ اور تیر چلے آل مرتضیٰ کے لئے اسی زباں سے اسی وقت گند بک بک کر خدا کا نام نہ لو ظالمو! خدا کے لئے سفینہ لاہور 1953ء درعدن ایڈیشن 2008صفحہ58 29۔ در ایامِ کرب مولا سمومِ غم کے تھپیڑے پنہ! پنہ! اب انتظامِ دفعِ ّبلیّا ت چاہئے جھلسے گئے ہیں سینہ و دل جاں بلب ہیں ہم جھڑیاں کرم کی ، فضل کی برسات چاہئیے مانا کہ بے عمل ہیں نہیں قا ِبل نظر ہیں ''خانہ زاد'' پھر بھی مراعات چاہئے پل مارنے کی دیر ہے حاجت روائی میں بس التفاتِ قاضیِ حاجات چاہئیے اتنا نہ کھینچ کہ رشتہ ء امید ٹوٹ جائے بگڑے نہ جس سے بات وہی بات چاہئے ''الفضل''5جون 1954ء درعدن ایڈیشن 2008صفحہ59 30۔ میدان حشر کے تصور سے نہ روک راہ میں مولا شتاب جانے دے کھلا تو ہے تری ''جنت کا باب'' جانے دے مجھے تو دامن رحمت میں ڈھانپ لے یونہی حساب مجھ سے نہ لے، بے حساب جانے دے سوال مجھ سے نہ کر اے مرے سمیع و بصیر جواب مانگ نہ اے ''لاجواب'' جانے دے مرے گناہ تیری بخشش سے بڑھ نہیں سکتے ترے نثار! حساب و کتاب جانے دے تجھے قسم ترے ''ستّار'' نام کی پیارے بروئے حشر سوال و جواب جانے دے بلا قریب کہ یہ ''خاک'' پاک ہو جائے نہ کر یہاں مری مٹی خراب جانے دے رفیقِ جاں مرے ، یارِ وفا شعار مرے یہ آج پردہ دری کیسی؟ پردہ دار مرے ''الفضل''5جون 1954ء درعدن ایڈیشن 2008صفحہ60 31۔ دعا مجمعِ اغیار میں یہ راز کی باتیں نہ کھول میرے اپنے تک ہی رہنے دے مرے احوال کو اپنی ستاری کا صدقہ میرے ستار العیوب حوضِ کوثر میں ڈبو دے نامۂ اعمال کو درعدن ایڈیشن 2008صفحہ61۔62 32۔ نشان حقیقت کی آرزو ڈاکٹر سر محمد اقبال کی نظم ؎ کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں کے جواب میں مجھے دیکھ طا ِلب منتظر مجھے دیکھ شکل مجاز میں جو خلوصِ دل کی رمق بھی ہے ترے ادّعائے نیاز میں ترے دل میں میرا ظہور ہے ، ترا سر ہی خود سرِ طور ہے تری آنکھ میں مرا نور ہے ، مجھے کون کہتا ہے دور ہے مجھے دیکھتا جو نہیں ہے تُو ' یہ تری نظر کا قصور ہے مجھے دیکھ طا ِلب منتظر مجھے دیکھ شکل مجاز میں کہ ہزارو ںسجدے تڑپ رہے ہیں تری جبین نیاز میں مجھے دیکھ رفعتِ کوہ میں مجھے دیکھ پستی ءکاہ میں مجھے دیکھ عجزِ فقیر میں ، مجھے دیکھ شوکتِ شاہ میں نہ دکھائی دوں تو یہ فکر کر کہیں فرق ہو نہ نگاہ میں مجھے دیکھ طا ِلب منتظر مجھے دیکھ شکل مجاز میں کہ ہزارو ںسجدے تڑپ رہے ہیں تری جبین نیاز میں مجھے ڈھونڈ دل کی تڑپ میں تُو، مجھے دیکھ روئے نگار میں کبھی بلبلوں کی صدا میں سن، کبھی دیکھ گل کے نکھار میں میری ایک شان خزاں میں ہے ، میری ایک شان بہار میں مجھے دیکھ طا ِلب منتظر مجھے دیکھ شکل مجاز میں کہ ہزارو ںسجدے تڑپ رہے ہیں تری جبین نیاز میں میرا نورشکل ہلال میں ، مرا حسن بدرِ کمال میں کبھی دیکھ طرزِ جمال میں،کبھی دیکھ شانِ جلال میں رگِ جان سے ہوں میں قریب تر ، ترا دل ہے کس کے خیال میں مجھے دیکھ طا ِلب منتظر مجھے دیکھ شکل مجاز میں کہ ہزارو ںسجدے تڑپ رہے ہیں تر ی جبین نیاز میں ماہنامہ مصباح اکتوبر1954ء درعدن ایڈیشن 2008صفحہ63 33۔ حضرت مصلح موعود کی یورپ سے آمد کے موقعہ پر شمس صاحب کے خط کے جواب میں صد مبارک آ رہے ہیں آج وہ روزو شب بے چین تھے جن کے لئے آگیا آخر خدا کے فضل سے دن گنا کرتے تھے جس دن کے لئے ''الفضل''26 ستمبر 1955 ء خیر مقدم نمبر درعدن ایڈیشن 2008صفحہ64۔65 34۔ بہتان پر صبر ایک یادگار نظم محترم ڈاکٹر صاحبزادہ مرزا منور احمدصاحب

1939 ء میں خاکسار مالیر کوٹلہ ایک ہفتہ کے لئے گیا ۔اس وقت خاکسار کے رشتہ کی بات محمودہ بیگم سے چل رہی تھی۔ میں نے اپنی آٹو گراف سیدہ بڑی پھوپھی جان حضرت نواب مبارکہ بیگم کو دی کہ کوئی نصیحت لکھ دیں۔ دوسرے روز خاکسار نے ان سے پوچھا کہ لکھ دیا ہے تو فرمایا ابھی ٹھہرو دعا کر رہی ہوں۔ چنانچہ دو دفعہ اسی طرح فرمایا تو پھر خاکسار کی واپسی کے دن سے ایک روز قبل مجھے بلا کر آٹوگراف دی اور کہا کے تمہارے لئے دعا بہت کی ہے اور یہ اشعار میرے دل میں آئے  ہیں جو لکھ دئے ہیں ،جن کا عنوان تھا '' بہتان پر صبر'' خاکسا رذیل میں ان کا عکس شائع کر رہا ہے تاکہ احباب جماعت اس اصول پر عمل کر کے اپنی زندگیوں کو پر سکون اور کامیاب بناسکیں اور اللہ تعالی کی حفاظت میں رہیں۔آمین ثم آمین

صبر ہر رنگ میں اچھا ہے پر اے مرد عقیل غلط الزام پہ ہو صبر تو ہے صبر جمیل لوگ سمجھیں گے تو سمجھیں یہ خطا کا ہے ثبوت تم سمجھ لو کہ ہے سو بات کی اک بات ''سکوت'' شعلہ جو دل میں بھڑکتا ہے دبا دو اس کو جھوٹ پر آگ جو لگتی ہے بجھا دو اس کو ضبط کی شان کچھ اس طرح نمایاں ہو جائے آپ سے آپ ہی دشمن بھی ہراساں ہو جائے آج جو تلخ ہے بے شک وہی کل شیریں ہے سچ کسی نے ہے کہا ''صبر کا پھل شیریں ہے'' کیا یہ بہتر نہیں مولا ترا ناصر ہو جائے نامرادئ عدو خلق پہ ظاہر ہو جائے صبر کر صبر کہ اللہ کی نصرت آئے تیری کچلی ہوئی غیرت پہ وہ غیرت کھائے وہ لڑے تیرے لئے اور تو آزاد رہے خوب نکتہ ہے یہ اللہ کرے یاد رہے لبِ خاموش کی خاطر ہی وہ لب کھولتا ہے جب نہیں بولتا بندہ تو خدا بولتا ہے مبارکہ، 3جون 1939ء

نوٹ: ماہنامہ خالد ربوہ ماہ نومبر 1957ء میں یہ نظم کچھ اختلاف سے شائع ہوئی ہے۔

درعدن ایڈیشن 2008صفحہ66۔69 35۔ تحریک دعائے خاص ''دعائے مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں'' (1) یاد ہے چھبیس مے سن آٹھ٭ حزب المومنیں! وہ غروبِ شمس وقتِ صبح محشر آفریں دیکھنے نہ پائے جی بھر کر کہ رخصت ہو گیا مشعلِ ایماں جلا کر نورِ دورِ آخریں ہاتھ ملتے رہ گئے سب عاشقانِ جاں نثار لے گیا '' جانِ جہاں'' کو گود میں جاں آفریں جسمِ اطہر کے قریں مرغانِ بسمل کی تڑپ ہو رہی تھی روحِ اقدس داخلِ خلدِ بریں جس طرف دیکھا یہی حالت تھی ہر شیدائی کی سر بہ سینہ ، چشمِ باراں، پشت خم، اندوہ گیں حسرتیں نظروں میں لے کر صورتیں سب کی سوال اب کہاں تسکین ڈھونڈیں'' بے سہارے'' دل حزیں وہ لب جاں بخش کہہ کر قم باذنی چپ ہوئے ہجر کے ماروں کو اب کوئی جلائے گا نہیں؟ کون دکھلائے گا ہم کو آسمانی روشنی؟ ''چودھویں کا چاند'' چھپ جائے گا اب زیر زمیں دونوں ہاتھوں سے لٹائے گا خزانے کون اب؟ تشنہ روحیں کس سے لیں گی آب فیضان معیں؟ (2) اک جوانِ منحنی اٹھا بعزمِ استوار اشکبار آنکھیں لبوں پر عہدِ راسخ دل نشیں شوکتِ الفاظ بھرائی ہوئی آواز میں کرب وغم میں بھی نمایاں عزم و ایمان و یقیں میں کروں گا عمر بھر تکمیل تیرے کام کی میں تری تبلیغ پھیلا دوں گا بر روئے زمیں زندگی میری کٹے گی خدمتِ اسلام میں وقف کردوں گا خدا کے نام پر جانِ حزیں یہ ارادے اور اتنی شانِ ہمت دیکھ کر اس گھڑی بھی ہو رہے تھے محوِ حیرت سامعیں درد میں ڈوبی ہوئی تقریر، سن سن کر جسے لوگ روتے تھے ملائک کہہ رہے تھے '' آفریں'' چشم ظاہر بیں سے پنہاں ہے ابھی اس کی چمک تیری قسمت کا ستارا بن چکا ماہِ مبیں (3) سر پہ اک بارِ گراں لینے کو آگے ہو گیا ناز کا پالا ہوا ماں باپ کا طفلِ حسیں کر نہیں سکتا کوئی انکار عالم ہے گواہ جو کہا تھا اس نے آخر کر دکھایا بالیقیں ذاتِ باری کی رضا ہر دم رہی پیشِ نظر خلق کی پروا نہ کی خدمت سے منہ موڑا نہیں چیر کر سینے پہاڑوں کے بڑھے اس کے قدم سینہ کوبی پر ہوئے مجبور اعدائے لعیں دشمنوں کے وار چھاتی پر لئے مردانہ وار پشت پر ڈستے رہے ہر وقت مارِ آستیں ایسی باتیں جن سے پھٹ جاتا ہے پتھر کا جگر صبر سے سنتا رہا ماتھے پہ بل آیا نہیں کوئی پوچھے کس گنہ کی اس کو ملتی تھی سزا؟ کس خطا پر تیر برسائے؟ گروہ ظالمیں! گریۂ یعقوب نصفِ شب خدا کے سامنے صبرِ ایوبی برائے خلق با خندہ جبیں صرف کر ڈالیں خدا کی راہ میں سب طاقتیں جان کی بازی لگا دی قول پر ہارا نہیں ارضِ ربوہ جس کی شاہد ہے وہ معمولی نہ تھا خونِ ''فخرالمرسلیں'' تھا شیرِ اُمّ المومنیں آج فرزندِ مسیحائے زماں بیمار ہے دعویٰ دارانِ محبت سو رہے جا کر کہیں؟ قومِ احمد جاگ ُتو بھی، جاگ اس کے واسطے ان گنت راتیں جو تیرے درد میں سویا نہیں ہو دعائے دردِ دل سالم رہے قائم رہے یہ ''دعائے احمدِ ثانی'' نویدِ اوّلیں آمین ٭ 26مئی1908ء یوم وفات حضرت مسیح موعود علیہ السلام الفضل جلسہ سالانہ نمبر1957ء درعدن ایڈیشن 2008صفحہ70۔72 36۔ دعائیں اور نصائح خالد کے نام

خالد( عبدالرحیم خاں) ایک زمانہ میں انگلینڈ میں فیل ہو کر سخت گھبرا گئے تھے۔اور ان دنوں صحت بھی کچھ خراب ہو گئی تھی ۔ اس وقت ان کو ایک دعائیہ اور نصیحت کا خط لکھا تھا۔ یونہی قلم برداشتہ۔ و ہ تہذیب النسواں لاہور 1925 ء میں شائع ہو چکا ہے اور وہ یہ ہے ۔مبارکہ

جنوری1925 السلام علیکم آگاہ ہو تم پہلے اسلام کی سنت سے دیتی ہوں دعا خالد پھر صدق و محبت سے مقبول دعائیں ہوں، سب دور بلائیں ہوں لے آئے خدا تم کو اب خیر سے، عزت سے رحمت کا رہے سایہ بڑھتا ہی رہے پایہ ہر وقت خدا رکھے آسائش و صحت سے صحت بھی ہو عزت بھی ہو دین بھی دولت بھی سیرت ہے بہت اچھی ظاہر ہو یہ صورت سے راضی ہو خدا تم سے، شیطاں ہو جدا تم سے لبریز رہے سینہ ایمان کی دولت سے فضلوں کی لگیں جھڑیاں، خوشیوں سے کٹے گھڑیاں انعام کی بارش ہو، خالق کی عنایت سے مخلوق پہ شفقت ہو، ہر اک سے مروّت ہو معمور ہو دل ہر دم خالق کی محبت سے مخدوم وہی ہو گا جو دین کا خادم ہو سب شان ہے مسلم کی اسلام کی شوکت سے بن جاؤ خدا کے تم آجائے گی خود دنیا جوڑے ہوئے ہاتھوں کو تر عرق ندامت سے ہاں یاد رہے خالد یہ شان ہے مومن کی مایوس نہیں ہوتا اللہ کی رحمت سے محنت ہو اگر سچی ضائع وہ نہیں ہوتی تم کام کئے جاؤ اخلاص سے ہمت سے ہمت نہ کبھی ہارو مایوس نہ ہو ہرگز بڑھ کر نہ ہٹو پیچھے، اکتاؤ نہ محنت سے سب فضلِ خدا ہو گا امید رکھو قائم گھبرا نہ کہیں جانا افکار کی شدت سے اللہ پہ بھروسہ ہو ، اورپاک ارادے ہوں اعمال کی پرسش ہے انسان کی نیت سے سینچا بھی کرو اس کو پانی سے دعاؤں کے پھل کھانے ہیں گر تم نے کچھ نخلِ ریاضت سے درعدن ایڈیشن 2008صفحہ73۔78 37۔ غیر مطبوعہ اشعار

حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ اپنے ایک خط میں تحریر فرماتی ہیں : '' چند جستہ مزید دعائیہ اشعار جو یاد تھے یاکوئی پرزہ وغیرہ مل گیا ارسال ہیں۔ (1) ایک دعا جو 1941 ء میں طیبہ صدیقہ بیگم مسعود احمد خان اپنے لڑکے کی بیوی کو کہہ کر دی تھی

میرے مولا کٹھن ہے راستہ اس زندگانی کا مرے ہر ہر قدم پر خود رہِ آسان پیدا کر تری نصرت سے ساری مشکلیں آسان ہو جائیں ہزاروں رحمتیں ہوں فضل کے سامان پیدا کر جو تیرے عاشقِ صادق ہوں، فخرِ آلِ احمدؑہوں الٰہی نسل سے میری تُو وہ انسان پیدا کر ٭ اس وقت ان کا پہلا بچہ ہ ونے کو تھا۔مودود احمد خان سلمہ ،تعالیٰ (2) ایک پکار کیا التجا کروں کہ مجسم دعا ہوں میں سر تا بہ پا سوال ہوں سائل نہیں ہوں میں میری خطائیں سب ترے غفراں نے ڈھانپ لیں اب بھی نگاہِ لطف کے قابل نہیں ہوں میں؟ وحشت مری نہیں ابھی ہم پایۂ جنوں اہلِ خرد پہ بار ہوں عاقل نہیں ہوں میں میرا کوئی نہیں ہے ٹھکانا ترے سوا تیرے سوا کسی کے بھی قابل نہیں ہوں میں مٹتی ہوئی خودی نے پکارا کہ اے خدا! آجا کہ تیری راہ میں حائل نہیں ہوں میں یہ راگ دل کا راز ہے سن دردآشنا کچھ ہمنوائے شورِ عنادل نہیں ہوں میں (3) دردِ دل درد کہتا ہے بہا دو خونِ دل آنکھوں سے تم عقل کہتی ہے نہیں! آہ و فغاں بے سود ہے خوف ہے مجھ کو کہ لگ جائے نہ اشکوں کی جھڑی آج میرا مطلعِ دل پھر غبار آلود ہے (4) دعائیہ مسعود احمد خان کو بچپن میں لکھ کر دیا تھا دو جہاں میں تجھ کو حاصل گوہرِ مقصود ہو اے مرے مسعود تیری عاقبت محمود ہو آمین (5) الحمد للّہ فرش سے عرش پہ پہنچی ہیں صدائیں میری میرے اللہ نے سن لی ہیں دعائیں میری (6) 1924ء کو خواب میں شعر آیا مایوس و غم زدہ کوئی اس کے سوا نہیں قبضے میں جس کے قبضۂ سیفِ خدا نہیں

''سیف خدا'' والا مصرع تو پورایا د رہا اوپر کے مصرع کا مفہوم بھی یہی تھا۔ اسی وقت اس کو لکھ بھی لیا تھا۔ ٹھیک کر کے بڑے ماموں جان مرحوم نے ''سیف خدا نہ ہو '' لکھا ہے مگر اصل اسی طرح تھا جس طرح میں نے لکھا ہے۔( مبارکہ) (7) ایک شب کو دعا کے بعد خواب میں یہ مصرعہ بآواز بلند سنائی دیا آنکھ کھلی تو حضرت اماں جان میرے قریب نماز میں مصروف تھیں ع

خیر ہی خیر رہے خیر کی راہیں کھل جائیں اس پر مصرع لگایا گیا۔ شعر ہوا ؎ وہ کرم کر کہ عدو کی بھی نگاہیں کھل جائیں ''خیر ہی خیر رہے خیر کی راہیں کھل جائیں'' (8) متفرق اور کرشمہ قادرِ باری! قدرت کا دکھلا دے بنے بنائے ٹوٹ چکے اب ٹوٹے کام بناوے الٰہی مشکلیں آسان کر دے الٰہی فضل کے سامان کر دے (9)

کسی عزیزلڑکی نے مصرع طرح غالب کا دے کر چند اشعار کہلوائے تھے، وہ بھی پانچ چھ لکھے ہوئے مل گئے ہیں

پھر دکھا دے مجھے مولا میرا شاداں ہونا صحنِ خانہ کا میرے رشکِ گلستاں ہونا ان کے آتے ہی مرے غنچۂ دل کا کھلنا اس خزاں کا مری صد فصلِ بہاراں ہونا خِلقتِ اِنس میں ہے اُنس و محبت کا خمیر گر محبت نہیں بیکار ہے انساں ہونا قابلِ رشک ہے اس خاک کے پتلے کا نصیب جس کی قسمت میں ہو خاکِ درِ جاناں ہونا رو کے کہتی ہے زمیں گر نہ سنے نامِ خدا ''ایسی بستی سے تو بہتر ہے بیاباں ہونا'' فعل دونوں ہی نہیں شیوۂِ مردِ مومن رونا تقدیر کو، تدبیر پہ نازاں ہونا للہ الحمد چلی رحمتِ باری کی نسیم دیکھنا غنچۂ دل کا گلِ خنداں ہونا درعدن ایڈیشن 2008صفحہ79۔80 38۔ یاد مشہوداوردرخواست دعائے نعم البدل

عزیزی سید مسعود احمد اور عزیزہ امۃ الرؤوف بیگم کا پلوٹھی کا بیٹا سید مشہود احمد جو بہت پیاری اداؤں والا بچہ نیز اپنی عمر سے بڑھ کر ذہین اور خوش خلق بچہ تھا چھوٹی عمر لے کر آیا تھا ۔اسے ہمارے پیارے مولیٰ نے بلا لیا۔اس جدائی سے سب عزیزوں کے دل غمگین طبعی طور پر ہو گئے۔ ا سکی والدہ اور پردیسی مجاہد باپ نیز منصور احمد اور ناصرہ بیگم سلمہا اللہ تعالیٰ پر یہ صدمہ بہت اثر انداز ہوا۔ درخواست ہے کہ سب احمدی بھائی بہن ان کے لئے خیر سے نعم البدل نیک خادم دین عطا ہونے کی دعا فرما کر ممنون فرمائیں اور ساتھ ہی عزیزہ امۃ الشکور میری نواسی عزیزی ناصر احمد کی بیٹی اور عزیزہ امۃ القدوس ( بیگم مرزا وسیم احمد) کے لئے بھی بہت دعا فرمائیں۔ ان دونوں کے ولادت پھر ہونے والی ہے۔ دونوں کے لڑکے مردہ پیدا ہو چکے ہیں ۔ اب خدا تعالیٰ زندگی والے صحیح و سالم ، ماؤں کی بھی صحت اور زندگی کے ساتھ، ان کو بیٹے نیک خادم دین ،بلند اقبال عطا فرما کر خوشی دکھائے۔ مندرجہ ذیل چند شعرمشہود کی یاد میں کہے تھے۔والسلام۔ مبارکہ۔

سکرا کر جس نے سب کے دل لبھائے چل بسا پیار کرتے تھے جسے اپنے پرائے چل بسا خلق اس معصوم کا، اس کی ادائیں دل نشین بھولنا چاہیں بھی گر تو بھولنا ممکن نہیں بھولے بھالے منہ سے وہ باتیں نرالی آن سے ننھے منے پاؤں سے چلنا وہ اس کا شان سے کشتئ عمر رواں یکدم کدھر کو مڑ گئی اک ہوا ایسی چلی کہ گھر کی رونق اڑ گئی چار دن ہنس کھیل کر مشہود رخصت ہو گئے کھل کے گلہائے مسرت داغِ حسرت دے گئے نقش دل پر ایک تصویرِ خیالی رہ گئی گود ماں کی بھر کے پھر خالی کی خالی رہ گئی اپنی رحمت سے الٰہی جلد دے نعم البدل یہ دلِ فرقت زدہ بے چین پھر پا جائیں کَل٭ ٭ کَل بمعنی سکون و آرام الفضل 12مارچ 1964ء درعدن ایڈیشن 2008صفحہ81۔82 39۔ ایک مجاہد کی جدائی پر

اسی گزشتہ جلسہ سالانہ کے قریب ایک صبح آنکھ کھلتے کھلتے یہ مصرع میری زبان پر تھا۔ع

غلامے از غلامانِ محمدؐ

اس سے پہلے کوئی خواب دیکھا ہو تو وہ فراموش ہو چکا تھا،بظاہر اس میں کوئی قابل تشویش پہلو محسوس ہونا ضروری نہ تھا تا ہم میرے دل پر اچھا اثر نہ تھا ۔وہم آتے رہے ۔ دعا کی مگر خیال سا لگا رہا۔ چوہدری فتح محمد سیال صاحب مرحوم کی اچانک وفات کی خبر پر اس خواب والے مصرعہ پر چند اشعار اس صدمہ کی حالت میں آخر صورت پذیر ہو گئے جو درج ذیل ہیں۔ اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے کسی کا بچہ وفات پا جائے تو دعا دی جاتی ہے کہ خدا نعم البدل دے مگر میرے خیال میں ان بیش قیمت خدام دین کی وفات پر اس سے بھی بڑھ کر تڑپ کے ساتھ ہر احمدی کے دل سے یہ دعا نکلنی چاہئے کہ الٰہی ہم کو نعم البدل دے۔ ایک نہیں بلکہ ایک کے عوض ہزار وں۔آمین۔مبارکہ

جواں مردے ز مردانِ محمدؐ ''غلامے از غلامانِ محمدؐ یکے از عاشقانِ روئے احمد یکے از جاں نثارانِ محمدؐ سنا ہے آج رخصت ہو گیا ہے نبھا کر عہد و پیمان محمدؐ بسرعت سوئے جنت اڑ گیا ہے مجاہد طیرِ پرّانِ محمدؐ رہا کوشاں پئے فتحِ محمدؐ فدا کی جان قربانِ محمدؐ وہ چل دیتا جدھر کرتے اشارہ علمبردارِ ذی شانِ محمدؐ اسی کوشش میں ساری عمر گزری پھلے پھولے گلستانِ محمدؐ بشر تھا پھرتے پھرتے تھک گیا تھا پنہ لی زیرِ دامانِ محمدؐ مبارک ہے یہ انجام مبارک زہے قسمت محبّانِ محمدؐ الفضل 15 اپریل 1960ء درعدن ایڈیشن 2008صفحہ83۔84 40۔ احمدی بچیوں کی جانب سے دعا برائے خلیفۃ المسیح ایدہ اللّٰہ قرار و سکوں دل کو آتا نہیں ہے کسی طور یہ چین پاتا نہیں ہے کڑا وقت ہے اور بڑا اضطراب کھلے ہیں مگر اس کی رحمت کے باب دلِ غمزدہ تُو ہراساں نہ ہو دعا کر خدا سے، پریشاں نہ ہو بڑا اس نے احسان ہم پر کیا ہے طریقہ تسلی کا بتلا دیا ہے وہ ہے تیری شہ رگ سے زیادہ قریب کہا اس نے بندوں کو اِنِّی مُجِیْب کہا میرے بندو! نہ ہونا ملول دعائیں کرو، میں کروں گا قبول وہی یاد وعدہ ترا کر رہی ہوں بڑی آس لے کر دعا کر رہی ہوں الٰہی ہمیں رنج و غم سے چھڑا دے خوشی کی خبر ہم کو جلدی سنا دے یہ ممکن نہیں ہے کہ خالی پھرے وہ ترے در پہ بندہ جو کوئی صدا دے خدایا میں ناچیز بندی ہوں تیری میں جو مانگتی ہوں مجھے وہ دلا دے ترے سامنے ہاتھ پھیلا رہی ہوں مری شرم رکھ میری جھولی بھرا دے وہ''محبوب'' تیرا ہمارا ''خلیفہ'' بہت دن سے بیمار ہے اب شفا دے گھرے ہیں جو بادل یہ پھٹ جائیں سارے ہوائیں تُورحمت کی اپنی چلا دے کرم سے انہیں تندرستی عطا کر بلائیں ٹلیں اور خوشیاں دکھا دے اندھیرا مٹے روشنی پھیل جائے اب اک اور عالم کو پھیرا دکھا دے کہو سننے والو میرے ساتھ آمین خدا تم کو بہتر سے بہتر جزا دے مصباح دسمبر 61ءو جنوری62ء درعدن ایڈیشن 2008صفحہ85۔86 41۔ پھلے اور پھولے یہ گلشن تمہارا

محترم صاحبزادہ مرز ا مبارک احمد صاحب کے فرزند اکبر صاحبزادہ مرزا مجیب احمد صاحب کی شادی کی تقریب پر حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ مدظلہا العالی نے مندرجہ ذیل اشعار رقم فرمائے ہیں اور تحریر فرمایا: ''پیارے مبارک! باوجود طبیعت آج کل اکھڑی اکھڑی رہنے کے اور صحت کی خرابی کے تمہاری فرمائش پر سات شعر سادہ سے دلی دعاؤں کے ساتھ ارسال ہیں۔

(مبارکہ1963۔11۔28) مرے پیارے بھائی کے پیارے مبارک رہیں کام سارے تمہارے مبارک مبارک ہو بیٹے کی شادی رچانا مبارک بھتیجی تمہیں بیاہ لانا مبارک یہ جوڑا ہو فضلِ خدا سے قدم ان کے بھٹکیں نہ راہِ وفا سے مبارک ملیں ان کی کھیتی سے فصلیں چلیں ان سے یارب بہت پاک نسلیں ملے ان کو ہر دین و دنیا کی نعمت دلوں پر ہو غالب خدا کی محبت پھلے اور پھولے یہ گلشن تمہارا بھرے موتیوں سے یہ دامن تمہارا دعا میری سن لے خدائے مجیب کہا جس نے رحمت سے اِنِّی قَرِیْب آمین الفضل 6 دسمبر 1963ء درعدن ایڈیشن 2008صفحہ87۔88

42۔ اپنے پیارے بھائی(حضر ت مرزا بشیر احمد رضی اللہ عنہ) کی یاد میں

کچھ زمین کی کچھ آسمان کی'' حضر ت مرزا بشیر احمد رضی اللہ عنہ ( کی وفات پر ) کون جی میرا آج بہلائے کس کو دل داغ اپنے دکھلائے راہبر! یہ بتا کہاں ہیں وہ دلِ مضطر انہیں کہاں پائے خضر ہم تو اسی کو جانیں گے جو ہمیں دلربا سے ملوائے گل کھلے ہیں بہار آئی ہے کاش ایسے میں وہ بھی آجائے ڈھونڈتی ہے جنہیں نظر میری سب تو آئے وہی نہیں آئے یہ مری آہ کا اثر تو نہیں عرش کے ہل رہے ہیں کیوں پائے ہم تو دل دے کے جان سے اپنی کوئے جاناں میں ہاتھ دھو آئے زندگی ہو جسے عزیز بہت وہ نہ مرنے کی دل میں ٹھہرائے اب تو بیٹھے ہیں گوش بر آواز چاہے جس وقت یار بلوائے الفضل سالانہ نمبر1963 درعدن ایڈیشن 2008صفحہ89۔90 43۔ مجاہدین کے نام

حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے ذیل کی نظم ناساز ئ طبع اور علالت کے باوجود کہی ہے۔آ پ کی طبیعت بالعموم ناساز رہتی ہے ۔نیز سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی علالت کی وجہ سے بھی آپ کا متفکر رہنا ایک طبعی امر ہے۔ احباب ان ایام میں خصوصیت سے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ حضور ایدہ اللہ کو اور حضرت سیدہ موصوفہ کو اپنے فضل سے صحت کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے اور ان مقدس بزرگوں کے بابرکت سایہ کو تا دیر ہمارے سروں پر قائم رکھے۔آمین

کرنا ہے جس کو پار وہ سرحد قریب ہے ہمت کرو زمینِ اَب و جَد قریب ہے ہو نذرِ جاں قبول تو مشہد قریب ہے بڑھتے چلو کہ منزلِ مقصد قریب ہے بڑھتے چلو کہ منزلِ مقصد قریب ہے ہاں ہاں یہ کیا کہ بیٹھ رہا جی کو چھوڑ کر بھائی خدا کے واسطے ایسا غضب نہ کر آنکھیں تو کھول، سر تو اٹھا ، دیکھ تو ادھر قصرِ مراد کے کلس آتے ہیں وہ نظر بڑھتے چلو کہ منزلِ مقصد قریب ہے مومن قدم بڑھا کے ہٹاتے نہیں کبھی ان کو قضا کے تیر ڈراتے نہیں کبھی مردانہ وار بڑھتے ہیں سینہ سپر کئے غازی عدو کو پیٹھ دکھاتے نہیں کبھی بڑھتے چلو کہ منزلِ مقصد قریب ہے بڑھتے چلو کہ نصرتِ حق ہے تمہارے ساتھ اپنے خدا کا ہاتھ دکھا دو خدا ئی کو جنت کے در کھلے ہیں شہیدوں کے واسطے رحمت خدا کی آئے گی خود پیشوائی کو بڑھتے چلو کہ منزل مقصد قریب ہے الفضل 23اکتوبر 1965ء درعدن ایڈیشن 2008صفحہ91 44۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی یاد میں مبارک آمدن ، رفتن مبارک

میں حضرت سیدنا بڑے بھائی صاحب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے خیالوں میں کھوئی ہوئی تھی ۔ گزری ہوئی یادوں نے تازہ ہو کر تصور میں آکر مجھے زمانہ ماضی میں پہنچا دیاتھا،دل درد فراق سے بے چین و بے قرار ہو رہا تھا کہ خودبخود بغیر کسی شعر کہنے کے ارادے کے حسب ذیل مصرع قلب میں گزرا ۔ اس پر چند اشعار ہو گئے جو ارسال ہیں۔مبارکہ

بشارت دی مسیحا کو خدا نے تمہیں پہنچے گی رحمت کی نشانی ملے گا ایک فرزندِ گرامی عطا ہو گی دلوں کو شادمانی وہ آیا ساتھ لے کر''فضل'' آیا بصد اکرام شاہِ دو جہانی مٹا کر اپنی ہستی راہِ حق میں جہاں کو اس نے بخشی زندگانی یہی مدِّنظر تھا ایک مقصد برائے دینِ احمد جانفشانی رہی نصرت خدا کی شاملِ حال گزاری زندگی با کامرانی ہمیں داغِ جدائی آج دے کر ہوا حاضر حضورِ یارِ جانی جو اُس نے '' نور'' بھیجا تھا جہاں میں ہوا واصل بہ ربِّ جاودانی وہ جس کے قلب و روح و تن مبارک مبارک آمدن ، رفتن مبارک الفضل 18دسمبر1965ء درعدن ایڈیشن 2008صفحہ92 45۔ خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ

کل عزیزی مبشر احمد ، محمودہ منور کے بڑے لڑکے نے ایک تصویر عزیزی ناصر احمد خلیفۃ المسیح الثالث کی اس گزشتہ جلسہ سالانہ کی بھیجی۔ اس کو دیکھا ۔لیٹے لیٹے ، اسی وقت یہ تین شعر زبان پر آگئے اور سوچا کہ یہ اس کے نیچے لکھے جاتے تو اچھا تھا۔ الفضل کے لئے ارسال ہیں۔مبارکہ

خدا کا فضل ہے اس کی عطا ہے محمدؐ کے وسیلے سے ملا ہے ''مبارک'' تھا یہ اُمُّ المومنیں کا ہوا مقبول رب العالمیں کا نویدِ احمد و تنویرِ محمود یہ ''موعود ابنِ موعود'' ابنِ موعود مصباح مئی1966ء درعدن ایڈیشن 2008صفحہ92 45۔ خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ

کل عزیزی مبشر احمد ، محمودہ منور کے بڑے لڑکے نے ایک تصویر عزیزی ناصر احمد خلیفۃ المسیح الثالث کی اس گزشتہ جلسہ سالانہ کی بھیجی۔ اس کو دیکھا ۔لیٹے لیٹے ، اسی وقت یہ تین شعر زبان پر آگئے اور سوچا کہ یہ اس کے نیچے لکھے جاتے تو اچھا تھا۔ الفضل کے لئے ارسال ہیں۔مبارکہ

خدا کا فضل ہے اس کی عطا ہے محمدؐ کے وسیلے سے ملا ہے ''مبارک'' تھا یہ اُمُّ المومنیں کا ہوا مقبول رب العالمیں کا نویدِ احمد و تنویرِ محمود یہ ''موعود ابنِ موعود'' ابنِ موعود مصباح مئی1966ء درعدن ایڈیشن 2008صفحہ95 47۔ تضمین بر اشعار حضرت مسیح موعودعلیہ السلام 1 کفر کے ہاتھوں سے پا سکتے نہیں جائے مفر نرغہء بد باطناں سے بڑھ رہا ہے شور و شر کیوں نہ ہو ہر اہلِ دل کا دیکھ کر زخمی جگر تیر بر معصوم می بارد خبیثِ بد گہر آسماں را حق بود گر سنگ بارد بر زمیں 2 قدر داں اسلام کے باقی نہ حامی ہے یہ عید جانتے ہیں سہل دشمن جنس ایماں کی خرید ہیں کہاں! آگے بڑھیں نصرت کو مردان سعید ہر طرف کفر است جوشاں ہمچو افواج یزید دین حق بیمار و بے کس ہمچو زین العابدین الفضل جنوری1968ء درعدن ایڈیشن 2008صفحہ96 48۔ مغفرت بے حساب ہو جائے  مرحمت لا جواب ہو جائے

شروع سال کی بات ہے ایک شب حالت خواب میں یہ شعر میری زبان پر جاری ہوا۔

مغفرت بے حساب ہو جائے مرحمت لا جواب ہو جائے قربِ رحمت مآب حاصل ہو وصلِ عالی جناب ہو جائے دل کے مالک پکار سن دل کی ہر دعا مستجاب ہو جائے بادِ رحمت سے اڑ کے ہر غم و فکر ایک بھولا سا خواب ہو جائے الفضل جولائی1970ء درعدن ایڈیشن 2008صفحہ97 49۔ سید داؤ د احمد صاحب کی وفات پر خوبیاں بھر دی تھیں مولیٰ نے دلِ داؤد میں خادم محمود پہنچا خدمتِ محمود میں ֍ سونپا ہے تمہیں خالق و مالک کی اماں میں سوئے ہو یہاں، آنکھ کھلے باغِ جناں میں درعدن ایڈیشن 2008صفحہ98 50۔ نذرِ محمود دشمن بنے جو تیرے محبوں کی جان کے وہ خود ہی اپنی جان سے بیزار ہو گئے جھنڈا رہا بلند محمدؐ کے دین کا ذ ّلت جو چاہتے تھے سبھی خوار ہو گئے الفضل جلسہ سالانہ نمبر1970ء درعدن ایڈیشن 2008صفحہ99 51۔ سونپا تمہیں خدائے جہاں کی امان میں

حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے یہ اشعار محترمہ صاحبزادی امۃ النور صاحبہ سلمہااللہ تعالیٰ بنت محترم میاں عبدالرحیم احمد صاحب کی تقریب شادی پر کہے تھے۔ الفضل۔

سونپا تمہیں خدائے جہاں کی امان میں ہر خیر بخش دے تمہیں دونوں جہان میں ربِّ ودود اپنی محبت عطا کرے آپس میں اتفاق و مودّت عطا کرے سایہ رہے سروں پہ حفیظ و رقیب کا ہوتا رہے بلند ستارہ نصیب کا الفضل3دسمبر1971ء درعدن ایڈیشن 2008صفحہ100۔101 52 ایک تحریک پر بھائیوں کی یاد میں

حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے اپنی ناسازی طبع کے باوجود اپنا تازہ منظوم کلام اور اس سے متعلق ایک بیش قیمت نوٹ الفضل میں اشاعت کی غرض سے عنایت فرمایا ہے جو ذیل میں ہدیۂ قارئین کیا جا رہا ہے ۔

نوٹ: ایک بہت پرانی دوست جو قریبی عزیز ، میرے میاں مرحوم کی بھتیجی ہیں ان کے خط میں ایک مصرعہ آخری لکھا تھا پھر چار شعر ہو گئے انہوں نے لکھا تھاعرصہ سے آپ کے خطوط میں وہ بات نہیں رہی نہ وہ مزاح کا رنگ ، نہ چمک ، نہ شوخی، نہ وہ مزے کی باتیں۔کیا ہوا !کیا بات ہے؟ان کی تحریر نے وجہ کی یاد دلا دی اور اس وقت بھائیوں کی یاد خصوصاً سب سے زیادہ محبت کرنے والے بہت خیال رکھنے والے حضرت بڑے بھائی صاحبؓ( حضرت مصلح موعود) کی یاد آئی۔ان کا ہر بات دل کی کرنا، پرانی باتیں سننا اور سنانا یاد آگیا،گو تینوں بھائیوں کی یہی کیفیت تھی بہت محبت کی، بہت قدر کی، بہت ہمدردی پیار سب سے ہی سب کی یاد نے افسردہ کر دیا۔ خصوصا اس خاص وجود کا خاص پیار بچپن سے اب تک جن کاگود میں اٹھانا بھی یاد آتا ہے آج تک۔باہر لاہور وغیرہ گاہے میرے بچپن میں بھی جاتے تو کبھی کھلونے اور کبھی اچھے اچھے کریکرز جن میں سے پیاری پیاری چیزیں نکلتی تھیں ،لاتے۔ہر شکایت ، ہر بات میں ان کے پاس یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس کرتی تھی۔گویا یہ بھی باپ اور بھائی کی محبت کا مجموعہ تھے اور بڑی ہوئی تو خاص دوست کی صورت بھی شامل ہوئی ۔ اللہ تعالی میرے بھائیوں کے درجات بلندسے بلند فرمائے۔ ان کی اولادیں سلامت رہیں، نیک رہیں، سچے دل سے خادم دین رہیں، اور ایسی ہی نسلیں چلیں اور ہمیشہ میری دعا رہتی ہے کہ ہم سب کی اولادیں در اولادیں اور نسلیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند جلیل کی روحانی اور جسمانی اولادیں ہیں اسی نام سے منسوب حقیقی رنگ میں ہونے اور روحانی اور جسمانی اولاد کہلانے کے ہمیشہ قابل رہیں ۔میرے مولا! تیرا دامن رحمت کبھی بھی ہاتھوں سے نہ چھوٹے ،اور ہم کو بھی اور ہماری سب اولادوں کو ہماری نسلوں کو تا قیامت اپنے سچے عاشق رسول کریمؐ کے عاشق حضرت مسیح موعودؑ کے فدائی بنائے رکھنا ۔ ہم جسمانی اور روحانی اولاد کہلانے کے حقیقی معنوں میں قابل رہیں۔ تیرے در سے کبھی دھتکارے نہ جائیں ۔ یہی دعا آپ کی سب روحانی نسلوں کے لئے بھی ہے ۔میرے قریب و مجیب ، نعم المجیب ! ہم تیرے ہی ہو جائیں اور تو ہمارا ہو جائے۔ تیری رضا ، تیری لازوال محبت کی دولت کا خزانہ نصیب ہو ۔آمین۔والسلام ' مبارکہ

جو مجھے چاہتے تھے ، چاہ کو پہچانتے تھے ان کی فرقت کی وہ تنویر کہاں سے لاؤں؟ کاغذی عکس بھی ہیں دل پہ مرے نقش مگر بولتی ہنستی وہ تصویر کہاں سے لاؤں؟ وہ کہاں پیار، وہ آپس میں دلوں کی باتیں آہ اس خواب کی تعبیر کہاں سے لاؤں؟ دلِ پژمردہ میں باقی نہ رہی زندہ دلی اب میں وہ شوخئ تحریر کہاں سے لاؤں؟ درعدن ایڈیشن 2008صفحہ102 53۔ ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب کی نومولود بچی کی وفات پر

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے جناب ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کی لڑکی کی ولادت پر جذبات پرمسرت کا اظہار بذریعہ پاکیزہ اشعار فرمایا تھا۔ اب اس بچی کی وفات پر اظہار رنج و افسوس بھی کیا ہے اور ایک خط ڈاکٹر صاحب کو لکھا ۔چونکہ اس کا مطالعہ ہر ایک کے لئے مؤثر و مفید ہو سکتا ہے اس لئے درج ذیل کیا جاتا ہے۔(الفضل 9دسمبر1927ء)

''پرسوں آپ کا کارڈ اورننھی عزیزہ مرحومہ کی وفات کی خبر معلوم ہو ئی دل کو بہت صدمہ ہوا۔ مجھے اس بچی کو دیکھنے کا کس قدر شوق تھا جس کی آمد پر ہم سب نے خوشی منائی مگر افسوس اس کو دیکھنا بھی نہ ملااور وہ چند روزہ مہمان سب سے بے ملے ہی رخصت ہو گئی ۔انّا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔شائد ہم لوگوں کی زیادہ خوشی میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہی بھید پوشیدہ تھا کہ یہ بہت جلد رخصت ہو جائے گی۔ جیسا کہ جلد رخصت ہونے والے مہمان کی زیادہ آؤ بھگت کی جاتی ہے اور زیادہ اظہار مسرت کیا جاتا ہے کیونکہ خاطر مدارات کے لئے نہایت کم عرصہ ہوتا ہے ۔ خدا تعالیٰ آ پ کو نعم البدل عطا کرے۔ بچی کی والدہ کو بہت صدمہ ہوگا ، کیونکہ قاعدہ ہے کہ گود کا بچہ ماں کو زیادہ محبوب ہوتاہے او ر اس کی وفات کا صدمہ خواہ دیر پا نہ ہو مگر شدید ضرور ہوتا ہے۔ اغلباً یہ وجہ ہے کہ علاوہ روحانی رشتہ کے ابھی جسمانی تعلق قطع ہوئے بھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہوتا اور ابھی وہ گویا تازہ حصۂ جسم ہوتا ہے ۔ میری طرف سے بہت بہت اظہار افسوس کریں ۔ اللہ تعالیٰ ان کو صبرو اطمینان بخشے۔ جو خد اکو منظور ہو وہی ہوتا ہے ۔چار شعراس کی یاد میں ارسال ہیں، کبھی کچھ کہنا پڑتا ہے کبھی کچھ ۔خدا کی رضا جو چاہتی ہے کراتی ہے'' ۔

ٹال سکتا ہے کون فرمانِ خدا کس طرح پوری نہ ہوتی سر نوشت آگئی تھی چند روزہ سیر کو پر اسے بھائی نہیں دنیائے زشت ہاتھ ملتے تھے ادھر تیماردار سر پٹکتی تھی ادھر وہ خوش سرشت کھل گئیں آخر قفس کی کھڑکیاں اُڑ گئی وہ بلبلِ باغِ بہشت (مبارکہ بیگم) درعدن ایڈیشن 2008صفحہ103 54۔ تحریک دعائے خاص زمانہ، زمانہ ہے محمود کا خلیفہ خدا نے جو تم کو دیا ہے عطاءِ الٰہی ہے فضلِ خدا ہے یہ مولا کا اک خاص احسان ہے وجود اس کا خود اس کی برہان ہے خلیفہ بھی ہے اور موعود بھی مبارک بھی ہے اور محمود بھی لبوں پر ترانہ ہے محمود کا زمانہ، زمانہ ہے محمود کا الفضل 4اپریل1970ء درعدن ایڈیشن 2008صفحہ104۔105 55۔ عزیزہ قیصرہ کی طرف سے اپنی امی کے نام

محترمہ بشریٰ صدیقہ صاحبہ اہلیہ مکرم صدیق یوسف صاحب دارالصدرغربی ربوہ اپنے ایک مضمون میں تحریر کرتی ہیں۔ ''آپ سیدہ کے نام لاہور سے محترمہ قیصرہ بیگم صاحبہ کا خط آیا۔ انہوں نے آپ کو ''پیاری دادی جان'' لکھا ہوا تھا۔ میں نے تعجب سے پوچھا کہ آپ کو دادی جان کس نے لکھا ہے کیونکہ میں کبھی کسی پوتے یا پوتی کو آپ کودادی جان کہتے نہیں سنا تھا۔ سب آپ کو ''بڑی اُمی'' کہتے تھے۔ آپ سیدہ نے بتایا کہ یہ میاں (یعنی حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ) کی بھتیجی قیصرہ بیگم ہیں یہ مجھے دادی جان کہتی ہیں۔ پھر آپ نے قیصرہ بیگم کی طرف سے لکھی ہوئی نظم دکھائی اور بتایا کہ قیام پاکستان سے پہلے کی بات ہے کہ عزیزی قیصرہ کے امی ابا سفر پر گئے ہوئے تھے اور اس بچی کو میرے پاس چھوڑ گئے تھے۔ یہ اپنی امی کو بہت یاد کرتی تھی اور اس کی فرمائش پر یہ نظم لکھی تھی اور اس کی طرف سے اس کی والدہ کو بھجوائی تھی۔ اب جب عزیزہ قیصرہ بیگم کا خط جو لاہور سے آیا تھا اس کے جواب میں دوبارہ یہ نظم لکھوا کر انہیں بھجوائی۔ آپ سیدہ فرماتی ہیں کہ یہ اس خط کی نقل ہے جو میں نے اشعارمیں تمہاری طرف سے تمہاری والدہ مرحومہ کو لکھا تھا''

سلام اس پہ جس شاخ کا ہوں ثمر بڑا حق ہے جس کا میری ذات پر بڑے پیار سے جس نے پالا مجھے سمجھتی ہے گھر کا اجالا مجھے سنا ہے کہ چاہو جو جنت ملے تو پاؤ گے ماؤں کے قدموں تلے خدا نے کہا یہ قرآن میں رہو اپنی ماؤں کے فرمان میں نہ بات ان کی الٹو نہ تم اف کہو وہ کچھ کہہ بھی لیں گر تو چپکے رہو ذریعہ بنے گی یہ اس کی رضا کی اطاعت ہے ماں کی اطاعت خدا کی دیا سخت حکم اور تاکید کی نہ احسان میں ماں باپ کے ہو کمی یہ فرمان ربی ہے کیوں؟ اس لئے کہ اُس نے سہے دکھ تمہارے لئے بڑے درد سہہ کر مصیبت اُٹھا کر ملایا تمہیں اس دنیا میں لا کر رکھا آنکھ میں مثلِ نورِ نظر پلایا تمہیں اپنا خون جگر خدا کی گواہی یہ جب سے سنی ہے بہت قدر دل میں مرے بڑھ گئی ہے میری پیاری اُمی میری سب سے پیاری رہوں گی دل و جاں سے تابع تمہاری دعا کر رہی ہوں کہ مولا مرے مجھے ماں کی خدمت کی توفیق دے اطاعت کروں دور ہوں یا قریب کہیں سب مجھے بادب بانصیب درعدن ایڈیشن 2008صفحہ106۔111 56۔ اسلام پر یہ سخت مصیبت کا وقت ہے

حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ فرماتی ہیں کہ ان اشعار سے خلافت ترکی مراد ہے۔

اسلام پر یہ سخت مصیبت کا وقت ہے کچھ اس میں شک نہیں کہ قیامت کا وقت ہے آفت میں گھرا ہے یہ آفت کا وقت ہے مسلم قدم بڑھا کہ یہ ہمت کا وقت ہے ہاں کچھ بھی شک نہیں ہے کہ ہمارے قصور ہیں مانگو دعائیں گر کے خدا کے حضور میں تڑپا کرے نہ اب کوئی گلفام کے لئے رونا ہو جس کو روئے وہ اسلام کے لئے ہرگز کرے نہ کام کوئی نام کے لئے ہو مال خرچ دین کے اکرام کے لئے روؤ خدا کے سامنے آنسو بہاؤ تم یہ آگ جس طرح سے بجھے اب بجھاؤ تم ہم نے خدا کے دین کو بالکل بھلا دیا جو جو تھے حکم سب کو نظر سے گرا دیا دل سے خدا کا نقشِ محبت مٹا دیا اتنے بڑھے کہ خوف بھی دل سے اٹھا دیا فریاد سب کیا کریں آقا کے سامنے تڑپا کریں نماز میں مولا کے سامنے رب کریم فضل سے سن لے دعائیں سب رحمت سے اپنی بخش ہماری خطائیں سب گر حکم ہو تو کھول کے سینہ دکھائیں سب آقا سنیں تو قصہ دل کہہ سنائیں سب دل کانپتا ہے ڈر سے زبان لڑکھڑاتی ہے رحمت تیری مگر ذرا ہمت بندھاتی ہے مانا کہ ہم تیرے بھی ہیں اور بدنما بھی ہیں ظالم بھی ہیں شریر بھی ہیں پُرریا بھی ہیں پر یہ خیال رکھ تیرے گھر کا دیا بھی ہیں بھاری تو ہے قصور پر کچھ بے خطا بھی ہیں منجدھار میں کشتی دیں پار اتارے کون؟ بگڑیں تو تیرے بن ہمیں بتلا سنوارے کون؟ اوروں سے ہوا تھا وہ ہم سے ہوا نہیں ہم سو گئے تو ہم کو جگایا گیا نہیں پہلوں سے جو سلوک تھا ہم سے کیا نہیں بھٹکے ہوؤں کو راہ بتائی تھی یا نہیں اوروں کے واسطے تیری سنت ہی اور تھی ان پر نظر رہی اور تھی شفقت ہی اور تھی بھٹکے وہ جب کبھی انہیں رستہ بتا دیا بھولے سبق جو کوئی اسے پھر پڑھا دیا سچ ہے کہ ہم کو تو نے بھی دل سے بھلا دیا بتلا تو کونسا ہے ہمیں راہ نما دیا؟ آیا ہے کون کفر کی تردید کے لئے بھیجا ہے کس کو دین کی تجدید کے لئے گھر گھر پڑا ہے دیں کا ماتم غضب ہوا لہرا رہا کفر کا پرچم غضب ہوا تجھ کو ہمارا کچھ بھی نہیں غم غضب ہوا بدتر یہودیوں سے ہوئے ہم غضب ہوا دیتے تھے دکھ سدا تیرے پیاروں سے لڑتے تھے ان کے لئے نبی پہ نبی ٹوٹے پڑتے تھے اور اس سے بڑھ کے حال تو امت کا ہو گا گیا وعدہ جو تھا حبیب سے وہ کیجئے وفا ہم مر رہے ہیں بھیج مسیحا کو اے خدا آنکھوں میں دم ہے تن سے نکل کر اٹک رہا احسن سمجھ رہے ہیں ہر امرِ قبیح کو وقت آ چکا ہے دیر سے بھیجو مسیح کو جاتا ہے وقت ہاتھ سے دن گزرے جاتے ہیں عیسیٰ نہ آج آتے ہیں نہ کل ہی آتے ہیں آقا جو بے رخی تیری جانب سے پاتے ہیں ہنستے ہیں غیر اب ہمیں دشمن بناتے٭ ہیں اب تاب صبر کی ہمیں بالکل رہی نہیں آفت وہ کونسی ہے جو ہم نے سہی نہیں قبضے میں اپنے کوئی حکومت نہیں رہی ہم لٹ گئے ہماری وہ عزت نہیں رہی تازہ ستم ہے یہ کہ خلافت نہیں رہی سب ملک ہم سے چھن گئے شوکت نہیں رہی روتے ہیں خلد میں عمر و عاص زار زار خالد کی روح جوش میں آتی ہے بار بار عیسی مسیح آؤ پیمبر کا واسطہ صورت دکھاؤ اس رخ انور کا واسطہ لو دل ہمارے ہاتھ میں دلبر کا واسطہ ہم کو بچاؤ ساقی کوثر کا واسطہ ظلموں کی تیری قوم کا کچھ انتہاء نہیں ضرب ''غلام اہانت مولا'' سنتا نہیں کب تک ہوائیں چرخ چہارم کی کھاؤ گے اے ابن مریم اب بھی تشریف لاؤ گے ہم مر چکیں گے جب ہمیں صورت دکھاؤ گے؟ کس کام آؤ گے؟ جو نہ اس وقت آؤ گے وعدہ پہ گر نہ آئے تو کیا فائدہ ہوا گو سچ تو یہ ہے کہ اب جو ہونا تھا ہو چکا ٭بناتے ہیں یعنی بیوقوف بناتے ہیں،تضحیک وتمسخر کرتے ہیں۔ از مضمون محترمہ بشریٰ صدیقہ صاحبہ ۔ربوہ